Topics
۱۔ مرشد کریم کے ہر حکم کی تعمیل بلا حیل و
حجت کرے۔
۲۔ مرشد
کریم کے حکم کی تعمیل بلا چوں و چرا کی جائے اور حکم کی ادائیگی میں مادی مصلحتوں
کی پروا کئے بغیر جان اور مال اور وقت کی قربانی دی جائے۔
۳۔ اپنی ذاتی انا کے فیصلے کو مغلوب کر کے مرشد کو مقدم جانے۔
۴۔ اللہ
اور اس کے رسول ﷺ اور اپنے پیر و مرشد کی ہر بات کو دل سے صحیح اور اپنے لئے بہتر
جان کر ان کے حکم کو بجا لانا تعمیل ِ حکم
ہے۔
۵۔ حضور علیہ السلام کی پیروی کرنا تعمیل ِ
حکم ہے۔
۶۔ روحانیت
میں تعمیل حکم یہ ہے کہ مرید اپنے شیخ کی رضا کو اپنی رضا بنا لے۔ جیسا کہ صحابہ
کرام ؓ نے اپنے رسول ﷺ کی رضا کو اپنی رضا قرار دیا تھا۔
۷۔ اپنا آپ مکمل طور پر مرشد کے حوالے کر دینا
اور پھر اپنی مرضی نہ رکھنا تعمیلِ حکم ہے۔
۸۔ Having no doubt is obedience.
۹۔ ہر وہ کام
جس کا حکم حضور پاکﷺ نے دیا ہے وہ کام کرنا اور جس کام سے آپﷺ نے منع فرمایا ہے وہ
نہ کرنا تعمیل حکم ہے۔
۱۰۔ اپنی انا ختم
کر دینے کا نام تعمیل حکم ہے۔
۱۱۔ تعمیل حکم سے
متعلق قرآن کا ارشاد ہے۔ تم اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول ﷺ کی اور اہلِ امر
کی جو تم میں سے ہیں۔ اہلِ امر میں مرشد کی ذات بھی آگئی۔
۱۲۔ بندگی تعمیلِ
حکم ہے۔
۱۳۔ تعمیل حکم کا
نام بندگی ہے۔ جیسے قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ رسول پاک ﷺ تم کو جو دیں وہ
لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے دور رہو۔
۱۴۔ قرآن میں اللہ
پاک فرماتے ہیں کہ ” اے ایمان والو! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ۔“ یعنی
اللہ اور رسول ﷺ جو حکم تم کو دیں اس پر پورا پورا عمل کرو۔
۱۵۔ اپنے ارادوں
کی نفی کرنا اور مرشد کے حکم کی تعمیل کرنا
تعمیل حکم ہے۔
۱۶۔ حکم میں انکار
کی گنجائش نہیں ہے۔ بندگی کی ڈگر پر چلنے والا ذہنی تعمیل حکم کے اس اصول پر
کارفرما ہو جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
سوالات
سوال نمبر۱۔ آدابِ
مرشد کیا ہیں؟ ایک مرید کو اس کا کتنا خیال رکھنا چاہیئے؟
سوال نمبر ۲۔ خود
سبردگی کیا ہے؟ ایک مرید کے لئے یہ کیوں ضروری ہے؟
سوال نمبر ۳۔ انا کی
نفی روحانیت میں کیوں ضروری ہے؟
سوال نمبر ۴۔ شک اور
یقین کی روحانیت میں کیا اہمیت ہے؟
٭٭٭٭٭
تمام مخلوق
کی زندگی کی حرکات اللہ تعالی کے امر پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے امر کی بنیاد
اللہ پاک کے وہ افکار ہیں جو کائنات کی ہر
شئے کے پس پردہ حکمت بن کر کام کر رہے ہیں۔ اللہ کے امر کی تعمیل میں ازل
سے روح سرگرم عمل ہے۔ شعور جب پیدا ہوا تو
ہمارے اندر ہماری انفرادی شناخت پیدا ہوگئی۔ انفرادی شناخت انفرادی ذہن و
