Topics

اللہ کے ساتھ ادب

 

اللہ کے ساتھ ادب یہ ہے کہ اللہ کو ہر وقت حاضرو ناظر جاننا چاہئے۔جب ایسا ہوگا تو خلوت، جلوت ہر حال میں اللہ کو ساتھ پائے گا۔ایسی صورت میں بندہ ایک مستقل ھالت پر قائم ہوجاتا ہے وہ محفل میں بھی وہی بات کہتا ہے جو تنہائی میں اس کا شعار ہوتی ہے مجمع میں کمی ہوئی بات تنہائی میں اس کا عمل بن جاتی ہے اس کے قول اور فعل میں مطابقت ہوتی ہے۔ جب بندہ اللہ کے تصور کے ساتھ قائم ہوجاتاہےتو ذہن کے ہر خیال کی Base اللہ کے تصورکے انوار کی لہریں بن جاتی ہیں۔ یہ انوار بندے کے خیالات کو توانائی بخشتے ہیں۔ اس توانائی کے ساتھ جب خیال عملی جامہ پہنتا ہے تو قول اور فعل دونوں میں ہم آہنگی ہوجاتی ہے۔ اس کا بہترین مظاہرہ واقعہ معراج میں اللہ پاک نے بیان فرمایا ہے۔ سورہ نجم میں فرماتے ہیں۔

"نہ نگاہ بھٹکی نہ ادھر ادھر اپنی جگہ سے ہٹی۔" یعنی حضورپاکؐ کی نگاہ ان تجلیات کے سوا اور کسی طرف نہ گئی۔یہ اللہ کے ساتھ ادب کا بہترین مظاہرہ ہے جو حضور پاکؐ نے اللہ کے حضورکیا۔یہ ادب کی کامل مظاہراتی صورت ہے۔ وہ اس طرح کہ جب آپ معراج پر تشریف لے گئے تو بشری شعور آپؐ کے اندر موجود تھا۔قرآن اس شہادت میں فرماتا ہے کہ "وہ ذات پاک جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔ جس کے گرش اگر ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسےؐاپنی قدرت کی نشانیاں دکھاءیں۔بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔"

اس آیت میں مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کا ذکر کرنے سے مراد حضورپاکؐ کےبشری حواس کا تذکرہ کرنا ہے کہ آپؐمعراج میں بشری حواس کے ساتھ تشریف لےگئے۔ اصل میں معراج بشری حواس کی انتہائی رسائی کا نام ہے۔بشری حواس کی انتہائی محدودیت مادی دنیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے بشری حواس کو محدودیت سے نکال کر لا محدودیت میں پہنچادیا اور غیب میں موجود اپنی قدرت کی نشانیاں دکھلادیں۔ساتھ میں اللہ پاک یہ فرمارہےہیں کہ بشری حواس کے عروج کا باعث اسم سمیع اور اسم بصیر کی تجلیات وانوار ہیں ۔ بشری حواس کی بنیاد سماعت اور بصارت ہے۔ جب بشری حواس اسم سمیع اور اسم بصیر کے انوارات سے لبریز ہوگئےتو حواس اپنے انتہائی عروج کو پہنچ گئے اور اس عروج پر حواس حواس نے تجلیات کا مشاہدہ کرلیا اور مشاہدے کے بعد پھر واپس مادی دنیا میں لوٹ آئے۔معراج کا یہ واقعہ بشری حواس کی اکملیت کا دائرہ ہے جس کا کامل نمونہ حضورپاکؐ کی ذات ہے اور کوءی بشر اس تک نہیں پہنچ سکا۔ اللہ کے ساتھ ادب یہ ہے کہ اپنے انتہائی عروج پر پہنچ کر بھی چشم مصطفی ٰ ادب کے مقام پر قائم رہی اور حضوری کی انتہائی قربت کے باوجود بھی بندگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ یہی مقام ادب ہے جہاں حضوری میں داخل ہونے کے باوجود بھی بشری حواس اپنی سکت کو برقرار رکھتے ہیں اور اللہ اور بندے کے درمیان فاصلہ براقرار رہتا ہے۔ خالق اور مخلوق کی درمیانی فصل موجود رہتی ہے۔ اسی فصل کو ایک کمان کا فاصلہ یا تدلیٰ کہا گیا ہے۔ حضور پاکؐ کی ذات اقدس نے اپنی زندگی میں جو بھی مظاہرہ کیا آپؐ کے اعمال وافعال آپؐ کے عمل کے دائرے میں ہیں۔ آپؐ کا ہر عمل ایک سنت اور قانون یا نظام کی حیثیت رکھتا ہےجس سے باہر کوئی شئے نہیں جاسکتی ۔ اللہ کے ساتھ ادب عین بندگی ہے۔بندگی تسلیم ورضا کا نام ہے۔سوادب یہ ہے کہ اللہ جس شئے کا حکم دے اسے بلاچوں وچرا فوراً مان لیاجائے۔ حکم کی تعمیل میں اللہ کے ارادے کو مقدم رکھنا ادب ہے۔ اللہ کے ساتھ ادب مرتبہء احسان ہے اور مرتبہء اھسان ہے۔


Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی