Topics

غیب کا مشاہدہ ۔۔۔ایمان ہے

 

۱۔       اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں۔ ہدایت یافتہ وہ لوگ ہیں جو متقی ہو اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لائے۔ یعنی غیب ان کے مشاہدے میں ہو۔

۲۔       روحانی علوم یہ بتاتے ہیں کہ ہم اس دنیا میں آنے سے پہلے کہیں اور تھے اور ایک دن پھر ہم کو مادی وجود کو چھوڑ کر کہیں چلے جانا ہے۔ جہاں جانا ہے وہ غیب ہے۔

۳۔       ہر شئے کی حقیقت غیب میں ہے۔ اس لیے غیب پر ایمان لانا ضروری ہے۔

۴۔       غیب اللہ ہے۔ غیب پر ایمان لانا اللہ کی جانب پہلا قدم ہے۔

۵۔       غیب وہ ہے جو سامنے نہ ہو۔ ہماری مادی آنکھ ایک حد تک دیکھتی ہے جو کچھ ہمارے سامنے نہیں ہے اس کو دیکھنے سے پہلے اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔

۶۔       ظاہر کے پس پردہ محرکات کا کھوج لگانا غیب پر ایمان لانا ہے۔

۷۔       انسان کی زندگی دو طرزوں پر مشتمل ہے۔ ایک ٹھوس حواس اور ایک لطیف حواس۔ لطیف حواس کا عالم غیب ہے۔

۸۔       غیب پر ایمان لانے کا مطلب ہے جو چیز ہم مادی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے اس پر ایمان لانا جیسے اپنی روح، اللہ پاک کی ہستی، فرشتے ، جنات، ستاروں پر آباد دنیائیں، روز محشر اور مرنے کے بعد کی زندگی۔

۹۔       ہر وہ بات جو ہماری مادی آنکھ سے اوجھل ہے غیب  ہے۔ اللہ کی ہستی کو بھی ہماری مادی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ اس لئے وہ غیب ہے۔ اللہ نے ہمیں اطلاع دی ہے کہ مرنے کے بعد اللہ کے پاس جانا ہے اللہ حساب کتاب ہمارے اعمال کا لینے والے ہیں ۔ ان سب باتوں پر یقین رکھنا غیب پر ایمان لانا ہے۔

۱۰۔    غیب ایک نور ہے جو دلوں میں روشن ہے۔

۱۱۔    ایمان کی بنیاد ہی غیب پر ایمان لاناہے۔ غیب پر ایمان لانے کے لیے اپنے علم کی نفی کرنا ضروری ہے۔

۱۲۔    Allah says, “you only need to know, who I am not what I am.

۱۳۔    اللہ کی نشانیوں کو دیکھ کر غیب پر ایمان پختہ ہو جاتا ہے۔

۱۴۔    عالم غیب کی حقیقت کا ایمان ہی ہماری روحانی قوت ہے۔

۱۵۔    سورہ بقرہ کی پہلی آیتوں کے مطابق یقین مشاہدے کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ غیب پر ایمان لانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی وہ صلاحیتیں اجاگر کرے جس کے ذریعے غیب میں دیکھا جا سکتا ہے۔

۱۶۔    علم الہٰیہ بنیاد ہے اور بنیاد غیب ہے۔

۱۷۔    اللہ پاک فرماتے ہیں۔” جو ایمان والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ حق ہے ان کے رب کی طرف سے۔“ یعنی غیب ایمان والوں کے مشاہدے میں ہوتا ہے۔ اسی مشاہدے کی وجہ سے وہ شک میں مبتلا نہیں ہوتے جب کہ جو لوگ ایمان میں داخل ہیں وہ یوں کہتے ہیں ” ماذا اراد اللہ و ھذا مثلا۔“ یعنی اللہ کی کیا مراد ہے اس مثال سے یعنی وہ شک میں ہیں۔

۱۸۔    جسم ظاہر ہے اور روح پس پردہ ہے جو کہ غیب ہے۔ شعور کے ساتھ لاشعور کو جو کہ روح کا شعور ہے جان لینا، دیکھ لینا ہی غیب پر ایمان لانا ہے۔ روح کا عرفان حاصل ہو جانا ہی غیب پر ایمان لانا ہے۔

٭٭٭٭٭

سوالات

سوال نمبر۱۔   غیب کا مشاہدہ کیوں ضروری ہے؟

سوال نمبر ۲۔  یقین اور شک میں کیا فرق ہے؟

سوال نمبر۳۔   علم الہٰیہ کیا ہے اس کو کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے؟

سوال نمبر ۴۔  غیب پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے؟

سوال نمبر۵۔   علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین میں کیا فرق ہے؟

٭٭٭٭٭

          ہم ہر شئے کو حواس کے ذریعے پہچانتے ہیں۔ ہمارے اندر دو قسم کے حواس کام کر رہے ہیں۔ ایک مادی حواس جو ظاہری حواس ہیں۔  جن کا آلہ کار ہمارا مادی جسم ہے مادی حواس اور جسم کے ساتھ ہم جو کچھ حاصل کرتے ہیں وہ ظاہری دنیا کے علوم ہیں۔  دوسرے حواس باطنی حواس ہیں۔ جو روح کے حواس ہیں ۔ روح  روح اپنے حواس کے ذریعے جو علوم حاصل کرتی ہے، یہ تمام علوم غیب کے ہیں۔ روح غیب کی مخلوق ہے۔ اب قانون یہ بنا کہ جس طرح ہمارا مادی جسم دنیا میں مصروفِ عمل ہے اسی طرح  روح  بھی اپنےروحانی جسم کے ساتھ غیب میں مصروفِ عمل ہے۔ آدم روح اور جسم دونوں کا مجموعہ ہے۔ اگر ہم مستقل طور پر ایک ہی رخ کے شعور کو استعمال کرتے رہیں گے تو دوسرا رخ حواس سے چھپ جائے گا۔ جو لوگ اپنے آپ کو دنیا میں اس قدر ملوث کر لیتے ہیں کہ انہیں  لاشعور کی جانب  تفکر کرنے کا موقع نہیں ملتا وہ غیب سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتے۔ کسی چیز کو جاننے سے پہلے اس پر یقین رکھناضروری ہے۔ اس یقین کی وجہ سے دل میں اس شئے کو جاننے کی جستجو پیدا ہوتی ہے۔ یہی جستجو انسان کو قدم قدم چلا کر مطلوبہ شئے تک پہنچا دیتی ہے۔ ہمارے پاس جو علوم بھی آئے ہیں وہ پیغمبروں کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔ پیغمبروں کے پاس اللہ کے علوم جس ذریعے ہم تک پہنچے ہیں ،وہ ذریعہ وحی ہے۔ وحی اللہ کے ساتھ کلام کرنا ہے۔ بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو جو علوم عطا کیے وہ علم حاصل کرنے کا براہ راست طریقہ ہے۔ جو صرف پیغمبروں سے مخصوص ہے۔ سورہ جن کی آیت ۲۶ میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ” اللہ غیب کو جاننے والا ہے۔ پس وہ آگاہ نہیں کرتا اپنے غیب پر کسی کو بجز اس رسول کےجس کو اس نے پسند فرما لیا ہو۔ (غیب کی تعلیم کے لیے) تو مقدر کر دیتا ہے اس رسول کے اگے اور اس کے پیچھے محافظ تاکہ وہ دیکھ لےکہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے ہیں۔“

          ان آیتوں سے یہ وضاحت ہو جاتی ہے کہ اللہ نے اپنے رسولوں کو غیب کے علوم عطا فرمائے۔ وحی لانے والا فرشتہ جبرئیل علیہ السلام ہے۔ جبرئیل علیہ السلام کا کام صرف وحی کی روشنیوں کا شعور میں منتقل کر دینا ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی کے معنی سے آگاہ نہیں ہیں۔ نہ ہی وہ اللہ کے کلام کی حقیقت اور اس کے رموز سے واقف ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے۔ جیسے اپ کا دوست آپ کو وڈیو فلم دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ یہ وڈیو فلم فلاں نے اپ تک پہنچانے کو دی تھی یونی لانے والا اس وڈیو فلم کے اندر علوم سےآشنا نہیں ہے۔ وہ یہ وڈیو آپ کو دے کر چلا جاتا ہے۔ اب آپ اس وڈیو کو اپنے سیٹ پر چلا کر دیکھتے ہیں اور اس کے اندر کی فلم  سےواقف ہو جاتے ہیں۔ آپ کا دوست آپ تک صرف یہ فلم پہنچانے کا ذریعہ بنا۔ اسی طرح حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی پیغمبر تک اللہ پاک کے علوم پہنچانے والے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ بشری حواس اور فرشتے کے حواس میں فرق ہے۔ بشری حواس فرشتے کے حواس سے افضل ہیں۔ اس وقت ہمارا منشاء روحانی حواس سے ہے۔ فرشتے کے حواس وحی کے علوم کو سمجھنے سے قاصرہیں جب کہ پیغمبر کا شعور وحی کے ساتھ انوار کو الفاظ و معنی میں ڈھال دیتا ہے۔ کائنات کا نظام نہایت ہی منظم قوانین پر قائم ہے۔ ان قوانین میں کوئی ردو بدل نہیں ہے۔ عالم ناسوت یا مادی دنیا کا یہ قانون ہے کہ یہاں کوئی چیز وسیلے کےبغیر نہیں ہے۔ اسی لیے اس عالم کوعالم اسباب بھی کہا جاتا ہے۔ اسی قانون کے تحت پیغمبر کے پاس وحی  لانے  کا سبب ایک فرشتہ بنا۔ اللہ کے قانون سے عام ہو یا خاص کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وحی کے لیے خاص بندوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو وحی کے متحمل ہو سکیں۔ اس کے لیے بچپن ہی سے پیغمبروں کی خصوصی تربیت و  نگہداشت کی گئی۔ ان کے دل میں وحدانیت کا تصور قائم کیا گیا جب کہ تقریباً سارے ہی پیغمبر کافروں کے درمیان پیدا ہوئے۔ وحدانیت کا تصور ذہن کے تمام خیالات کو ایک نقطے پر لا کر جمع کر دیتا ہے۔ اس طرح آدمی کو ملنے والی انرجی کم سے کم خرچ ہوتی ہے۔ ذہنی انتشار خیالات کی یلغار سے پیدا ہوتا ہے۔ ذہنی خیالات کو قبول کرنے اور رد کرنے میں دماغ کی ساری قوتوں کو خرچ کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ عملی حرکت کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں بچتا اور وہ غلطیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ پیغمبرکی طرزِ فکر وحدانیت پر قائم ہونے کی وجہ سے بچپن ہی سے ان کا ذہن اپنے کیالات کو اِدھر اُدھر بھٹکنے کی بجائے تصور کے ایک نقطےپر ٹھہرانے کا عادی ہو گیا پھر چونکہ یہ تصور خالق کا تھا، خالق تمام کائنات کو قوت بخشنے والا ہے۔ چنانچہ ذہن کی مرکزیت کی وجہ سےان کے تصور کی فکر کا نقطہ کے اندر انوار و تجلیات کا ذخیرہ ہو گیا اور ان انوار و تجلیات نے تمام مادی روشنیوں کو نگل لیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا نے اژدھا بن کر جادو گروں کے تمام سانپوں کو نگل لیا اور ان پر غیب کے دروازے کھل گئے۔ اللہ کا نور ان کے حواس میں داخل ہو کر روحانی حواس کو متحرک کرنے کا باعث بنا اور روحانی حواس نے غیب کا مشاہدہ کر لیا۔

غیب میں  جو کچھ ہے جب اللہ نے پیغمبروں کو اس کا مشاہدہ کروایا تو پیغمبروں کے ذریعے غیب کی خبروں سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ قانونیہ بنا کہ اللہ کا نور جب قلب کے اندر ذخیرہ ہو جاتا ہے تو یہ نور قلب کی آنکھ بن جاتا ہے اور قلب کی آنکھ غیب میں دیکھتی ہے۔ ایمان اورغیب لازم و ملزوم ہے۔ ایمان نور ہے جو قلب میں جاگزیں ہے۔ یہ نور خود ہی ادراک بھی بنتا ہے اور خود ہی غیب بھی ہے۔ جس طرح اسکرین پر پڑنے والی فلم کی روشنی کے اندر فلم کی تصاویر بھی ہوتی ہیں اور یہی روشنی ان تصاویر کو دکھانے کا باعث بھی بنتی ہے۔ قلب کا نور قلب کا ادراک بھی بنتا ہے اور قلب کے اسکرین پر غیب کے نورانی خاکے بھی نشر کرتا ہے۔ یہی قلب کی نظر کا دیکھنا ہے۔ قلب کی نظر کا نام یقین ہے۔ اگر غیب پر ایمان نہ لائیں تو مرنے کے بعد کی زندگی کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ کوئی روحانی علوم حاصل کرنے والا اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ اس کے اندر روح متحرک ہے۔ یہی یقین اس کے حواس میں داخل ہو کر اس کی روح سے اسے قریبکر دیتا ہے اور روح کے زریعے اللہ پاک تک پہنچ جاتا ہے۔ حضرت علیؒ کا قول ہے کہ میں نے اللہ کو اپنی نا امیدوں اور امیدوں کےٹوٹنے سے پہچانا۔ ہر آدمی کبھی نہ کبھی ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے جہاں باوجود انتہائی کوششوں کے اس کا کام رک جاتا ہے۔ اس کی ناامیدی اس کے اندر ایک خالق کا تصور ابھارتا ہے اور اسے یقین کامل ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر  کام کرنے والی انرجی کا مخزن اللہ کی ہستی ہے۔ ایسے ہی اسے غیب پر پورا پورا یقین آجاتا ہے وہ اچھی طرح پہچان جاتا ہے کہ اس کے شعور و ارادے پر مکمل طور پر خالق کےارادے و قوت کا کنٹرول ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ انسان کی ہٹ دھرمی اور جھوٹی انا کا تقاضہ ہے جو اسے اللہ اور غیب پر ایمان لانے کے اظہار پر روکتا ہے۔ ورنہ دل تو کسی نہ کسی موڑ پر ضرور کہہ اٹھتا ہے کہ میری ذات سمندر کی لہروں پر تنکے کے مانند ہے جس کی اپنی کوئی قوت نہیں ہے۔ 

