Topics
زہد علم کاثمر ہے۔
آنحضرت ؐ فرماتے ہیں۔
"جس کو اللہ تعالیٰ زاہد بناتا ہے اس کے قلب میں حکمت القاء فرماتا ہے اور
دنیاوی بیماری و علاج سے آگاہ کرتا ہےاور اس جہان فانی سے بے لوث باہر نکال کر
دارالسلام میں پہنچادیتا ہے۔"
زاہد کی اصل وہ نور اور علم ہے جو اللہ کی جانب سے
بندے کے قلب میں ڈال دیا جاتا ہےا ور جس سے سینہ کھل جاتا ہے۔ یعنی شرح صدر ہوجاتا ہے۔ جس کی نشانی یہ ہے
کہ دنیا سے بے رغبتی اورآخرت کی جانب توجہ اور موت سے پہلے موت کا انتظام کرنا ہے۔
حرص اور وس سے بچنے کو زہد کہتے ہیں۔
غیب پر ایمان زہد وتقویٰ ہے۔
زہد ایسی عبادت ہے جو محض رضائے الٰہی کے لئے کی
جائے۔ متقی وہ لوگ ہیں جنہیں غیب پر یقین حاصل ہےیعنی غیب ان کے مشاہدہ میں ہے اور
وہ اللہ کے ساتھ ایک مستقل رابطہ میں ہیں۔ وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں یہ سمجھ کر خرچ
کرتے ہیں کہ یہ منجانب اللہ ہے اور وہ تمام ادیان کو اللہ کی جانب سے سمجھتے ہیں
اورآخرت کی زندگی ان کے مشاہدے میں ہے۔
ہر عمل رضائے الٰہی کے لئے کرنا زہدہے۔
امرالٰہی سے منسلک ہونا تقویٰ ہے۔
اللہ کے ہر حکم پر دل کی گہرائیوں سے عمل کرنا
تقویٰ ہے۔
ایمان کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔
خوشی سے ہر چیز کو قبول کرنا تقویٰ ہے۔
اللہ کی رضا کے مطابق عمل کرنا زہد ہے اور اللہ کی
ناپسندیدگی سے بچنا تقویٰ ہے۔
اللہ کی راہ میں ہر چیز کو قربان کرنا اور ہر اس
چیزسے دور رہنا جس اللہ منع فرمائے ، تقویٰ ہے۔
اللہ کے لئے اپنے نفس کو کثافت سے پاک کرکے لطافت
سے بھردینا زہد ہے۔
اللہ پر کامل بھروسہ اور یقین رکھنااور ہر کام میں
اسے اپنا مددگار سمجھنا تقویٰ ہے۔
Relate every action to God
اپنی نفسانی خواہشات کو محدود رکھ کر قناعت اختیار
کرنا زہد ہے۔
اپنی انا کی نفی کرکے پیغمبرانہ اوصاف پیدا کرنا
زہد ہے۔
پیغمبرانہ طرزفکر کو اپناتے ہوئے اللہ کی کسی مخلوق
کو نقصان نہ پہچانا اللہ پر مکمل بھروسہ رکھنا اور اللہ کے سوا کسی سے امید نہ
رکھنا تقویٰ ہے۔
زاہد اور متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ کے خاص فضل و کرم
سے اللہ کی راہ میں متقیں برداشت کرتے ہوئے اللہ کےمحبوب بن جاتے ہیں اور کائنات
کے اسرار و رموز ان پر کھل جاتے ہیں۔
Full dependability upon God, deep contentment in
every thing
٭٭٭٭٭٭٭
سوالات
سوال نمبر۱ زہد و تقویٰ کیا ہے؟
سوال نمبر۲ روحانیت میں تقویٰ کی کیا
اہمیت ہے؟
سوال نمبر۳ ایک سالک تقویٰ حاصل کرکے
روحانیت میں کس طرح کامیاب ہوسکتا ہے؟
سوال نمبر۴ زہد و تقویٰ کے کیا کیا
فوائد ہیں؟
زہد علم کا ثمر ہے۔ جب آدمی کے اندر روحانی علوم کا ذخیرہ
ہو جاتا ہے تو اس کے اندر زہد پیدا ہوجاتا ہے۔ حضور پاک ﷺ فرماتے ہیں۔” جس شخص کو
اللہ پاک زاہد بناتا ہے اس کے قلب میں
