Topics
اس موضوع پر جب
میں نے اپنے طور پر غور کیا تو میری سمجھ میں یہی آیا کہ اگر آدمی کے اندر Argument ہے تو محدودیت ہے۔ اگر آدمی کے اندر خود سپردگی
ہے اور Surrender ہونے کی صلاحیت ہے تو لامحدودیت ہے۔ قرآن پاک
میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ ” کہنے لگا اس وجہ سے کہ تو نے مجھے راہ سے بھٹکا
دیا میں ضرور تاک میں بیٹھوں گا ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر۔ پھر میں ضرور آؤں
گا ان کے پاس ( بہکانے کے لیے) ان کے آگے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں اور
ان کے بائیں سے اور تو نہ پائے گا ان میں سے اکثر کو شکر گزار۔“ ( سورہ اعراف ۱۵)
ابلیس نے Argument کی۔
اللہ یہاں اسی کے متعلق بیان کر رہے ہیں کہ جب اس سے نافرمانی کی وجہ دریافت کی
گئی تو اس نے کہا کہ اللہ میاں! آپ ہی نے مجھے اغوا کیا اور بھٹکا دیا۔ ابلیس نے
جو Argument کی۔ اپنی شعوری عقل کی بناء پر کی۔ وہ جانتا تھا
کہ اللہ پاک نے آدم کو زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجنا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو اس سے
کوئی کام لینا ہے زمین پر بھیج کر۔ جس کی وجہ سے وہ آدم سے حسد کرنے لگا اور اس کے
بارے میں اللہ سے Argument کرنے لگا۔
دوسری طرف ہمارے سامنے آدم کی مثال ہے۔ آدم سے بھی غلطی ہوگئی۔ وہ بھی اللہ پاک کی
نافرمانی کا مرتکب ہو گیا جو سوال اللہ تعالیٰ بے ابلیس سے کیا تھا وہی سوال آدم
سے بھی کیا۔ آدم ابلیس اور فرشتوں سے کہیں زیادہ علم رکھتے تھے۔ اللہ پاک کی صفت
علیم کی نسبت کی بناء پر جو آدم کو اللہ کی جانب سے حاصل ہے۔ پھر بھی انہوں نے
اپنے آپ کو Surrender کر دیا اور فرمایا۔ ” اے میرے رب میں نے اپنی
جان پر ظلم کیا۔ اگر تو بخشش نہ کرے اور رحم نہ کرے تو میں نقصان اٹھانے والوں میں
سے ہو جاؤں گا۔“ آدم نے کوئی Argument نہیں کی۔ مثلاً یہ نہیں کہا کہ آپ نے درخت
پیدا ہی کیوں کیا وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ فوراً اپنی غلطی مان لی اور اس کا اقرار بھی
کر لیا۔ آدم نے بحث نہیں کی بلکہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیا۔اللہ نے پھر
فرمایا۔” نکل جاؤ اس جنت سے سب کے سب۔ پھر اگر آئے تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت
تو جس نے پیروی کی میری ہدایت کی انہیں نہ تو کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے۔“
( سورہ بقرہ ۳۸)
آدم نے پھر کوئی بحث نہیں کی کہ کیسے
جاؤں کیا کروں۔ آدم کی خود سپردگی اس علم کی بناء پر ہے جو اللہ نے آدم کو عطا
کیا۔ ابلیس کی تکرار کی وجہ اس کی لاعلمی ہے۔ محدودیت بحث ہے۔ لامحدودیت خود
سپردگی ہے۔ علم میں Argument نہیں ہے اس میں عقل و شعور زیر بحث نہیں آتا ۔A.B.C اور 123
وغیرہ میں اگر آدمی عقل استعمال کرے مثلاً اٹھارہ سالہ آدمی جوان پڑھ ہو وہ علم
سیکھنا چاہے اور پڑھنا لکھنا سیکھنا چاہے۔ استاد اسے کہے پڑھو اے بی سی۔ اب وہ
اٹھارہ سال کا بالغ شعور استاد کے سامنے اگر اپنی عقل استعمال کرے گا تو وہ اے بی
سی کبھی نہیں پڑھ سکتا ہے۔ اسی لیے بحث و تکرار جہاں ہے وہاں محدودیت ہے اور خود
سپردگی جہاں ہے وہاں لامحدودیت ہے۔ محدودیت جہالت ہے لامحدودیت علم ہے۔ شاگرد اگر
استاد کے سامنے ذرا سی بھی عقل استعمال کرے تو وہ کبھی بھی علم حاصل نہیں کر سکتا۔
جب تک حجت باقی ہے علم حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہی حال روحانی علوم کا ہے۔ اگر آپ کا
شعور کام کر رہا ہے تو آپ علم نہیں سیکھ سکتے۔ اس وقت مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔
دوپہر کے وقت حضور قلندر بابا اولیا ءؒ نے فرمایا۔ کیا گھپ اندھیرا ہے۔ میں نے
کھڑکی سے باہر نظر کی مجھے ہر طرف گھپ اندھیرا دکھائی دیا۔ میں نے ان کی تائید کی
کہ بے شک حضور بڑا ہی اندھیرا ہے۔ چند لمحوں بعد خود ہی فرمایا۔ اندھیرا کہاں ہے
دن کے بارہ بجے ہیں۔ اب جو میں دیکھتا ہوں
تو وہاں خوب روشن دھوپ ہے۔ میں نے اس پر غور کیا کہ مجھے اندھیرا کیوں نظر آیا جب
کہ دن کا اجالا ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ میرے ذہن میں آیا کہ کائناتی سسٹم اس قدر بڑا
ہے اللہ تعالیٰ کا۔ ممکن ہے جب انہوں نے
فرمایا ۔ ان کی نگاہ کسی ایسی جگہ پڑی ہو جہاں اس وقت اندھیرا ہو۔ مگر میں نے سوچا
کہ مجھے کیوں اندھیرا نظر آیا تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ جیسے ہی انہوں نے
فرمایا۔ اندھیرا ہے۔ میرا شعور معطل (Suspend) ہو گیا۔ان کا لاشعور میرے اوپر غالب ہو گیا۔ کوئی بھی علوم
خود سپردگی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔ پس اگر آدمی کے اندر بحث و تکرار اور Argument ہے تو اس کی طرز
فکر محدود ہے اور اگر خود سپردگی ہے تو اس کی طرز فکر لا محدود ہے۔ اس کسوٹی پر ہم
خود اپنے اندر محدودیت اور لا محدودیت کی پہچان کر سکتے ہیں۔
از طرف مرشد کریم
جناب حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
مورخہ ۱۷ اگست ۱۹۹۴ ء
٭٭٭٭٭