Topics
۱۔ اتباع سنت سے مراد حضور پاک ﷺ کی طرزِ فکر
کو اختیار کرنا ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔” جس نے میری سنت سے روگردانی کی وہ
مجھ میں سے نہیں ہے۔“ اس میں واضح طور پر
طرزِ فکر کی جانب اشارہ ہے نہ کہ محض چند اعمال کی طرف۔
۲۔ پیغمبران علیہ السلام کے بتائے ہوئے اصولوں
کو اپنے اوپر لاگو کرنا اتباع سنت ہے۔
۳۔ اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنا اتباع سنت ہے۔
۴۔ پیغمبروں کی سنت کو اپناتے ہوئے انسان کو
چاہیے کہ ہر انسان کی بلا تفریق مذہب و ملت بے لوث خدمت کرے۔
۵۔ ہر وہ عمل جو حضور پاک ﷺ نے کیا اس پر عمل
کرنا اتباع سنت ہے۔
۶۔ حضور پاک ﷺ کے افعال و اعمال اور ان کے پردے
میں اللہ پاک کی حکمتوں کو پہچان کر ان پر عمل کرنا اتباع سنت ہے۔
۷۔ حضور پاک ﷺ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا
اور اس کا مظاہرہ کرنا اتباع سنت ہے۔
۸۔ پیغمبرانہ
طرزِ فکر چونکہ اللہ کی طرزِ فکر ہے اس لئے ہر وہ کام جو حضور پاکﷺ نے کیا اس نیت سے کیا جائے کہ اس کے انوار و روشنیاں
ہمارے اندر منتقل ہو جائیں اتباع سنت ہے۔
۹۔ قرآن میں
غورو فکر کرنا اور ہر وہ کام جو اللہ کو پسند ہے اس پر عمل کرنا اتباع سنت ہے۔
۱۰۔ Adopt the way of thinking and act of our prophet
۱۱۔ حضور پاک ﷺ کے
علوم و صفات کی پیروی کرنا اتباع سنت ہے۔
۱۲۔ حضور پاک ﷺ کا
ہر عمل سنت ہے اور سنت وہ قوانین اور اصول ہیں جو کائنات میں جاری و ساری ہیں اور
جن اصولوں پر کائنات کا نظام قائم ہے۔ اپنے اعمال و افعال میں حضور پاکﷺ کے طرزِ
فکر کو اپناتے ہوئے کائناتی اصولوں کو پہچاننا اتباع سنت ہے۔
۱۳۔ نبی کریم ﷺ
چونکہ رحمت اللعالمین ہیں اس لئے آپ کے اقوال و افعال کو کائناتی شعور سے سمجھنا
اور عمل پیرا ہونا اتباع سنت ہے۔
۱۴۔ اللہ پاک کی
مخلوق سے بے لوث محبت کرنا اتباع سنت ہے۔
۱۵۔ حضور پاک ﷺ کی
زندگی قرآن کا عملی نمونہ ہے۔ آپ ﷺ کی پیروی کرنا اور آپ ﷺ کی طرزِ فکر کو اپنانا
اتباع سنت ہے۔
۱۶۔ زندگی کے ہر
شعبے میں حضور پاک ﷺ کی پیروی کرنا اتباع سنت ہے۔
۱۷۔ حضور پاکﷺ کی
طرزِ فکر کے مطابق اپنے نفس کو کنٹرول رکھنا اور دنیاوی آلائشوں سے پاک رکھنا
اتباع سنت ہے۔
٭٭٭٭٭
سوالات
سوال نمبر۱۔ اتباع
سنت کیا ہے؟ اس کا مفہوم واضح کریں۔
سوال نمبر ۲۔ اتباع
سنت کے کیا فوائد ہیں؟
سوال نمبر ۳۔ سالک
اتباع سنت ادا کر کے روحانیت میں کس طرح ترقی کر سکتا ہے؟
سوال نمبر۴۔ تفکر
کیا ہے؟ تفکر کر کے روح سے کس طرح قریب ہوا جا سکتا ہے؟
٭٭٭٭٭
قرآن میں
اللہ پاک فرماتے ہیں۔” پیغمبر علیہ السلام
جو آپ کو دیں وہ لے لو اور جس چیز
سے منع فرمائیں اس سے رک جا۔“
اس ایت میں واضح طور پر حکم دیا جا رہا ہے کہ پیغمبر کا ہر
قول و عمل باعثِ اتباع ہے۔ قرآن میں حضور پاک ﷺ کے علاوہ بھی بہت سے پیغمبروں کا ذکر آیا ہے۔ جن کی قوموں کے زوال
و عروج کی داستانیں پڑھ کر یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ جب بھی قوم نے اپنے پیغمبر کی
بات سے انحراف کیا اور اپنی من مانی کی وہ تمام اقوام یا تو قطعی طور پر صفحہ ہستی
سے مٹا دی گئیں یا پھر سالہا سال اللہ تعالیٰ کے عتاب کا شکار رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کا یہ
قانون تمام ہی پیغمبروں سے متعلق ہے کہ جس دور میں جو پیغمبر آئے وہ عقل و شعور
میں اپنی تمام قوم سے افضل تھے۔ اس کے ساتھ ہی سب کا رابطہ خالق کے ساتھ براہ راست
تھا۔ ایسی صورت میں وہ جو کچھ بھی کہتے اللہ ہی کی جانب سے کہتے رہے۔ جس نے ان کی
بات مانی وہ دنیا و آخرت میں سرخرو رہا۔ جس نے نہ مانی اس نے اپنی زندگی میں ہی
نافرمانی کا نقصان دیکھ لیا۔ اللہ پاک سے رابطہ قائم ہونے کی وجہ سے پیغمبر اللہ
کے ساتھ حضور میں زندگی گزارتے ہیں۔ ایسی صورت میں غلطی کا احتمال نہیں ہے۔ پیغمبر
کی بھول بھی اللہ کی حکمت کے زیرِ اثر ہوتی ہے نہ کہ نفسانی خواہشات کے زیرِ اثر۔ پیغمبر
تو اپنی انا کی نفی کر کے اللہ کی انا کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ پس اس کی انا پر
اللہ کی انا کا غلبہ ہوتا ہے۔ اس غلبے کی وجہ سے انفرادی انا کا کام بھی کل کی رضا
سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی حکمت
ظاہر ہو جاتی ہے۔ جیسے رسول اللہ ﷺ پر اللہ نہ کہنے سے کچھ عرصہ وحی بند رہی بعد
میں اللہ پاک نے یہ اصول بنا دیا کہ ہر شخص مستقبل کے کسی کام کے پورا ہونے کے لیے
ان شاء اللہ ضرور کہے۔ پیغمبر کی زندگی عملی ہے۔ علم بذاتِ خود روشنی ہے۔ علم کی
روشنی سینے میں منتقل ہو جاتی ہے۔ جب ہی اس روشنی کے ساتھ آدمی بار بار ان علوم کا
مظاہرہ کرتا ہے۔ علم کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک رخ علم کی روشنی ہے دوسرا رخ علم کی
روشنی سے خالی ہے۔ پہلے خالی رخ سامنے آئے گا پھر اس خلا ء کو روشنی پُر کرے گی تب
علم باقی رہے گا۔ اللہ کے سوا باقی تمام اشیاء دو رخوں میں کائنات کے اندر موجود
ہیں۔ یہی تخلیقی قانون ہے۔ پہلے نیگیٹو رخ
سامنے آتا ہے پھر پازیٹو۔ پس اسی اصول کے مطابق پیغمبر ﷺ کی بھول کا بھی
نیگیٹو رخ پہلے ظاہر ہوا۔ یہ رخ انفرادی انا ہے۔ ہر بھول انفرادی انا کی کمزوری
ہے۔ انفرادی انائی یا مادہ کا خول ہے جو روشنی سے خالی ہے۔ اسی کو کھنکھناتی بجنی
مٹی کہا گیا ہے۔ جب تک انفرادی انا یعنی شعور علم کی روشنی سے خالی تھا تو حضور
پاک ﷺ کی زبان سے ان شاء اللہ کے الفاظ ادا نہ ہوئے کیونکہ انفرادی انا کا اظہار
ظاہری حواس کے ساتھ ہے۔ جیسے ہی لاشعور کی روشنیاں یا وحی کے انوار شعور میں منتقل
ہو گئے شعور ان سے واقف ہو گیا۔ انفرادی شعور کی کمزوریاں ظاہر کرنے میں اللہ کی
ایک یہ بھی حکمت ہے کہ اللہ پاک یہ بات اپنے بندوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ بندہ
ذاتی طور پر علم سے خالی ہے۔ بندے کا ظاہری شعور و عقل علم کی روشنی سے بالکل خالی
ہے۔ عقل و شعور کا سارا علم اللہ کی جانب سے ہے۔ پیغمبر ان علوم کو بندوں تک
پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔
چونکہ دنیا والوں تک جو علوم بھی پہنچے ہیں وہ تمام علوم
پیغمبروں کے لائے ہوئے ہیں۔ لہذا دنیا والوں کو پیغمبروں کی اتباع کے سوا چارہ ہی
نہیں ہے۔ پیغمبروں کے سوا کوئی اور ہے ہی نہیں جو انہیں دنیا میں رہنے کے اصول
سکھائے اور اللہ پاک سے متعارف کرائے۔ پیغمبری کا سلسلہ بند ہو جانے کی وجہ
یہ ہے کہ دنیا والوں کو جن علوم سے اللہ آشنا
کرنا چاہتے تھے وہ تمام علوم
اور تخلیقی
فارمولے پیغمبروں کے ذریعے نازل کر چکے تھے اب کوئی نیا قانون یا نیا فارمولا باقی نہیں ہے۔ پیغمبروں کے بعد لوگوں میں رشد و
ہدایت کا مشن چلانے والے تمام کے تمام وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو پیغمبروں کے لائے
ہوئے اصولوں اور ہدایتوں پر خود بھی عمل پیرا ہوں اور لوگوں میں بھی ان کا پرچار
کریں۔ قرآن میں جا بجا یہ بیان کیا گیا ہے کہ ” ہم نے قرآن کا سمجھنا آسان کر دیا
، ہے کوئی سمجھنے والا۔“ اس جگہ سمجھنے سے
مراد اس کے اندر بیان کردہ علوم کو اچھی طرح جان کر ان پر عمل کرنا بھی ہے۔ کیونکہ
قرآن نے یہ اصول بہت واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ بغیر عمل کے دنیا اور آخرت
دونوں میں انسان کی گنجائش نہیں ہے۔ عمل حرکت ہے اور انسان کی پوری زندگی حرکت کے
سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اگر ماں بچے کے منہ
کے اندر نوالہ ڈالتی ہے تب بچے کو چبانا اور نگلنا خود ہی پڑتا ہے۔ اگر
نالی کے ذریعے غذا معدے میں پہنچائی جاتی ہے تو معدے کو ہضم تو کرنا پڑتا ہے۔
زندگی دنیاوی ہو یا آخرت کی زندگی اور حیات کا مطلب ہی حرکت ہے۔ پس اللہ کے بیان
کردہ علوم کو سمجھ کر جو کوئی ان پر عمل کرتا ہے وہ اللہ کے حکم کی پیروی کرتے
ہوئے اتباع سنت کر رہا ہے۔ کسی بھی مذہب میں مذہبی اختلاف اور فرقہ بندیوں کا مطلب
یہ ہے کہ پیغمبروں کے لائے ہوئے مذہب میں تبدیلی ہو چکی ہے۔ اگر تبدیلی نہ ہوتی تو
اختلافات نہ ہوتے ۔ پانی کو شربت آپ اس لئے کہتے ہیں کہ پانی میں شکر ملا دی جاتی
ہے۔ خواہ شکر پانی میں کتنی ہی گھل مل جائے مگر پانی تو اس کے خواص کو اجاگر کر ہی
دیتا ہے۔ چکھنے والا ایک قطرہ زبان پر رکھتے ہی پہچان جاتا ہے کہ پانی خالص نہیں