حکمت القاء فرماتا ہے اور دنیا کی بیماریوں
اور علاج سے اسے آگاہ کر دیتا ہے اور اس جہان فانی سے بے لوث باہر نکال کر
دارالسلام میں پہنچا دیتا ہے۔“ یعنی زاہد وہ ہے
جس کے قلب میں حکمت القاء ہوتی ہے۔
حکمت شئے کے پس پردہ کام کرنے والی حقیقت کو کہتے ہیں۔ حضور پاک ﷺ کی اس حدیث کی
رو سے زاہد وہ ہے جو اپنے قلب کی آنکھ سے
شئے کے پس پردہ کام کرنے والے اس حقائق کو دیکھ لیتا ہے۔ ہر شئے کے پردے میں اللہ
کا امر کام کر رہا ہے۔ اس کی نگاہ شئے کی گہرائی میں اللہ کے امر کی حرکات سے واقف
ہو جاتی ہے۔ اس کا روحانی شعور اور روحانی طرزِ فکر شئے کے اندر موجود روح سے
رابطہ قائم کر لیتا ہے۔ اس طرح وہ ظاہر میں کام کرنے والی حرکات کے محرکات سے واقف
ہو جاتا ہے اور اپنے روحانی شعور کے ذریعے غیب کے اسرار کا سراغ لگا لیتا ہے۔
اللہ پاک نے اپنے کلام میں متقی کی تعریف ان الفاظ میں بیان
کی ہے کہ متقی وہ لوگ ہیں جن کے مشاہدے میں غیب ہوتا ہے۔ یومنون بالغیب کے معنی ہی
غیب میں دیکھنے والی نظر ہے۔ اللہ پاک نے اپنے کلام میں مومن کی تعریف اس طرح بیان کی ہے کہ مومن وہ ہے جس کے سینے میں نور
داخل ہو گیا ہے۔ نور اللہ ہے اور اللہ کی
نظر زمینوں اور آسمانوں میں ہر جگہ دیکھتی ہے۔ اللہ کا نور اللہ کی نظر ہے۔
مومن کے سینے میں جب اللہ کا نور جذب ہو
جاتا ہے تو یہ نور اپنی فطرت کے مطابق مومن کے قلب کی نظر بن جاتا ہے۔ پس نور کی
نظر ہر شئے کے اندر موجود نور کو دیکھتی ہے اور مومن کا تفکر اللہ کی حکمتوں سے
واقف ہو جاتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ ظاہر کی تمام حرکات پس پردہ کام کرنے والے نور
کی وجہ سے ہے۔ وہ ہر شئے کی وابستگی نور کے ساتھ دیکھ لیتا ہے اور ہر شئے کی
وابستگی ایک حقیقت واحدہ کے ساتھ پہچان لیتا ہے۔
زہد کی اصل وہ نور اور علم ہے جو اللہ کی جانب سے بندے کے
قلب میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس نور کی وجہ سے شرح صدر ہو جاتا ہے۔ شرح صدر کے معنی
کو آپ اس مثال سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں جیسے رات بھر چاند اپنی روشنی سے دنیا کو
منور کرتا ہے مگر صبح کو جب سورج نکل آتا
ہے تو چاند غائب ہو جاتا ہے۔ دراصل سورج کی روشنیاں اس قدر تیز ہو تی ہیں کہ چاند
کی مدہم روشنی ان تیز روشنیوں میں چھپ
جاتی ہے گویا چاند کی روشنی سورج کی روشنی میں ہی مل جاتی ہے۔ اس طرح جہاں جہاں سورج کی روشنی پڑ رہی ہے اس کی اطلاع
چاند کو بھی مل رہی ہے۔ گویا چاند سورج کی نظر سے دنیا کو دیکھ رہا ہے۔ شرح صدر کے
لفظی معنی ہے وسعت قلبی۔ قلب میں جو خیال بھی
آتا ہے آدمی خیال کی اس تصویر کو
نہایت واضح طور پر پہچان لیتا ہے۔ اسی کو تصور کہتے ہیں۔ تصور بھی ہمارے شعور کا
دائرہ ہے۔ ہماری عقل تصور کے خاکے کو دیکھ کر ہی عمل کا فیصلہ کرتی ہے۔ عقل یا
شعور اپنی فطرت میں محدود ہے۔ اسی محدودیت
کی وجہ سے آدمی غلطی کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ یعنی عقل کوتاہ نظری ہے یا نظر کا محدود
دائرے میں دیکھنا ہے۔ جیسے موم بتی کی روشنی کا دائرہ بلب کی روشنی کے دائرے سے چھوٹا ہوتا ہے۔ جب قلب میں اللہ کا نور
داخل ہو جاتا ہے تو نور عقل کی روشنی پر حاوی ہو جاتا ہے۔ اس طرح عقل کی روشنی میں
نورانیت جذب ہو جاتی ہے۔ اب یہ نور عقل کی نظر بن جاتا ہے۔ اسی کو فراست کہا گیا ہے۔ نور کا دائرہ حدود عقل کی روشنی سے
بہت زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ وسعت نظر اور فکر دونوں کو کھول دیتی ہے۔ اس کو
شرح صدر کہتے ہیں۔ جس کی نشانی یہ ہے کہ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی جانب توجہ
ہو جاتی ہے۔ آدمی موت سے پہلے موت کے
انتظام میں لگ جاتا ہے۔ روشنی ہی نظر ہے ۔ روشنی کے بغیر دکھائی نہیں دیتا۔ آپ کہیں
گے اگر روشنی کے بغیر دکھائی نہیں دیتا یا روشنی ہی نظر ہے تو چمگاڈر اور الو کس
طرح اندھیرے میں دیکھ لیتے ہیں۔ جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ چمگارڈر اور الو کے کمپیوٹر میں اندھیرے کو
اجالا اور اجالے کو اندھیرا فیڈ ہے۔ یعنی ان کے لئے اندھیرا بھی ایک روشنی ہے۔
لہذا وہ اس روشنی میں موجود اشیاء کو دن کے اجالے کی طرح دیکھ لیتے ہین۔ اصول تو
وہی رہا کہ دیکھنے کے لئے نظریاتی بینائی روشنی بنتی ہے۔ یہ روشنی خواہ اندھیرا ہو
یا اجالا، آنکھ جس روشنی میں بھی دیکھ لے وہی آنکھ کی بینائی ہے۔ روشنی جتنی شفاف
ہوگی آنکھ اتنا ہی صاف دیکھے گی۔ نور اللہ کا پرتو ہے۔ نور کے اندر اللہ کی بے شمار صفات کام کر
رہی ہیں۔ جب نور آدمی کے قلب میں داخل ہو جاتا ہے تو قلب کی آنکھ عالم تصور میں ہر
شئے کو بالکل صاف دیکھ لیتی ہے۔ نور لامحدودیت کا جز ہے۔ جب نور قلب کی نظر بن
جاتا ہے تو قلب کی نگاہ لامحدودیت میں دیکھنے لگتی ہے۔ لامحدودیت ہی غیب ہے جو
شعور کے لئے اندھیرے کی صورت ہے۔ غیب میں کام کرنے والی روشنیوں اور انوار کو شعور
کی نظر اندھیرے کی صورت دیکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ غیب کے علوم سے بے خبر رہتی
ہے۔ جب قلب کا نور شعور کی نظر بن جاتا ہے تو شعور گویا اندھیرے میں دیکھنا شروع
کر دیتا ہے۔ زاہد اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب میں دیکھتے اور غیب مین دیکھنے والی
چیزوں کو ان کے علوم کے ذریعے پہچانتے ہیں۔ ہر آدمی کا شعور نور کی مقداریں جذب کر
کے پھیلتا ہے۔ جس طرح ایک غبارے میں ہوا بھری جاتی ہے تو وہ پھیلتا ہے ایک حد ایسی
بھی آتی ہے جب غبارے میں مزید ہوا بھری جائے تو غبارہ پھٹ جاتا ہے۔ یہی آخری حد
غبارے کی انتہائی وسعت ہے۔ اسی طرح ہر
آدمی کا شعور بھی غبارے کی مانند ہے کہ اس کے اندر نور جذب کرنے کی مقداریں مختلف
ہیں۔ ہر شعور اپنی سکت کے مطابق نور کو
جذب کرتا ہے اور اپنی سکت کے مطابق وسعت اختیار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیب یا
لامحدودیت میں ہر شخص اپنے ہی عقل و شعور کی حد میں دیکھتا ہے۔ البتہ یہ عقل
لامحدودیت کو اپنی نظر کا مرکز بنا لیتی ہے۔ علم الادم الاسماء کلہا کا مطلب بھی یہی ہے کہ آدم کو اسمائے الٰہیہ کے علوم آدم
کی سکت کے مطابق عطا کئے گئے۔ یہ کل آدم کا کامل ہے نہ کہ اللہ کا۔ اللہ تو
لامحدود ہستی ہے۔ اس کے علوم بھی لامحدود ہیں۔ آدم کے اندر جتنی سکت تھی اس کی سکت
کے مطابق اللہ نے اسمائے الٰہیہ کے علوم اسے
عنایت کر دیئے۔
دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر
ہر آدم یا ہر بشر ایک مخصوص پیمانہ ہے۔ کائنات کی بنیاد
وحدت فکر پر ہے۔ کائنات کی ہر شئے وحدت کا ایک پیمانہ ہے۔ ہر پیمانہ اپنی فطرت کے
مطابق یکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی دو شخص ایک سے نہیں ہو سکتے ۔ ہر شخص اپنی
سکت کے مطابق روشنیوں کو جذب کرتا ہے۔ اسی کے مطابق اس کی عقل و فہم کام کرتی ہے۔
اگر ہر آدمی کی ایک ہی سکت ہوتی تو سب کے
علوم برابر ہوتے ۔ سب کی ہر صلاحیت بالکل ایک سی ہوتی۔ پھر ایک دوسرے میں کوئی
پہچان نہ ہوتی۔ مگر اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ”
ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔“ قلب انسانی کی مثال پانی بھرنے والی مشک
کی طرح ہے۔ جیسے جیسے نور بھرتا جاتا ہے سینہ پھیلتا جاتا ہے۔ قلب جب انوار سے
لبریز ہو جاتا ہے تو ان انوار کی روشنی انسان کے نفس کا بھی احاطہ کر لیتی ہے اور
نفس کی کمزوریوں کو اپنے انوار کی چادر میں چھپا لیتی ہے۔ آدمی کا نفس نورانی ہو
جاتا ہے اور اس کے حواس سے نور جھلکنے لگتا ہے۔ اس کے حواس ہر شئے کے اندر موجود
نور کو پہچاننے لگتے ہیں۔ نور علم ہے۔ اس طرح باطن کے علوم آدمی کی عقل پر آشکار
ہو جاتے ہیں اور ہر شئے میں نور کا مشاہدہ ہو جاتا ہے۔ نور آدمی کی صلاحیت بن جاتا ہے۔ نور غیب ہے۔ لہذا غیب سے رغبت
ہو جاتی ہے اور دنیا سے بے رغبتی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے آدمی مرنے سے پہلے موت
کی تیاری میں لگ جاتا ہے اور غیب میں کام کرنے
والےاصولوں کو اپنا لیتا ہے۔ اس طرح اس کے اندر زہد اور تقویٰ پیدا ہو جاتا
ہے۔ متقی اور زاہد وہ لوگ ہیں جو دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ صرف اس میں سے
اپنی ضرورت کے مطابق حصہ حاصل کرتے ہیں۔ زندگی کے تقاضوں کو اللہ کی رضا کے مطابق
پورا کرتے ہیں اور زندہ رہنے کے لئے دنیا کی چیزوں کو اس نیت سے استعمال کرتے ہیں
کہ یہ چیزیں انسان کی ضرورت کے مطابق اللہ نے بنائی ہیں۔ ان کے ذہن میں دنیا کی
حیثیت ثانوی ہوتی ہے اور دنیا بنانے والے کی حیثیت اولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ دنیا کی کسی بھی شئے سے انہیں نقصان نہیں پہنچتا۔ جس طرح وہ اللہ کو
اپنا دوست اور اپنا مالک جانتے ہیں اللہ بھی انہیں اپنا دوست جانتا ہے اور ہر قدم
پر ان کا محافظ بن جاتا ہے۔ متقی اور زاہد وہ ہے جو اپنی انا (Self Ego) کی نفی کر کے اللہ کی انا کے ساتھ زندہ اور
قائم ہو۔
اللہ پاک اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ
ہم نے رہبانیت کو ان کے لئے پسند نہیں فرمایا۔ مگر انہوں نے اسے خود پسند کر لیا
اور پھر اس کی شرائط کو نبھا بھی نہ سکے۔ اس کلام میں اللہ پاک نے ایک قانون بیان
کیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر بندہ اللہ تعالیٰ کے ارادے اور پسند کے خلاف اپنے ارادے
اور پسند سے کام لیتا ہے تو یہ کام وہ کبھی بھی پورا نہیں کر پایا۔ کام وہی مکمل
ہوتا ہے جس کے اندر اللہ کا ارادہ اور اس کی رضا شامل ہو۔ رہبانیت سے مراد دنیا
والوں سے کنارہ کشی اختیار کر لینا ہے اور ان چیزوں کو ترک کر دینا ہے جو چیزیں
اللہ نے حلال کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اس کی بھی مذمت فرمائی ہے کہ
اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لینا اللہ کی رضا کے خلاف ہے۔
عام طور سے لوگوں میں جب بھی زہد و تقویٰ
کا تذکرہ آتا ہے تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ ایک زاہد و متقی آدمی تارک دنیا بھی
ہوگا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے جب کہ زاہد و
متقی وہ ہے جس کے مشاہدے میں غیب ہے۔ وہ
غیب کے حقائق سے آگاہ ہے۔ وہ قدرت کے نظام سے واقف ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے اور گذشتہ
ادوار میں ہوتا آیا ہے کہ روحانی علوم سیکھنے کے لئے لوگوں نے بڑے برے مجاہدے کیے۔
اسی تربیتی دور میں ایک دور اولیاء اللہ اور صوفیوں پر ایسا بھی آیا ہے کہ انہوں
نے لوگوں کے ہجوم سے ہٹ کر زندگی گزاری۔ مگر یہ پوری زندگی نہیں بلکہ زندگی کا کچھ حصہ ہے۔ جب ان کی تعلیم و
تربیت پوری ہوگئی تو اللہ نے انہیں لوگوں کے اندر رہنے کا حکم دیا تاکہ لوگوں کو
ان سے فائدہ پہنچے اور اللہ کا مشن چلتا رہے اور اللہ نے اور اللہ کے رسولوں نے ان
سے مشن کے بڑے بڑے کام لئے۔ قرآن میں جتنے بھی پیغمبروں کے ذکر ملتے ہیں کسی ایک
بھی پیغمبر کے متعلق یہ اشارہ بھی نہیں ہے کہ وہ تارک الدنیا تھے۔ سب نے ہی لوگوں
کے درمیان اپنی زندگی گزاری۔ ان سے دکھ بھی اُٹھائے۔ ان کے لئے پھر بھی ایثار و
قربانی سے منہ نہ موڑا۔ زہد و تقویٰ حاصل کرنے کا سب سے بڑا منشاء یہی ہونا چاہیے
کہ روحانی علوم حاصل کر کے اپنے اندر کی روحانی صلاحیتیں بیدار کرے اور پھر دنیا
والوں کے سامنے آئے تاکہ اس کے نیک اعمال و افعال دوسرے کے لئے مشعل راہ بن جائیں۔
٭٭٭٭٭