شعور ہے اور ذہن یا دماغ ارادہ ہے۔ اس دنیا میں ہر آدمی کا اپنا دماغ اور اپنا
ارادہ کام کر رہا ہے جو ہمارے جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے ۔ انفرادی شعور کی حرکت
روح کے تابع ہے۔ روح کو اللہ نے امر ربی کہا ہے۔ یعنی روح کا براہ راست تعلق اللہ
کے امر سے ہے۔ روح اللہ کے حکم کو براہ راست موصول کر کے اس پر عمل میں کوشاں ہو
جاتی ہے۔ اس طرح انفرادی شعور و ارادے کے پس پردہ روح کا شعور و ارادہ بھی کام کر
رہا ہے۔ روح کے شعور اور ارادے کو توانائی بخشنے والی ایجنسی اللہ تعالیٰ کے افکار
ہیں جو اللہ کا ذاتی ارادہ ہے۔ روح کی ہر حرکت اللہ کے امر کی حرکت ہے۔ کیونکہ روح
کا تعلق براہ راست اللہ کے امر سے۔ روح کا ذہن اللہ کا امرہے۔ روح جب اپنے ذہن سے
سوچتی ہے تو اس خیال میں اس کی ذاتی انا بحیثیت اللہ کے امر کے ہیں۔ یہی سوچ جب
آدمی کے اندر منتقل ہوتی ہے تو وہ اللہ پاک کو اپنے ہر فعل کا فاعل حقیقی سمجھ
لیتا ہے۔ یہاں سے تعمیل حکم کا قانون اور
سسٹم ہماری سمجھ میں آتا ہے کہ انفرادی
ارادے اور شعور کا رابطہ جب اللہ کے امر سے قائم ہو جاتا ہے تو آدمی اپنے ارادے سے کوئی کام کرتا ہے۔ اس عمل کے اندر
اللہ کے امر کی روشنی انرجی بن کر کام کرتی ہے۔ ایسی صورت میں آدمی مکمل یکسوئی کے ساتھ اور پورے یقین کے ساتھ کام کرتا
ہے۔ اس کے ذہن میں ذرا برابر بھی شک نہیں ہوتا۔ شک شبہ اور یقین کی کمزوری شعوری کمزوری ہے۔ یقین روح کے ارادے کا نور
ہے۔ عمل کرتے وقت کامل یقین ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ روح کا ارادہ بھی اس میں شامل ہے۔ ایسا ہی کام تعمیل حکم کے دائرے
میں اتا ہے جو ضمیر پر بوجھ نہیں بنتا۔ ضمیر پر بوجھ بننے کا مطلب یہ ہے کہ
انفرادی ارادے اور روح کے ارادے میں تضاد
ہے۔ یعنی انفرادی ارادہ اللہ کے امر کے خلاف حرکت کرنا چاہتا ہے۔ یہی تضاد ضمیر پر
بوجھ بن جاتا ہے اور اللہ کے امر کے راستے میں مزاحمت اور رکاوٹ بن جاتا ہے۔ سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب روح کا تعلق براہ راست اللہ کے امر سے ہے اور روح غلطی نہیں
کرتی تو شعور کیونکر غلطی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ مادی شعور اور
روحانی شعور میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ روحانی شعور جنت کا دماغ ہے اور مادی شعور
دنیا کا۔ جنت اللہ کے ارادے کی تخلیق ہے۔ اللہ کے ارادے اور حکم میں ٹائم اینڈ
اسپیس نہیں ہے۔ اللہ پاک جنت کے ذکر میں فرماتے ہیں کہ جنتی جس شئے کی خواہش کریں
گے وہ فوراً حاضر ہو جائیں گی۔ یعنی جنت
میں آدمی کا دماغ اللہ کے امر کی حرکت بن جائے گا یہ روحانی شعور ہے ۔ مادی شعور
آدم و حوا کے احساس جرم کی صورت ہے۔ غلطی بذات خود ایک وقفہ ہے۔ امرحرکت ہے اور
آدم و حوا کی غلطی امر کی حرکت کا ایک لمحے کو ٹھہر جانا ہے یا رفتار کا کم ہو
جانا ہے۔ جنت میں آدم وحوا کا دماغ اللہ کے امرکی طبعی اور فطری حرکت کے مطابق
حرکت کر رہا تھا جیسے ہی کسی وجہ سے آدم
وحوا کے دماغ کی حرکت اللہ کے امر کی حرکت سے رفتار میں کم ہوئی۔ اللہ کے امر کی آواز
ان کے ذہن سے منقطع ہوگئی۔ امر کی لہریں اللہ کے حکم کو نشر کر رہی تھی وہ اسپیڈ بدل گئی۔ جس کی وجہ سے سے روشنی کی فریکوئنسی بدل گئی۔ آپ جانتے
ہیں کہ دماغ سے اگر خیالات کا سلسلہ منقطع ہو جائے تو دماغ مر جاتا ہے اور دماغ کے مرتے ہی سارا جسم بے حس و حرکت ہو جاتا ہے
کیونکہ دماغ ہی سارے جسم کو حرکت کا حکم دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے جب دماغ مر جاتا
ہے تو آدمی کو مردہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
فریکوئنسی یا امر کا منقطع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدم و حوا کا جنت کا دماغ وقتی
طور پر رک گیا۔ انہیں اللہ کے امر کی جو اطلاعات مسلسل وصول ہو رہی تھیں وہ رک
گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں آدم
وحوا کی موت واقع ہوگئی۔ مگر اللہ پاک آدم
و حوا کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ پس جس لمحے جنت میں ان کی موت واقع ہوئی اور اللہ
کے امر سے ان کا رابطہ ٹوٹا دوسرے ہی لمحے ان کا رابطہ ایک دوسری فریکوئنسی سے
قائم ہو گیا اور زندگی کی حرکات کی اطلاع انہیں اب اس دوسری فریکوئنسی پر ملنے
لگیں۔ ہمارے تمام حواس اطلاعات پر قائم ہیں۔ حواس کے دائرے میں جو بھی اطلاع آتی
ہے حواس اس اطلاع کو معنی پہنا دیتے ہیں۔ اطلاع کو حواس کے دائرے میں معنی پہنانے
کا مطلب یہ کہ اطلاع آئی کہ درخت ہے،یہ اطلاع پہلے دماغ نے موصول کی
پھر یہاں سے جسم کے دوسرے اعضاء میں منتقل ہوتی ہے۔ جب یہ اطلاع آنکھوں کے عضلات
کو ملی یا بصارت کی حس کو وصول ہوئی تو آنکھ نے درخت دیکھ لیا۔ سماعت کی حس کو ملی
تو کانوں نے درخت کی آواز سن لی۔ اسی طرح جس جس حس تک اطلاع پہنچتی ہے وہ وہ حس اپنا کام انجام
دیتی ہے اور درخت کے متعلق علوم حاصل کر کے شعور تک پہنچا دیتی ہے۔ گویا آدمی کی
تمام حسیں شعور کو اطلاع کے متعلق علم دینے کے لئے مقرر ہیں۔ اس دوسری فریکوئنسی
پر ملنے والی تمام اطلاعات زمین سے متعلق تھیں جس کی وجہ سے آدم و حوا کا مادی
شعور ابھر آیا۔ جنت نوری عالم تھا۔ دنیا خاکی نقش و نگار کا عالم ہے۔آدم و حوا کو
فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا کہ جو براہ راست کام ہوتے تھے اب ہر شئے پر ایک
ٹھہراؤ آگیا ہے۔ جنت کی نظر پر پردہ پڑ گیا۔ پس وہ جان گئے کہ مادی شعور کی بنیاد
ہماری نافرمانی ہے۔ جب دونوں نے اپنی غلطی تسلیم کر لی اور اللہ پاک سے معافی مانگ
لی تو اللہ میاں نے بھی اپنی بارگاہ میں انہیں قبول کر لیا اور دوبارہ جنت میں
داخلے کی اجازت مل گئی۔ کائنات ایک جاری و ساری نظام ہے۔ ہر بنی نوع آدم جنت سے
غلطی کا ارتکاب کر کے دنیا میں اتا ہے اور یہاں پھر دوبارہ اپنے رب سے ملنے کے لئے
کوشش کرتا ہے۔ آدم و حوا کے قصے میں ہمیں تعمیل حکم کا قانون پتہ چل جاتا ہے۔
تعمیل حکم کا مطلب اپنے ارادے کی مکمل طور پر نفی ہے۔ جب تک آدم و حوا جنت میں رہے
اللہ کے حکم پر کام کرتے رہے۔ اللہ نے انہیں کہا تھا کہ تم اور تمہاری بیوی یہاں
رہو۔ خوش ہو کر کھاؤ۔ بس اس درخت کی طرف مت جانا باقی ساری جنت تمہاری ہے تم جہاں
مرضی جا سکتے ہو اور کھا پی سکتے ہو۔ جب تک آدم و حوا اللہ کے ارادے اور ذہن کے
مطابق عمل کرتے رہے خوش باش رہے جیسے ہی اللہ کے ارادے کے خلاف اپنا ارادہ استعمال
کیا وہیں مارے گئے۔ اس سے غرض نہیں انہوں نے اپنا ارادہ دانستہ استعمال کیا یا غیر
دانستہ۔ بہرحال غلطی تو ہو گئی۔ جب عمل ہو گیا تو نتیجہ بھی ضرور ہی برآمد ہوگا۔ عمل کے بعد نتیجے کو روکا نہیں جا سکتا۔ پس
تعمیل ِ حکم یہ ہے کہ حکم دینے والے کے ارادے میں اپنا ارادہ شامل نہ کیا جائے۔
حضور بابا جی نے اس حوالے میں ایک مثال دی تھی کہ اگر مرشد اپنے کنوئیں میں کود
جانے کا حکم دیں مگر کنوئیں میں کودتے وقت مرید کے ذہن میں خیال آجاتا کہ مرشد بچا
لے گا تو یہ حکم کی تعمیل نہ ہوئی اگرچہ وہ کنوئیں میں کود بھی گیا۔ قانون یہ بنا
کہ تمام حواس حکم کے نقطے پر ٹھہر جائیں۔ حکم کا خیال ذہن جب تھک جائے گا تو وہی
خیال یا حکم بار بار ذہن میں گردش کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ اس پر عمل نہ ہو جائے۔
بار بار ایک ہی خیال کا ذہن دل میں بار بار دہرانے سے تمام حواس اس طرف متوجہ ہو
جاتے ہیں۔ تمام حواس کے اندر خیال کی روشنی پہنچ جاتی ہے۔ تمام حواس کو اطلاع مل
جاتی ہے۔ پس ذہن و دل کے کسی بھی کونے میں شک و شبہ نہیں رہتا۔ آدمی دل و جان سے اس پر عمل کر لیتا ہے۔ حکم کی
تعمیل کے خیال کے سوا اس کے دماغ میں کوئی دوسرا خیال آتا ہی نہیں۔
قرآن میں تعمیل حکم کی ایک تمثیل حضرت
موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ میں بیان کی گئی ہے۔ حضرت
خضر علیہ السلام نے حضرت موسی علیہ اسلام کو اپنی ہمراہی میں اس شرط پر رکھنا
منظور کیا کہ جب تک اپنے عمل کے متعلق وہ خود بات نہ کریں ان سے استفسار نہ کیا
جائے۔ اس شرط میں بہت بڑی حکمت ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کے حکم پر عمل کرنے کے لئے دل و
دماغ کو مکمل یکسوئی کی ضرورت ہے۔ یہ یکسوئی خاموشی میں ہی حاصل ہو سکتی ہے تاکہ
تمام حواس حکم کے اجزاء پر سیٹ ہوجائیں۔
زہن و دل میں ایک ہی خیال جاگزیں ہو جائے۔ یہاں تک کہ جسم کے تمام اعضاء اس کام کے
کرنے پر مستعد ہو جائیں۔ اس کے برعکس جب کوئی دوسرا فعل میں استفسار کرے گا تو اس
کے جواب میں ذہن خیال یا حکم کے اصل نقطے سے ہٹ جائے گا اور آدمی کا اپنا ارادہ
کام کرنے لگے گا۔ جس کی وجہ سے حکم کی فکر
پر آدمی کا اپنا ارادہ غور و فکر کرنے لگے گا اور تعمیل حکم کا اصل مقصد فوت ہو
جائے گا۔ دوسرے اس قصے میں جو بات قابل ِ غور ہے
وہ یہ ہے کہ تعمیل حکم پر تمام حواس کا بیک وقت عمل کرنا ہے۔ تمام حواس جب
بیک وقت متحرک ہوتے ہیں تو اس کام کا اصل فاعل امر ربی یا روح ہوتی ہے۔ روح اللہ
کے حکم پر فوراً ہی عمل کرتی ہے۔ اسی طرح جیسے شعور میں اطلاع آتی ہے بندہ فوراً
ہی حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ اس کا خیال
تعمیل کے سوا کسی اور طرف جاتا ہی نہیں۔ عمل کے بعد اسے کام کی حکمتوں کا علم ہوتا
ہے۔ یعنی تعمیل حکم کا ایک سوال یہ ہے کہ عمل کرنے والا حکم پر اس قدر عجلت سے عمل
کرے کہ اس کا عمل پہلے ہو اور پھر بعد کو عمل کی
حکمتیں اور علم اس کے ذہن میں آئے۔ اس طرح حکم کے ساتھ ہی حکم دینے والے کا
ارادہ غالب آجاتا ہے اور اس کے ارادے سے کام اسی طرح ہو جاتا ہے جیسا وہ چاہتا ہے۔
تعمیل حکم کے ذریعے نفس ادب سیکھتا ہے۔
مرید کے لئے مرشد کی ذات اللہ کے نائب کی حیثیت رکھتی ہے۔ مرید کو روحانی علوم
مرشد کے ذریعے تقسیم ہوتے ہیں۔ مرید کت لئے ذہن کی مرکزیت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط
بنانے کے لئے مرشد کے حکم پر دل وجان سے
عمل کرنا ضروری ہے۔ جیسے جیسے مرید تعمیل حکم کرتا جائے گا اس کے اوپر مرشد کا
ارادہ غالب آتا جائے گا۔ یہاں تک کہ اس کے ذہن
کی حرکت مرشد کے ارادے کی حرکت بن جائے گی۔ پھر ایک وقت یہ ہوگا کہ مرشد کے
ذہن میں خیال آیا اور گزر گیا اور یہی خیال مرشد کے ذہن سے منتقل ہو کر مرید کے
ذہن میں آگیا اور مرید نے اس کو عملی جامہ پہنا دیا۔ اس طرح مرشد اور مرید خیال یا حکم کی ایک زنجیر میں بندھ جاتے ہیں۔
خیال کا رخ مرشد کی جانب ہوتا ہے اور عمل کا رخ میرد کی جانب۔ ایک حکم دینے والا دوسرا اس حکم پر عمل کرنے والا۔ تعمیل حکم بندی
کا اصول ہے۔ بندگی اللہ کے ارادے پر بندے کی حرکت ہے۔ بندگی کے اندر اپنے ارادے اور اپنی انا کا تصور بھی گناہ عظیم ہے۔
مرشد اپنے مرید کو بندگی کے آداب سکھاتا ہے ۔ روحانیت کے علوم بندگی کے دائرے میں
ہی سیکھے جا سکتے ہیں۔ بندگی کے دائرے سے
باہر اللہ نہیں ملتا۔ جہاں اللہ نہیں وہاں کچھ نہیں۔ کائنات میں کوئی ایسا گوشہ
نہیں ہے جہاں اللہ نہ ہو۔ بندگی کے راستے سے ہٹ کر بندے کو نہ اللہ ہی ملتا ہے نہ
اسے اپنی ذات کا سراغ ملتا ہے۔
٭٭٭٭٭