ایسی صورت میں جہاں مادی حواس دم توڑ دیتے ہیں وہیں باطنی حواس کا سراغ ملتا ہے۔ یہ حواس آدمی کوغیب سے روشناس کر دیتے ہیں۔ غیب کی خبریں ہمارے پاس دو طرح سے ملتی ہیں۔ ایک طرز میں تو پیغمبروں کا لایا ہوا علم غیب ہے۔ دوسری طرز میں استدراج کے وہ علوم ہیں جو شیطانی قوتوں کے زیر ِ اثر ہیں۔ پیغمبروں کے لائے ہوئے تمام علوم رحمانی انسپائریشن ہیں۔ اس انسپائریشن کو قبول کر کے کوئی بندہ رحمانی صفات اور قوتوں کا حامل ہو جاتا ہے اس کے اندر انوار جذب ہو جاتے ہیں اور یہی انوار اس کے حواس بنتےہیں جن کے ذریعے حوہ غیب میں اپنی انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے سفر کرتا ہے۔ اس سفر میں رحمان کی جانب سے اسے پوری پوری ہوتی ہے۔ وہ لامحدودیت میں خود کو اجنبی اور تنہا محسوس نہیں کرتا۔ اس کے برخلاف استدراج چونکہ شیطانی  قوتوں کی انسپائریشن ہے۔ یہ تمام انسائریشن غیب کی جھوٹی خبریں ہیں۔ ایسی خبریں جو شریر مبنی ہے۔ جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔اس  کی مثال یوں ہے جیسے کسی لڑکے کو لڑکی کے کپڑے پہنا کر آپ کے سامنے کر دے۔ ظاہر کی نظر اسے دیکھ کر ضرور دھوکا کھا جائےگی اور آپ اسے لڑکی کہہ اٹھیں گے۔  اگر آپ کہ پہلے  سے علم ہو کہ یہ لڑکی نہیں بلکہ لڑکا ہے تو آپ اس کے ظاہری حلیے کو قطعی طور پر نظر انداز کر دین گے یعنی آپ نے ظاہر کی نفی کر دی اور وہ علم جو ظاہر کے پردے میں ہے اس علم کو قبول کر لیا اس طرح اصل ذات کی پہچان ہو گئی۔ اس سے دو باتیں سامنے آئیں۔ ایک تو یہ کہ اصل ذات حقیقت ہے جس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔ دوسرے یہ کہ اصل ذات کو یا حقیقت کو پہچاننے کا سب سے بڑا سبب علم ہے۔ وہ علم جو باطن کے اندر ہے یا ظاہر کے پس پردہ موجود ہے۔ باطنی علم درحقیقت ذات اور اس کی صفات سے تعلق رکھتا ہے اور اصل ذات اور اصل ذات کی صفات لاتغیر ہے۔ استدراج میں آدمی شیطانی انسپائریشن کو قبول کرتا ہے۔ شیطانی انسپائریشن شر پسند جنات اور اعراف کی تخریب پسند روحوں کے خیالات ہیں جو آدمی کا دماغ وصول کر لیتا ہے ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن ہمیں یہ اطلاع ہمیں یہ اطلاع دیتا ہے کہ شیطانوں کا داخلہ آسمانوں میں ممنوع ہے اور اگر وہ آسمان میں داخل ہونے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو انہیں شہاب ثاقب کے ذریعے جو کہ فرشتوں کی فوج ہے، مارگرا دیا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ کہ شیطانوں اور تخریب پسند روحوں کا دائرہ عمل محدود ہے۔ وہ صرف عالم ناسوت کی حد میں اپنی زندگی گزارتی ہیں اس سے اوپر نہیں جا سکتی۔ عالم ناسوت مادی حدود ہے جو محدودیت کا شعور ہے ۔ اس حدود میں جب کوئی اطلاعات پہنچتی ہیں تو ان اطلاعات کو آدمی کا دماغ دو طرزوں میں معنی پہناتا ہے۔ ایک طرز میں  پازیٹو دوسرے میں نیگٹیو۔ یہ رحمانی اور شیطانی طرزیں ہیں۔ علام ناسوت میں پہنچنے والی ہر اطلاع دو قسم کی روشنیوں پر قائم ہے۔ ایک نور دوسرا نار۔ رحمانی طرز فکر رکھنے والا بندہ نور کی مقداروں کو جذب کر کے اس نور کے اندر اطلاع کا جو خاکہ ہے وہ اپنے ذہن کے پردے پر منعکس کرتا ہے اور ذہن کی آنکھ یا قلب کی آنکھ اس خاکے کو دیکھ کر اس کے معنی پہناتی ہے۔ یہ پازیٹو خیالات ہیں جن پر عمل کرنا نیکی یا خیر کا ریکارڈ ہے۔ تخریبی طرزِ فکر کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دل اور دماغ کے اندر نور یا نار کی مقداریں ذخیرہ ہو جاتی ہیں اگر نور کی مقدار زیادہ  ہوگئی تو  یہ نور اطلاع کے اندر سے نور کو اپنی جانب کھینچ لے گا اور اگر نار کی زیادہ ہوئی تو نار کو اپنی جانب کھینچ لیا ہے۔ یہ طرزِ فکر ذہن کے سوچنے کا انداز ہے جو ان دو طرزوں میں سوچتا اور معنی پہناتا ہے۔ جب نار کی مقداریں قلب و دماغ میں زیادہ ذخیرہ ہو جاتی ہیں تو اطلاع کا شر کا رخ سامنے آجاتاہے اور دماغ کی آنکھ اس خاکے کو دیکھ کر معنی پہناتی ہے جس کی وجہ سے شک وسوسہ پیدا ہوتا ہے اور آدمی غیب کی حقیقت سے قطعی طور پر ناواقف رہتا ہے اور شر پسند عناصر کے قبضے میں آجاتا ہے۔ جن کا علم باطل اور محدود ہے۔ ایسی حالت بندے کے لیے بے چینی بے سکونی اور غیر تحفظی کا احساس پیدا کرتی ہے۔ یہ محرومی اس کے ہر عمل کو برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔

          ایسے عذاب سے بچنے کے لیے اللہ پاک نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہمیں غیب پر ایمان لانے کا علم اور حکم دیا ہے۔ آسمانی کتابوں اور پیغمبروں کی معراج اور مشاہدات غیب میں تفکر کرنے سے ہمارا ذہن نور کو جذب کرنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ آدمی اگر ہر روز قرآن کی ایات میں غورو فکر کرنا اپنی عادت بنا لے اور پیغمبروں کی طرزِ فکر کے متعلق غورو فکر کر کے اپنی طرز فکر کو بھی اس کےمطابق   ڈھال لے تو یہ مسلسل عمل اس کے اندر قرآن اور پیغمبروں کے انوار جذب کرنے کی صلاحیت پیدا کر دیتا ہے۔ پھر اس کا  ذہن اپنے پاس پہنچنے والی ہر اطلاع کو مثبت انداز میں سوچنے لگتا ہے اور ظاہر سے نظر شئے کے باطن میں پرنے لگتی ہے جس کی وجہ سے  اس پر غیب کے علوم منکشف ہو جاتے ہیں اور وہ شیطانی قوتوں سے دھوککا نہیں کھا سکتا۔ جیسا کہ حضرت غوث پاک ؓ کے تربیتی دور کا واقعہ مشہور ہے کہ ایک بار شیطان نے انہیں بہکانے کی غرض سے اپنی استدراجی قوتوں کا سہارا لیا اور آسمان پر نور پھیل گیا۔ حضرت غوث پاک ؓنے اس نور کو دیکھا اس نور کے اندر سے آواز آئی میں تمہارا رب ہوں اور آج سے تم پر نماز قائم کرنے کی فرضیت اٹھا دی جاتی ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت غوث پاک ؓ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ نور اللہ کا نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ نے اپنے محبوب حضور پاک ﷺ کے لیے تو یہ نہیں فرمایا کہ تم صلوٰۃ قائم کرنے کی اب ضرورت نہیں ہے جب کہ وہ معراج میں ایسی جگہ پہنچ گئےجہاں کوئی بندہ نہیں پہنچ سکتا کہ یہ حضوری کا سب سے اعلیٰ مقام ہے پھر میری کیا حیثیت ہے۔ فوراً انہوں نے لاحول پڑھی، جان گئے کہ شیطان پھر اپنے ہتکھنڈوں سے جال پھینک رہا ہے۔ آپ نے لاحول پڑھی تو رحمانی قوتوں نے آپ کو تحفظ دے دیا اور شیطان غائب ہو گیا یہ کہتے ہوئے کہ اے عبدالقادر ؓ تیرے علم نے تجھے بچا لیا ورنہ اس ہتھکنڈے میں میں نے برے بڑے صوفیوں کو پھنسا دیا اور انہیں راہ سے بھٹکا دیا۔ اللہ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور شیطان کے شر سے محفوظ رکھے ۔آمین۔

          اس واقعہ میں ہم سب کے لیے بہت بڑا سبق یہ ہے کہ غیب پر ایمان ، اللہ کی کتابوں پر ایمان، اللہ کے پیغمبروں پر ایمان لاناضروری ہے اور ایمان کے ساتھ ساتھ پیغمبروں کے لائے ہوئے علوم کا جاننا بھی اشد ضروری ہے۔ کیونکہ علم ہی  شیطان کے شر سے آدمی کو بچاتا ہے۔ اگر حضرت غوث پاک ؓ کو قرآن کا علم نہ ہوتا تو وہ شیطان کے شر میں پھنس جاتے۔ شیطان اور تمام مخلوق پر انسان کی برتری صرف علم کی وجہ سے ہے کہ اللہ پاک نے اسے اسمائے الہٰیہ کے علوم عطا فرمائے ہیں۔ اسمائے الہٰیہ کے علوم اللہ پاک کی ذات اور صفات اور کائنات کے علوم ہیں۔ علم ہی کی وجہ سے انسان کی حاکمیت تمام مخلوق پر ہے۔ اگر علم نہیں ہے تو آدم بھی کائنات کی دوسری مخلوق کی طرح ناخواندہ اور محکوم ہے۔ اللہ لامحدود ہستی ہے۔ اللہ کے علوم بھی لامحدود ہیں۔ غیب میں کام کرنے والے حواس لامحدودیت کا شعور ہے۔ شعور کا عمل آنکھ ہے جب نظر غیب میں کام کرنے لگتی ہے تو غیب کے علوم حاصل ہو جاتے ہیں۔ باطنی نظر یا دل کی نظر یقین کامل ہے۔

٭٭٭٭٭

 

 


Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی