Topics

اتحاد UNITY

Unity get together and work in harmony togetherness One          example of unity  is people who agree on same belief of course or answer.

۲۔       اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالنا اتحاد (Unity) ہے۔

۳۔       محبت کا عملی مظاہرہ اتحاد ہے۔

۴۔       بہت سے فکروں کا کسی ایک نقطے پر جمع ہو جانا اتحاد ہے۔

۵۔       ان                                                                                                                                                 سے                                                                                                بھی                                                                                                      کر                                                                              سلوک                                                                                                                      جو                                                                                                            ہیں                                                                                                    تیرے                                                                                                                             بیخ                                                                                                   کن

          انداز     سیکھ           لے     شجر سایہ دار کا

روحانیت کے نقطہ نظر سے ہر آدمی ایک زنجیر کی طرح جکڑا ہوا ہے اس لئے آپس میں ایک طرح کا روحانی رشتہ ایک دوسرے کے ساتھ قائم ہے جو اتحاد پر زور دیتا ہے۔

۶۔       اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑتا ہے اس پر  میں اپنی رحمت نازل کرتا ہوں۔

۷۔       اتحاد کا سب سے بڑا مظاہرہ باجماعت نماز ہے۔ امیر غریب گورے کالے اللہ کے حضور ایک صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تمام مسلمان خانہ کعبہ کا طواف بھی ایک ساتھ اس طرح کرتے ہیں کہ عورت مرد تک کی تفریق نہیں رہتی اگر ہمارے اندر اتحاد ہو تو کوئی ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔ اس کی مثال لکریوں کے گٹھے کی سی ہے کہ جب تک ایک ساتھ بندھی ہوتی ہیں گٹھے کو توڑنا مشکل ہو جاتا ہے مگر جب تک ایک ایک لکری علیحدہ علیحدہ ہو جاتی ہے تو آسانی سے ٹوٹ جاتی ہے۔

۸۔       آپس میں مل جل کر محبت سے رہنے کا نام اتحاد ہے۔

۹۔       صحابہ کرام ؒ  کے اتحاد نے ہی مسلمانوں کو عروج تک پہچایا اور اللہ کے مشن کو دور دور تک پھیلا دیا اور دوسری قوموں کو اتحاد کی وجہ سے تسخیر کیا۔

۱۰۔    Unity is to become more powerfull in what you are doing and what you want to do.

۱۱۔    Unity is to have one go to get close to Allah.

۱۲۔    Unity is listening to someone opinion  and respecting them. At the same time surrendering your own to achieve a purpose.

۱۳۔    شعور کا لاشعور کی حدود میں داخل ہونا اتحاد ہے۔

۱۴۔    روح کا اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم ہونا اتحاد ہے۔

۱۵۔    کسی قوم کی کامیابی کے لیے اتحاد جروری ہے۔ اتحاد سے قوت کا مظاہرہ ہوتا ہے جس طرح ایک تنکے سے ضرب لگائی جائے تو چوٹ نہیں آتی مگر جب بہت سے تنکوں کو اکٹھا کر کے ضرب لگائی جائے تو چوٹ لگتی ہے۔

٭٭٭٭٭

سوالات

سوال نمبر۱۔   ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو“  کا کیا مفہوم ہے؟

سوال نمبر۲۔   اتحاد کیوں ضروری ہے اس کے کیا فوائد ہیں؟

سوال نمبر۳۔   تفرقہ بازی کے کیا کیا نقصانات ہیں؟

سوال نمبر ۴۔  اجتماعی زہن حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟

٭٭٭٭٭

          ایک دفعہ ایک خاتون میرے پاس آئیں۔ کہنے لگیں” پریشان ہوں۔“ میں نے کہا ۔” بھئی آخر کیا پریشانی ہے۔ بظاہر تو آپ ٹھیک ٹھاک لگتی ہیں۔“ کہنے لگیں ۔”بات یہ ہے کہ میرے سات بچے ہیں۔ ماشاء اللہ سب جوان ہیں۔ لڑکیاں بھی ہیں اور لڑکے بھی ہیں۔ تعلیم بھی ہے ، خوش حال بھی ہے مگر بس آپس میں طبیعتیں اور مزاج نہیں ملتے۔ کبھی کبھی تو ایسا ہو جاتا ہے کہ ایک دوسرے سے بات کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔“ میں نے کہا ۔”چلو اب جوان ہیں ان کی شادیاں کرو اور فراغت پاؤ۔“ کہنے لگی ۔” ابھی تو میں ہوں تو میرے سامنے ہی ان کا میل نہیں ہے تو میرے بعد ان میں اتحاد کیسے ہوگا؟“ میں نے کہا ۔”چلو خیر ہے۔ خواہ آپس میں ملیں نہ ملیں اپنی زندگی تو   آرام سے گزاریں گے۔ اپنے گھر تو چین سے رہیں گے۔“کہنے لگی ۔ ” مگر اگر یہ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے کام نہ آئے تو مجھے تو تکلیف ہوگی کیونکہ میں ان سب کی ماں ہوں۔ جس طرح ان سب کی تکلیف کو میں اپنا دکھ سمجھتی ہوں اسی طرح یہ چاہتی ہوں کہ یہ سب بھی ایک دوسرے کی تکلیف کو اپنا دکھ سمجھیں۔

          خیر اس خاتون کو تو میں نے سمجھ بجھا کے رخصت کیا مگر میں غور کرنے لگی کہ ماں اپنی تخلیق اپنے ہی رنگوں سے کرنا چاہتی ہے۔ جیسا ذہن اور مزاج ماں کا ہے ویسا ہی وہ اپنی اولاد کا دیکھنا چاہتی ہے۔  اپنے بچوں کے لیے ماں ایک نقشہ تیار کرتی ہے۔ اس نقشہ سے ہٹ کر تعمیر ہو جائے تو ماں کو دکھ پہنچتا ہے۔ جب میں نے مزید اس واقعہ پر غور کیا تو یہ بات سامنے ائی کہ بچوں میں اپس میں میل جول اس لئے نہیں ہے کہ ماں کے ساتھ بچوں کی ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے۔ اگر ہر بچے کا ذہن ماں سے مل جائے تو بچوں کا آپس میں بھی سلوک ہو جائے گا کیونکہ ماں مرکزی کردار ہے تب مین سوچنے لگی کہ سب سے بڑا اتحاد تو بندے اور خالق کا ہے۔ آج کے دور میں ساری دنیا میں فساد اور خون ریزی پھیلی ہوئی ہے۔ اسلحہ کا استعمال دشمن پر کم اور اپنوں پر زیادہ ہو رہا ہے۔ اس انتشار کی وجہ یہی دکھائی دیتی ہے کہ سب کے ذہنوں کی مرکزیت ٹوٹ گئی ہے۔ کسی نے اپنی انا کو اپنا مرکز بنا لیا ہے کسی نے سونا چاندی کو اپنا مرکز  مان لیا ہے۔ کسی نے اولاد کی محبت کو سب کچھ سمجھ لیا ہے اور اس کے لیے حلال و حرام کی تمیز چھوڑ دی ہے۔ قرآن نے وہ قوتیں جو بندے کے ذہن سے اللہ کی مرکزیت کے تصور کو توڑتی ہیں انہیں طاغوت کا نام دیا ہے۔ جب بندہ اللہ کے سوا دنیاوی عیش و آرام کی چیزوں سے دل لگا لیتا ہے تو اس کے اندر خودغرضی آجاتی ہے اور خود غرضی کی وجہ سے تفرقہ پسندی آ جاتی ہے۔ جسے اللہ نے کسی طور بھی پسند نہیں کیا ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ تم سب ہمارے پاس سے ہی ائے ہو اور ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنے والے ہو۔ یہ انسان کی زندگی کا ایک سفر ہے کہ جو اللہ کے ذہن یا علم سے شروع ہو کر اس کے علم پر ہی ختم ہوتا ہے اس دنیا میں آدمی اپنے ارادے سے راستہ اختیار کرتا ہے۔ اگر ناپسندیدہ راستہ اختیار کرے گا تو اللہ کی بندے سے اور بندے کی اللہ سے دوری بڑھتی ہی جائے گی۔ اللہ سے دوری اللہ کا قہر ہے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کی قہر میں داخل ہو جائے گا۔ کہنا یہ ہے کہ ہر بندہ اس دنیا میں اللہ تک جانے کا ایک راستہ اختیار کرتا ہے جب وہ اپنے ارادے سے اس پر چل پڑتا ہے تو وہ اللہ سے اسی راستے پر ملتا ہے۔ مگر ایک راستے پر خوشیاں ہیں دوسرے میں غم و اندوہ ہے اور اللہ ہی خیر و شر کا مالک ہے۔ اللہ پاک اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ ” دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے اور اہل کتاب نے جو اختلاف کیا تو علم حاصل ہونے کے بعد آپس کی ضد سے کیا اور جو شخص اللہ کی ایتوں کو نہ مانے تو اللہ جلد حساب لینے والا۔“ ( سورہ آل عمران ۔۱۹)