ہے۔ یہی مثال دین کی ہے۔جب پیغمبروں کے لائے ہوئے دین میں لوگوں نے اپنی عقل شامل
کرنا شروع کر دی تو دین خالص نہ رہا۔ خالص کیسے رہتا۔ جب کہ دین کو سمجھنے والے
شعور پر آپ نے اپنی عقل کو مسلط کر دیا۔ دین کو صحیح طرح سے سمجھنے والی عقل و
شعور تو پیغمبروں کی ہے۔ پہلا آدم جو اس دنیا میں تشریف لایا وہ اللہ کا پیغمبر
تھا۔ اسی آدم کی نسل آج تک چلی آرہی ہے
یعنی آدم و حوا کا شعور نسل انسانی میں منتقل ہو رہا ہے۔ آدم سے لے کر حضرت محمد
رسول اللہ ﷺ تک آدم کے شعور کے ارتقائی مدارج ہیں۔ آدم کا شعوری ارتقاء مختلف
ادوار ہیں۔ہر دور میں پیغمبران علیہ السلام اس دور کے لوگوں کی اصلاح کے لیے آتے
رہے تاکہ انسانی شعور کی صحیح خطوط پر نشو نما ہوتی رہے۔ جس طرح دسویں جماعت کا
طالب علم گزشتہ نو جماعتوں کے علوم سے واقف ہوتا ہے کیونکہ وہ گزشتہ جماعتوں سے گزر کر ہی دسویں میں پہنچا ہے۔ یعنی
اس کا تعلق گزشتہ نو جماعتوں کے ساتھ ہے۔ اسی طرح ہر دور کے پیغمبر کا شعور گزشتہ
ادوار کے لوگوں کی ذہنی سطح سے بھی واقف ہوتا ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ آخری پیغمبر
ہونے کی حیثیت سے آدم سے لے کر آخر تک کے نوع انسانی کے شعور سے واقف تھے۔ یہی وجہ
ہے کہ ہر دور اور ہر عالم کا اور ہر مخلوق
کا پیغمبر ﷺ رسول ﷺ کہا گیا ہے۔ کیونکہ حضور پاک ﷺ کا شعور بشری شعور کا مکمل عروج
(Growth) ہے۔ اللہ کے ذہن میں بشر کا جو تصور تھا۔حضور پاک ﷺ کی ذات
اقدس اس تصور کا مکمل نمونہ ہیں۔ اس طرح آدم سے لے کر بشری شعور کی مکمل Growth تک
جس کی تصویر حضور پاک ﷺ ہیں۔ شعوری ارتقاء کے تمام ادوار کا ریکارڈ خود حضور پاکﷺ
کے شعور کے اندر ہے۔ اگر ہم اس بات کو عام فہم زبان میں کہیں گے تو یوں کہیں گے کہ
حضور پاک ﷺ آدم سے لے کر رہتی دنیا تک کے لوگوں کے Mental analyses سے واقف ہیں۔
اسی لیے ان کے لائے ہوئے علوم اور پیغام ہر دور کے لئے ہیں اور ہر ایک کے لئے ہیں۔
ہر پیغمبر کی زندگی دو رخوں پر مشتمل
ہے۔ ایک رخ روز مرہ زندگی کے اشغال ہیں جو
بشری تقاضوں کے تحت ہیں جس میں کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا، لوگوں کے ساتھ میل جول وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے رخ میں زندگی کا وہ
حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحی کا اتباع کرتے ہوئے ان کے علوم لوگوں تک پہنچانا ہے۔
بشری تقاضوں کے تحت حرکات جبلی یعنی فطری حرکات ہیں۔ جو ہر بشر کا فطری تقاضہ ہے۔
کھانا پینا، سونا جاگنا، رفع حاجت وغیرہ ، اس میں عام خاص بڑے چھوٹے کی خصوصیت
نہیں ہے۔ ان تقاضوں کے مجموعے کا نام ہی بشر ہے۔ دراصل جبلی تقاضے دنیا کی ہر
مخلوق کے اندر موجود ہیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ ہر مخلوق ان تقاضوں کو مختلف طور پر
پورا کرتی ہے۔ مثلاً شیر گوشت کھا کر اپنی بھوک مٹاتا ہے جب کہ بکری گھاس کھاتی
ہے۔ جو تقاضے جبلی طور پر مختلف انواع میں پائے جاتے ہین۔ وہ تمام تقاضے بشر میں
پائے جاتے ہیں ۔ بشر گوشت بھی کھاتا ہے
پتے بھی کھاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے بشر دوسری مخلوق سے
ہر حالت میں ممتاز رہتا ہے۔ ورنہ پھر
انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ اسی نظریئے سے پیغمبر کی زندگی کا ہر
لمحہ عام لوگوں کے لئے باعث اتباع ہے۔ ہر پیغمبر اس دور کے شعور کے مطابق لوگوں کی
معاشرتی زندگی کی اصلاح کرتے رہے تاکہ انسان کا رہن سہن دوسری مخلوق سے مختلف اور
اعلیٰ رہے۔ مثلاً شادی بیاہ کے اصول، رشتے ناطوں کے ادب آداب ، کھانے پینے کے طور
طریقے، کتنی باتیں ہیں جن میں آدمی جانوروں کی نسبت ہر لحاظ سے مہذب نظر آتا ہے۔
جبلی تقاضوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کا روحانی ارتقاء بھی پیغمبر کی زمہ داری ہے جس کی
وجہ سے معاشرتی اصولوں کے ساتھ ساتھ ایسے اصول بھی بنانے لازمی تھے جن کے ذریعے
آدمی کا رابطہ اپنے خالق کے ساتھ قائم رہے۔ یہی رخ زندگی کی وہ طرز ہے جس کی بنیاد
وحی پر ہے۔ وحی ایک ایسی فریکوئنسی ہے جس فریکوئنسی پر بندے کا رابطہ اللہ سے جا
ملتا ہے۔ جیسے ٹیلی فون کی لائن پر لوگوں سے رابطہ ہوتا ہے۔ پھر جس طرح ٹیلی فون
پر آپریٹر کال ملاتا ہے اس کا کام صرف کال ملا دینا ہوتا ہے۔ باقی باتیں دونوں
فریق آپس میں کرتے ہیں۔ ان باتوں سے آپریٹر کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی طرح
جبرئیل علیہ السلام فرشتہ بھی پیغمبر اور اللہ کے درمیان اللہ کا کلام پہنچانے کا
باعث بنا۔ اس کا کام صرف رابطہ قائم کرانا تھا۔ یعنی پیغمبر کے شعور تک اللہ کے
کلام کی روشنی کا پہنچانا۔ جیسے ہی اللہ کے کلام سے پیغمبر کے شعور کا رابطہ ہوا
اللہ اور بندے کے درمیان جو باتیں ہوئیں وہ وحی ہے۔ وحی کے مفہوم سے حضرت جبرئیل
علیہ السلام واقف نہیں۔ اگر وہ وحی کے تمام مفہوم اور علوم جان لیتے تو وہ خود
پیغمبر کہلاتے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی کی ترسیل کا کام کرتے ہیں۔ تمام
پیغمبروں کے پاس وحی لانے کا کام آپ کے سپرد ہے۔
اس دوسرے رخ میں پیغمبروں کی زندگی عام
انسانوں سے ہٹ کر ہے۔ اس کی وجہ بھی اب آپ بخوبی جان گئے ہوں گے۔ عام آدمی کا تعلق
نہ وحی سے ہے نہ وحی لانے والے سے۔ وحی کی وجہ سے ایک پیغمبر کی زندگی براہ راست
اللہ تعالیٰ کے ساتھ منسلک ہے۔ پس اس کی زندگی کی ہر حرکت لاشعور کے تابع ہے۔ جس
کی وجہ سے عام لوگوں کی طرح ان کی زندگی میں نفسانی کمزوریوں کا احتمال نہیں ہے۔
پیغمبر کی پیدائش ہی مخصوص کام کے لئے ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے بچپن ہی سے ان کے
اندر وہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں جن کے ذریعے وہ وحی کے انوار کو آسانی کے ساتھ
جذب کر لیں۔ کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کے لئے سب سے ابتدائی چیز اس چیز کو حاصل
کرنے کی لگن اور جستجو ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ تمام پیغمبروں کے اندر بچپن ہی
سے اللہ پاک کو جاننے کی لگن تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا میں رائج الوقت معبودوں
کی پرستش سے دور رہے اور ایک اللہ کی جانب متوجہ رہے۔ پس ذہن کی مرکزیت نے ان کے
اوپر غیب کے دروازے کھول دیئے۔ اللہ نے
انہیں اپنا پیغمبر چن لیا اور اپنے مشن کی ذمہ داریاں ان پر سونپ دیں۔ اللہ کا مشن
مخلوق میں خالق کا تعارف کرانا اور خالق کی جانب سے مخلوق پر جو احکامات نازل کیے
گئے ہیں ان احکامات پر مخلوق کی عملی زندگی کا سیٹ کرانا ہے۔ ہر پیغمبر نے اپنی
قوم کے لئے یا جن لوگوں پر وہ بھیجے گئے تھے ان کے لئے معاشرتی زندگی کو بھی وحی
کے مطابق نئے اصولوں پر ڈھالا اور روحانی طرزِ فکر بھی پیدا کی۔ روحانی طرزِ فکر
کا بنیادی اصول قائم الصلوٰۃ ہے جو ہر دور میں ہر پیغمبر کے لئے اولین قرار دیا
گیا ہے۔ قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ تم سے پہلے کی امتوں پر بھی نماز اور
روزے فرض کیے گئے تھے۔ ہر پیغمبر نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم کرنے
کے اصول بتائے۔ اللہ سے رابطہ قائم کرنا ہی قائم الصلوٰۃ ہے۔ عبادت اللہ کے سوا
کسی کو جائز نہیں ہے۔ جب معبود سے رابطہ ہی نہ ہوگا تو عبادت کیسے کی جائیں گی۔
معبود سے رابطہ ذہنی طور پر اور قلبی طور پر ہے یعنی باطنی حواس خالق سے رابطہ
کرتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی نماز پڑھتا ہے اس کے دل اور دماغ میں خالق کا نہیں بلکہ
دنیا کی کسی بھی چیز کا خیال آرہا ہے تو
یہ نماز تو اس شخص یا اس شئے کی عبادت ہوگئی جس کا تصور ذہن میں ہے۔ جب ذہن و دل کا رابطہ خالق سے جا ملتا ہے تب بندہ
اگر حالتِ نماز میں نہ ہو تو تب بھی اس صلوٰۃ
قائم ہو جاتی ہے۔ اسی مضمون کو اللہ پاک نے اپنے کلام میں یوں فرمایا ہے کہ
میرے وہ بندے جو چلتے پھرتے، اُٹھتے
بیٹھتے، سوتے جاگتے میرا ذکر کرتے ہیں میں ان سے قریب ہوں۔ رابطہ قائم ہونا، حضوری
ہے۔ حضور ی میں تمام حواس مخاطب کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ مخاطب ہی تمام حواس کا
مرکز ہوتا ہے۔ قائم الصلوٰۃ بھی تمام حواس کا اللہ کی جانب متوجہ ہونا ہے۔ ذہن و
دل کی مرکزیت جب اللہ ہو جاتا ہے تو اللہ کے انوار حواس کے دائروں میں جذب ہو جاتے
ہیں اور صلوٰۃ میں اللہ کی حضوری اور قربت کو حواس محسوس کر لیتے ہیں۔ صلوٰۃ قائم
کرنے کے جو اصول پیغمبروں نے لوگوں کو بتائے وہ تمام اصول اللہ سے رابطہ قائم کرنے
کا ذریعہ ہیں۔ حضور پاک ﷺ کے اور دوسرے پیغمبروں کے لائے ہوئے اصولوں میں فرق یہ
ہے کہ جو قوم جس پیغمبر کو اپنا روحانی پیشوا مانتی ہے جب اللہ کے پیغمبر کی حیثیت
سے اس کے لائے ہوئے اصولوں پر عمل کرتی ہے تو اس عمل کے نتیجے میں اس پیغمبر کے ذریعے ہی اس قوم کا
رابطہ اللہ سے ہوگا۔ گویا ہر پیغمبر اللہ تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے اور پیغمبر کے
لائے ہوئے اصول وہ راستہ جو اللہ تک پہنچاتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ لوگ پیغمبروں
کی ہدایات کو بہت جلد مصلحتوں کا رنگ دے دیتے ہیں۔ جو اصول ان کے نفس کو بھاری
لگتے ہیں ان اصولوں کو اپنی نفسانی اغراض کے سانچے میں ڈھال کر ان کی شکل ہی بدل
دیتے ہیں۔ آخری پیغمبر علیہ السلام کے لائے ہوئے دین کا بھی یہی حشر ہوا ہے۔ ابھی
چودہ سو سال گزرے ہیں اور مسلمانوں کا خدا جانتا ہے کہ کتنے ہی فرقے بن گئے ہیں۔
میں یہ پوچھتی ہوں جب خدا ایک ہے۔ پیغمبر ایک ہے پھر ایک ہی پیغمبر کو ماننے والے
اتنے سارے مختلف فرقے کیسے ہیں۔ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ ہر فرقہ دوسرے فرقے کو
درست نہیں جانتا۔ ہر فرقہ دوسرے کو غلط کہتا ہے یعنی ہر فرقہ ہی غلط ہے۔ پھر اتباع
سنت پر کون قائم ہے۔ کوئی بھی نہیں بنا۔ یہ نہایت ہی ٹھنڈے دل ودماغ سے غور و فکر کرنے کا مقام ہے۔ اے
نسلِ انسانی ! اتباع سنت کا پہلا اصول بندگی ہے اور بندگی کی بنیاد قائم الصلوٰۃ
پر ہے۔ قائم صلوٰۃ اللہ پاک سے روحانی رابطہ قائم کرنا ہے۔ روح امر ربی ہے۔ روح کے
ذریعے یا روحانی حواس کے ذریعے جب اللہ سے رابطہ قائم ہو جاتا ہے تو شعوری طور پر
بندہ اللہ کے امر کو پہچان لیتا ہے جس کی
ادائیگی کے لئے وہ دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ قائم الصلوٰۃ کے ذریعے پیغمبروں کی طرزِ
فکر شعور میں منتقل ہوتی ہے اور روحانی طور پر ان کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ اتباع
سنت کا تقاضہ یہ ہے کہ سب سے پہلے پیغمبروں کے ان اصولوں کو اپنایا جائے جن اصولوں
پر عمل کرنے کی وجہ سے انہیں اللہ نے نبوت سے سرفراز کیا۔ ہر پیغمبر نے پہلے اللہ
سے رابطہ قائم کیا۔ اللہ کی صفات کو اپنی صلاحیت بنا کر انسانیت کا بہترین مظاہرہ
کیا۔ اپنی انا کو مغلوب کر کے اللہ کی انا کے ساتھ اپنی شخصیت کو ابھارا۔ یہی وہ
بنیادی اصول ہیں جن پر عمل کر کے انہوں نے اللہ کا قرب حاصل کیا اور بنی نوع
انسانی کے لئے ایک نمونہ بن گئے۔ اتباع
سنت کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کی زندگی
شروع سے آخیر تک
ایک ایسی فلم ہے جس کی کاپی کرنے کی ضرورت ہے۔ جس نے اپنی سکت کے مطابق جتنی کر لی
اللہ کے نزدیک قابل ستائش ہے۔ دین میں فرقہ بندیاں اسی وجہ سے ہیں کہ ہر فرقہ
پیغمبر کے کسی نہ کسی اصول پر کاربند ہے مگر افسوس تو یہ ہے کہ اس کی نظر صرف اپنے
نفس میں عمل کو دیکھ رہی ہے جس کی وجہ سے
اپنا عمل اسے دوسروں سے اچھا لگتا ہے۔ نفس کی خود ستائی دوسروں کو برا کہنے پر
اکساتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر پیغمبر
بشریت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ کوئی بھی قوم اور کوئی بھی امت ان کی زندگی کے تمام
اعمال کی مکمل کاپی نہیں کر سکتی۔ مگر اپنی سکت کے مطابق آدمی پر یہ لازم ہے کہ
پیغمبروں کے لائے ہوئے اصولوں کو اپنائے۔
روحانیت میں اسلام کا مطلب وہ دین ہے جو
ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر لے کر آئے ہیں۔ یعنی ہر پیغمبر کا مشن دین اسلام ہی
ہے۔ اگر آج ہمیں دوسرے مذاہب میں نمایاں فرق دکھائی دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے
کہ کہیں نہ کہیں تبدیلی ضرور ہونی ہے۔ پس اس تبدیلی کو پہچاننے کے لئے اور پرکھنے
کے لئے قرآن موجود ہے۔ سنت کے جو اصول ہم پیغمبروں سے منسوب کرتے ہیں اگر قرآن میں
ان کا تذکرہ موجود نہیں ہے تو اس کی پیروی کرنا آدمی پر فرض نہیں ہے۔ نسل انسانی
کو ایک کے بعد دوسرے پیغمبر کی اسی لئے ضرورت پڑی کہ سالہا سال کے عرصے میں لوگوں
نے پیغمبر کی تعلیمات کو بھلا دیا تھا اور ان کے لائے ہوئے اصولوں میں تحریف کر دی
تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدم سے لے کر اب تک نسل انسانی اسی وضع پر چل رہی ہے کہ جب پیغمبر کو آئے ہوئے
ایک مدت گزر جاتی ہے تو اس کی تعلیمات میں مصلحتیں شامل کر دی جاتی ہیں اور
پھر ایک مدت بعد یہ مصلحتیں نسل انسانی کے
شعور کا ایک جز بن جاتی ہیں اور وہ اسے مذہبی رنگ دے دیتے ہیں۔ اج بھی یہی صورت
حال ہے۔ ہر پیغمبر کے دین کو مسخ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ اج ہمارے پاس اصل کو
پرکھنے کی ایک ہی کسوٹی ہے اور وہ ہے قرآن۔ بجائے اس کے کہ باریک باریک مسئلوں میں
الجھا جائے۔ قرآن کے واضح اصولوں پر عمل کریں۔ حضور پاک ﷺ کی ساری زندگی قرآن کا
عملی نمونہ ہے۔ اگر ہم اس بات کو ہر وقت ذہن میں رکھیں اور قرآن کو سمجھ کر اس کے اصولوں
کی پیروی کریں تو اتباع سنت کا حق بھی ادا ہو جائے اور اللہ بھی ہم سے راضی ہو
جائے۔۔۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