          آج جو ہم دین میں بے شمار فرقہ بندیاں دیکھ رہے ہیں اس ایت کی روشنی میں آپ کو اس کی وجہ معلوم ہو جاتی  ہےکہ سب آپس کی ضد کی وجہ سے ہے۔ جب اپس میں ضد ہو جائے تو خود غرضی ہی پیدا ہوتی ہے اور پھر اتحاد ٹوٹ جاتا ہے پھر جس طرح گھر میں پھوٹ پرنے سے گھر کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ قوم میں پھوٹ پرنے سے قوم باقی نہیں رہتی اور دین میں تفرقہ پڑنے سے دین خالص نہیں رہتا۔ جس طرح بچوں میں آپس میں پھوٹ پڑ جائے تو ماں باپ کا سکون درہم برہم ہو جاتا ہے اور ماں باپ قصور وار گردانے جاتے ہیں۔ بندوں میں اپس میں پھوٹ پڑ جائے اور ماں باپ قصور وار گردانے جاتے ہیں۔ بندوں میں آپس میں پھوٹ پڑ جائے تو بندوں کے ذہن اللہ سے بدگمان ہونے لگتے ہیں۔ اللہ پاک سورہ انعام میں فرماتے ہیں۔” جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے راستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہو گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں۔ ان کا کام خدا کے حوالے پھر جو جو کچھ وہ کرتے رہتے ہیں وہ ان کو بتائے گا۔“ ( آیت : ۱۵۹)۔ گھروں میں ذہنی دوریاں اپس میں بدگمانیاں پیدا کرتی ہیں اسی طرح قوم و ملک میں تفرقہ بندیاں ملک و قوم میں خانہ جنگیاں پیدا کرتی ہیں اور دین میں تفرقہ اللہ سے بندوں کو بدگمان کر دیتا ہے جب کہ اللہ پاک اپنی مخلوق کے لیے انتہائی رحیم و کریم ہے اور اپنی بندگی کے دائرے سے کسی کو خارج نہیں کرتے۔ بندہ خود ہی اسے توڑنے کے چکر میں لگا رہتا ہے۔

          اتحاد کے جو دنیاوی فوائد ہیں وہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ انسان کی زندگی اجتماعی ہے وہ تنہا نہیں رہ سکتا۔ اجتماعی زندگی میں وہ ایک دوسرے سے سیکھتا بھی ہے۔ اگر ہم غور کریں تو ہماری ساری زندگی اک دوسرے کی نقل دکھائی دیتی ہے۔ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں باپ کی نقل کرتا  ہےتو سیکھتا ہے۔ اسی طرح بڑا ہو کر ارد گرد کے ماحول کی نقل کرتا ہے  تو معاشرتی رنگ اس پر چڑھتا ہے اور وہ معاشرے کا ایک فرد بن جاتا ہے۔غرضیکہ وہ جس جس کی نقل کرتا جاتا ہے اسی کا ایک جز بن جاتا ہے اور اسی کے ساتھ وابستہ ہوتا جاتا ہے۔ ماں باپ کے اندر بھی بچے کے لیے یہی تقاضہ ہوتا ہے کہ وہ ان کی ہی تقلید کرے۔ بچے کو بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ماں باپ بھائی بہنوں کے ساتھ اس کی بنی رہے۔ گھر کا سکون مل جل کر رہنے میں ہے۔ اس کے علاوہ ماں باپ سے جو دین اور مذہبی عقائد ملتے ہیں بچے کے لیے  وہی دین اور انہی عقائد پر عمل کرنا آسان ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی طرزِ فکر اور فہم اسے ماں باپ سے منتقل ہوتا ہے۔ تمام مذاہب میں چند ایسے اصول ہین جو عقیدے کے اختلاف کے باوجود بھی یکساں طور پر ہر مذہب میں موجود ہیں۔ مثلاً عید تہوار کا دن جس میں ساری قوم اور ملک اکٹھے ہو کر خوشی مناتے ہیں۔ یہ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر ہونا ضرور ہے۔ مگر اس کے پس پردہ جو فکر کام کر رہی ہے وہ یہی ہے کہ ساری قوم کا ذہن ان لمحات میں ایک مرکز پر آجائے اور یہی وجہ ہے کہ ساری قوم اس دن جب ایک ہی خیال پر سوچتی ہے کہ آج عید کا دن ہے تو ساری قوم کے اوپر ایک احساس طاری ہو جاتا ہے اور سب کے زہنوں سے خوشی کی روشنیاں نکلنے لگتی ہیں۔ سارا شہر ان روشنیوں میں دوب جاتا ہے۔ یہ اتحاد کی ایک عظیم مثال ہے۔ اسی طرح حج اور مختلف مذاہب میں جو یاترا وغیرہ ہوتی ہے وہ سارے دن اسی وجہ سے منائے جاتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ایک جگہ جمع ہوں اور اپس میں تبادلہ خیال ہو۔ ظاہری طور پر بھی اور ذہنی ریز کے ایک دوسرے میں ٹرانسفر کے طور پر بھی۔ قدرت کے یہ سارے اصول انسان کے اندر کام کرنے والی فطرت پر رکھے گئے ہیں اور یہ  انسان کی ضرورت ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ سکیں۔ گویا یہ فطرت کی جانب سے ذہنی ہم آہنگی کے لئے اصول ہیں اور اس کا فائدہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے۔ اللہ پاک کی فطرت تخلیق کرنا ہے۔ تخریب کرنا اور اجاڑنا نہیں ہے۔ اتحاد اور بھائی چارہ آدمی کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتا ہے۔ گھر میں سکون  ہوگا تو گھر کے انتظامی امور بہتر طور پر ہو سکیں گے اور ذہن گھر  کو اچھے سے اچھا بنانے کی سوچتا ہے اور ملک میں سکون ہوگا تو قوم کا ذہن ملک کی بہتری اور فلاح کے لیے اچھے اچھے تعمیری منصوبے بناتا ہے اور سکون کی فضا میں اس پر آرام سے عمل کرتا ہے ۔ جن قوموں میں اپنے وطن کی محبت ہوتی ہے اور اپنے ہم وطنوں کی مھبت ہوتی ہے وہ قومیں پھلتی پھولتی ہیں  ان میں  ہر قسم کے علوم سیکھنے کی صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ اگر وہ دنیاوی علوم کی جانب توجہ کرتی ہیں تو دنیاوی ایجادات اور دنیاوی آرام و آسائش کے لیے نئی نئی چیزیں دریافت کر لیتی ہیں اور اگر روحانی علوم کی جانب توجہ کرتے ہیں تو روحانی علوم کے راستے ان پر نکل جاتے ہین۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ایک بنیادی اصول ہے جو ہر نوع کا تقاضہ ہے۔ جانور بھی اپنی نوع  کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کی زندگی بسر کرتے ہین۔ کیونکہ اس کے بغیر نسلی بڑھوت نہیں ہوتی۔ دنیا تو دنیا آسمان پر ستارے بھی ایک ساتھ رہتے  ہین۔ غرضیکہ قدرت کی تخلیق میں جدھر بھی نظر کی جائے اتحاد مخلوق کی بنیادی ضرورت دکھائی دیتی ہے۔ اتحاد ذہنی مرکزیت قائم  کرنے میں سب سے زیادہ مدد دیتا ہے۔ اس لئے کہ آدمی جب مختلف افراد اور مختلف انواع کے اندر کام کرنے والی فطرت کا مشاہدہ کرتا ہے تو فطرت کے تمام رنگ ایک ہی مرکز سے نکلتے دکھائی دیتے ہین۔

          اللہ پاک کی بنائی ہوئی کائنات میں جہاں بھی غور کریں ہر شئے ایک دوسرے سے منسلک نظر آتی ہے۔ بیج کی اپنی ایک الگ پہچان ہے۔ مگر درخت بیج سے اس طرح منسلک ہے کہ بغیر بیج کے درخت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ پھول کی اپنی ایک الگ پہچان ہے مگر بغیر ڈالی کے پھول کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ خود آدمی کی اپنی جسم کی مشینری کے اندر بے شمار پرزے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اور منسلک ہونے کی وجہ سے اکٹھے مل جل کر کام کرتے ہیں۔ جسم کا کوئی پرزہ خراب ہو جاتا ہے تو اس کا درد بدن کے روئیں روئیں کو ہوتا ہے۔ سارا جسم ایک حصہ جسم کی وجہ سے بیامر ہو جاتا ہے۔ اتحاد کی اس سے بڑی  اور کیا دلیل  ہو سکتی ہے۔ کائنات کا ہر تفکر ہمارے اپنے اندر ہی کام کر رہا ہے۔ بس ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم قدرت کی نشانیوں کو اپنے اندر ہی تلاش کریں تو قدرت ہمیں ہر وقت ایسے مواقع عطا کرتی رہتی ہے مگر افسوس تو یہ ہے کہ انسان کی توجہ خود اپنی جانب کبھی نہیں جاتی۔ وہ ہر نقائص کو اپنی ذات سے باہر تلاش کرتا ہے۔ حالنکہ اللہ پاک تو یہ کہتے ہیں کہ میں تمہارے نفسوں میں ہوں تم مجھے دیکھتے کیوں نہیں۔ جب اللہ ہمارے اندر ہے تو اللہ کی تمام نشانیاں بھی ہمارے اندر ہی ہیں۔ رگ گلو سے قریب ہونے کا مطلب بھی یہ ہے کہ اللہ ہمارے اندر ہی ہے یعنی اللہ کے نور سے ہمارا تعلق ہمارے انر یا باطن کے ذریعے ہے نہ کہ جسم کے ذریعے۔ باطن ہی جسم کو کنٹرول کرتا ہے۔ قدرت کی  تمام نشانیاں باطن سے ظاہر میں اپنا اظہار کرتی ہین۔ اگر آدمی ظاہر سے باطن میں غور کرے تو باطن میں اللہ کے نور سے ان کا رابطہ ہو جاتا ہے۔ اللہ ایک ذات ہے اور اس ایک ذات کا تعلق کائنات کے زرے ذرے سے ہے۔ جب ایک ذات ساری کائنات کی خالق بھی ہے اور ساری کنٹرولنگ پاور بھی اس کے ہاتھ میں ہے تو پھر ساری کائنات کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ قدرت کی ہر شئے ہمارے ساتھ تعاون کرتی ہے۔ مثلاً ہوا، پانی، بارش، سورج، چاند، زمین، سبزہ ، جانور غرضیکہ زمین کی ہر شئے ہمارے ساتھ اس طرح تعاون کرتی ہے کہ ہم اسے اپنے ارادے کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ گویا قدرت کی ہر شئے کا ہمارے ساتھ تعاون ہے مگر اگر نہیں ہے تو انسان کا انسان کے ساتھ ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوائے انسان کے اور جنات کے باقی ہر شئے غیر مکلف ہے یعنی انسان اور جنات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادے پر اختیار دیا ہے۔ باقی تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کے ارادے سے کام کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اور جنات کے کاموں میں گلطیاں اور کمزوریاں ہیں اور اعمال کا حساب کتاب ہے۔ مگر قدرت کی جانب سے جو نعمتیں اور رحمتیں انسان کے اوپر ہیں ان سے کون انکار کر سکتا ہے۔ اگر انسان قدرت کے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے تو راحت ہی راحت ہے۔ دنیا میں بھی وہ جنت کا آرام و سکون حاصل کر سکتا ہے۔ جن گھروں میں اتفاق، محبت اور ایثار کی فضا ہوتی ہے وہ گھر جنت کا نمونہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح جن قوموں میں باہمی سلوک اور رواداری و اتحاد  پایا جاتا ہے وہ قومیں دنیا میں بھی سپر پاور بن جاتی ہین اور اللہ کی جانب سے بھی انہں مراعات ملتی رہتی ہیں۔ زندگی تنظیم اور اتحاد کا نام ہے جو خوشی جو سکون مل جل کر زندگی گزارنے میں ملتا ہے وہ اکیلے نہیں ملتا۔ مچل مشہور ہے کہ اکیلا آدمی نہ روتا اچھا لگتا ہے نہ ہنستا ہوا اچھا لگتا ہے۔ ایک روحانی فرد کی تیاری اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اصولوں پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے اندر فطرت کے اصولوں کو پہچان کر ان کے مطابق اپنی شخصیت کو سنوارتا ہے اور اپنے اندر کام کرنے والی فطرت کے ذریعے اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ فطرت ایک ماں کی طرح ہے جس سے ہر فرد کے منسلک رہنے میں ہی عافیت ہے۔ فطرت سے منسلک  رہنا اتحاد ہے۔ ساری کائنات ایک جسم کی طرح ہے اور کائنات کا ہر فرد اس جسم کا عضو ہے۔ عضو معطل خود اپنے لیے بھی بوجھ بن جاتا ہے اور جسم کے لیے بھی۔ ایک مدت تک جسم اس کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہے اور جب ناقابل ِ برداشت ہوتا ہے تو کاٹ کر پھینک دیتا ہے۔ جب جسم کے ساتھ ایسا واقعہ پیش اتا ہے تو دل ڈرتا ہے اور دکھ کے انسو بہاتا ہے کیونکہ اتحاد کی فکر اس کی جدائی برداشت نہیں کرتی۔ کسی قوم کے ذہن جب پارہ پارہ ہو جاتے ہیں تو ساری کائنات کی فطرت میں درد کی لہریں اٹھنے لگتی ہیں۔ یہ لہریں ہورے کائناتی ادراک کو متحرک کر دیتی  ہیں۔ ادراک کے سمندر میں طوفان آجاتا ہے جس کے طوفانی تھپیڑے روحانی شعور کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ ساری کائنات میں ایک ہی روح کام کر رہی ہے اور یہ روح اللہ کی پھونکی ہوئی ہے۔ روح کے سمندر کی جب ایک روح ایک لہر کی طرح اٹھتی ہے تو اس کے ساتھ اور بھی لہریں شامل ہو جاتی ہیں۔ رھمت کا سارا سمندر جوش میں آجاتا ہے۔ قدرت کا نظام ازل سے ابد تک ایک ہی طرز میں قائم ہے۔ حرکت ہمیشہ ایک نقطے سے شروع ہو کر سارے دائرے میں پھیل جاتی ہے۔ یہ نقطہ سورس اور حرکت کا مرکز ہے۔ سارا دائرہ نقطہ ہی کا پھیلاؤ ہے۔ ایک روحانی شعور اس بات سے جب واقف ہو جاتا ہے کہ نقطے کا ظہور خود اس کے  اپنے اندر ہے یہ نقطہ روح کی ایک فکر ہے اور جب اس کی روشنی  پھیلتی ہے تو ایک عالم کو روشن کر دیتی ہے تو وہ روح کی روشنی کا طالب ہو جاتا ہے اور اس عالم کے اندر کی ہر شئے کو روح کی نظر سے دیکھتا ہے۔ روح کی ہر صلاحیت اللہ کی ایک سفت کی روشنی ہے۔ جب بندے کے اندر اللہ کی نظر کام کرنے لگتی ہے تو وہ ساری مخلوق کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے۔ تب سارا عالم اللہ کے رنگوں میں دوبا ہوا نظر آتا ہے ۔ وہ روح کی نگاہ میں ساری کائنات کو متحد دیکھتا ہے اور اتحاد کی حقیقت سے واقف ہو جاتا ہے۔

٭٭٭٭٭


Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی