Topics
جب یہ بات ذہن نشین ہو
گئی کہ جسمانی صحت اور بیماری کا نظام رنگوں پر قائم ہے۔ زمین پر موجود سسٹم
رنگینوں کا سسٹم ہے اور کوئی چیز بے رنگ نہیں ہے تو یہ تلاش کرنا ضروری ہو جاتا ہے
کہ رنگوں کی کمی بیشی سے کون کون سے امراض پیدا ہوتے ہیں اور رنگوں کے اعتدال سے
جسمانی صحت کس طرح برقرار رہتی ہے۔
اس کا ایک انتہائی آسان
اور زود اثر طریقہ یہ ہے کہ امراض کا تعلق جسم کے جس حصے سے ہو اس حصے کے متعلقہ
رنگ کی کمی یا زیادتی کو دور کیا جائے۔ جسم کے ہر حصے، عضو اور غدود کیلئے الگ الگ
رنگ معین ہیں۔
۱۔ دماغ،
سر، گردن، چہرہ اور چہرے کے تمام اعضاء بشمول آنکھ، ناک، کان کیلئے نیلا رنگ۔
۲۔ سینے
اور پھیپھڑوں سے متعلق امراض کیلئے نارنجی رنگ۔
۳۔ معدے
اور نظام انہضام کی خرابیاں دور کرنے کیلئے زرد یعنی پیلا رنگ۔
۴۔ جنسی
اعضاء جنسی امراض اور غدود جن میں دماغ کے زیریں حصے کا غدود، لبلبہ، تلی، مثانہ،
خصیے اور بیضہ دانی سے متعلق امراض کیلئے جامنی، بنفشی یا بینگنی رنگ۔
خون اور دوران خون سے
متعلق امراض کیلئے سرخ رنگ اور جلد کے امراض اور زخموں خصوصاً پیپ والے زخموں
کیلئے سبز رنگ۔
شیخ الرئیس ابو علی حسین
بن عبداللہ بن سینا کا قول ہے کہ ہر انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے خواب دیکھتا ہے۔
۱۔ جس
شخص کے مزاج میں حرارت کا غلبہ ہو وہ خواب میں آگ یا دھوپ دیکھتا ہے۔
۲۔ جس
شخص کے مزاج میں سردی کا غلبہ ہو وہ خواب میں برف یا خود کو ٹھنڈے پانی میں غوطہ
لگاتے ہوئے دیکھتا ہے۔
۳۔ غرضیکہ
جس شخص میں جس خلط کا غلبہ ہوتا ہے وہ اسی کے موافق خواب دیکھتا ہے۔
نیند کے دوران جزوی اور
بسا اوقات کلی طور پر شعور معطل ہو جاتا ہے۔ افکار و تصورات، ذہنی اور جسمانی
افعال پر قابو نہیں رہتا۔ شعوری تعطل کے علاوہ خواب میں کیمیاوی تبدیلی بھی واقع
ہوتی ہے۔ اس کیمیاوی تبدیلی سے نیند میں جو سانس لیا جاتا ہے وہ گہرا ہوتا ہے۔
بیداری میں سانس کی آمد و رفت کے دوران پیٹ کا گھٹنا بڑھنا زیادہ ہوتا ہے اس کے
برعکس خواب میں پسلیوں کا ابھار زیادہ ہوتا ہے۔ کسی بھی سوتے ہوئے آدمی کو دیکھا
جائے کہ جب وہ سانس اندر لیتا ہے تو سانس گہرا ہوتا ہے اور اسی طرح سانس باہر
نکلتا ہے تو سانس باہر آنے میں بیداری کی نسبت جسم پر زیادہ زور پڑتا ہے۔ ایک
کیمیاوی تبدیلی اور ہے جس کی وجہ سے سو کر اٹھنے کے بعد آنکھ کے اندر کی سطح خشک
ہو جاتی ہے۔ اگر آنکھوں کو ملا نہ جائے تو رطوبت پیدا کرنے والے غدودوں کا فعل دیر
میں بیدار ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نیند کے دوران نبض سست پڑ جاتی ہے۔ اعضاء سکڑ
جاتے ہیں۔ سو کر اٹھنے کے بعد اگر قد ناپا جائے تو کم ہوتا ہے۔
اکثر لوگ بے خوابی کا ذکر
بھی کرتے ہیں اور یہ بے خوابی رفتہ رفتہ کسی نہ کسی نفسیاتی مرض کا پیش خیمہ بھی
بن جاتی ہے۔ بے خوابی اصل میں تکنیکی لحاظ سے بے چین یا مضطرب نیند کی انتہائی
صورت ہے۔ نیند کا کم آنا، نیند کا ٹوٹ ٹوٹ کر آنا یا نیند کا بالکل نہ آنا یہ
مخصوص حالتیں ہیں جن کی بناء پر انسانی جذبات میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں
اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے کیفیات میں ابتری پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ لوگ جو زیادہ فکر
مند رہتے ہیں اور جن کی نیند گہری اور مسلسل نہیں ہوتی ان کے دماغ کے وہ خلئے جن
کے اوپر اچھی اور مثالی صحت کا دارومدار ہے کمزور ہو جاتے ہیں۔
انسانی حواس رنگوں سے
بنتے ہیں اور رنگوں کی زیادتی اور کمی سے خواب کے حواس بھی متاثر ہوتے ہیں۔ رنگوں
اور لہروں کا خاص توازن کے ساتھ عمل پذیر ہونا صحت کا ضامن ہے۔ اگر کسی وجہ سے
رنگوں کے نظام میں خلل واقع ہو جائے، کوئی رنگ زیادہ یا کم ہو جائے یا رنگوں کی
مقداروں میں فرق آ جائے تو محسوسات میں بھی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے اور اس کے
نتیجے میں دیکھے جانے والے خوابوں میں اشارے ملتے ہیں۔
نیلے رنگ کی کمی سے تمام
قسم کے دماغی امراض، گردن اور کمر میں درد، ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں خرابی،
ڈیپریشن ، احساس محرومی، کمزور قوت ارادی جیسے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ امراض لاحق ہو
جانے سے خوابوں کی کیفیات بدل جاتی ہے۔ امراض سے چھٹکارا پانے کے لئے لاشعور اس
انداز میں رہنمائی کرتا ہے کہ مریض خواب میں نیلا رنگ یا نیلے رنگ سے مرکب اشیاء
کو دیکھتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ میں نیلے آسمان کے نیچے موجود ہوں کبھی نیلی
روشنیوں کی بارش ہوتے اور خود کو اس بارش میں بھیگتے ہوئے دیکھتا ہے اور کبھی اسے
اپنا سراپا نیلی روشنیوں کا بنا ہوا نظر آتا ہے۔
زرد رنگ کی مقداروں میں
اعتدال نہ رہے تو نظام ہضم جس ریاح، آنتوں کی دق، پیچش، قبض، بواسیر، معدہ کا السر
وغیرہ بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ مادی جسم کے گرد روشنیوں کے ہالے میں جب زرد رنگ
کی کمی ہو جاتی ہے تو خواب میں اس کے اشارات ملنے لگتے ہیں مریض خود کو زرد لباس
میں ملبوس دیکھتا ہے۔ کبھی کھانے پینے کی اشیاء میں زرد رنگ غالب نظر آتا ہے۔
سرسوں کے پھول کے کھیت نظر آتے ہیں۔ ایسے پھل خواب میں نظر آتے ہیں جن میں زرد رنگ
غالب ہوتا ہے۔
نارنجی رنگ سے مزین اشیاء
خواب میں اس وقت نظر آتی ہیں جب جسم سینے کے امراض مثلاً دق، سل، پرانی کھانسی،
دمہ وغیرہ سے متاثر ہو۔
ہائی بلڈ پریشر اور خون
میں حدت سے پیدا ہونے والے امراض، جلدی بیماریاں خارش، آتشک، سوزاک، چھپ، ایگرنیما
وغیرہ سے شفایابی کے لئے مریض سنز روشنی خود پر محیط دیکھتا ہے یا یہ دیکھتا ہے کہ
پورے ماحول میں سبز روشنی پھیلی ہوئی ہے۔
سرخ رنگ کی کمی واقع ہونے
لگتی ہے تو لو بلڈ پریشر، انیمیا، گٹھیا، دل کا گھٹنا، دل کا ڈوبنا، توانائی کا کم
محسوس ہونا، نروس بریک ڈائون، دماغ میں مایوس کن خیالات آنا، بزدلی، موت کا خوف
اور ڈیپریشن جیسے امراض آدمی کو گھیر لیتے ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جسم
میں سرخ رنگ کی کمی ہو گئی ہے۔
جنسی امراض لاحق ہونے کی
ایک وجہ جامنی رنگ کی کمی ہے جبکہ مرگی، ذہن میں منفی خیالات آنا، دنیا بیزاری،
ذہن کا مائوف ہونا وغیرہ ایسے امراض ہیں جو گلابی رنگ کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں اور
خواب میں آدمی اس کو بار بار دیکھتا ہے۔
خواب میں جب رنگ نظر آتے
ہیں تو طبیعت ان کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے یا بیزار محسوس کرتی ہے۔ بیزاری کا احساس
ان رنگوں کی زیادتی کا مظہر ہے جب کہ طبیعت کا میلان متعلقہ رنگ کی کمی کو ظاہر
کرتا ہے۔
پنڈولم کا استعمال:
کسی فرد میں رنگوں کی کمی
بیشی کی بابت معلوم کرنے کے لئے پنڈولم کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پنڈولم کسی دھاگے، تار یا
زنجیر سے آزادانہ طور پر لٹکتی ہوئی کوئی ایسی شئے ہو سکتی ہے جو کہ عموماً گول
ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے کسی فرد کے جسم کے اندر اور باہر دور کرنے والی توانائی کی
مقداروں کی بابت معلوم کیا جا سکتا ہے۔ جسم انسانی میں کام کرنے والی لہروں کے
نظام سے فرد کے اندر توانائی کا ایک میدان
(Force Field) وجود میں آتا ہے۔ جب آزادانہ طور پر لٹکتا
ہوا پنڈولم اس میدان میں داخل کیا جاتا ہے تو فرد کی توانائی کے زیر اثر اس میں
حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ حرکت اس میدان کی توانائی کی مقداروں کا اندازہ کرنے میں
معاون ہوتی ہے۔ پنڈولم کی مختلف حرکات سے یہ بات معلوم کی جا سکتی ہے کہ اس وقت
توانائی کا بہائو کتنا زیادہ یا کتنا کم ہے۔ اگر پنڈولم میں کوئی حرکت پیدا نہیں
ہوتی تو یہ اس میدان میں کسی قسم کی کوئی توانائی نہ ہونے یا توانائی کی مختلف
مقداوں کا آپس میں ایک دوسرے کے اثرات کو زائل کرنے کی علامت سمجھا جاتا ہے اور
اگر پنڈولم گول دائرے میں گھومنا شروع کر دے تو پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ دائرہ
کتنا بڑا ہے اور اس کی گولائی کتنی ہے۔ اس کے علاوہ کیا وہ گھڑی کی سوئیوں کی حرکت
کے مطابق یعنی کلاک وائز حرکت کر رہا ہے یا اس کے مخالف یعنی اینٹی کلاک وائز۔
پنڈولم کا استعمال کرتے
ہوئے کسی فرد میں رنگوں کی کمی بیشی معلوم کرنے کے بنیادی طور پر دو طریقے ہیں۔
پنڈولم کے ذریعے رنگوں کی
کمی بیشی معلوم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ سفید کاغذ پر ۸ یا ۹ انچ کا قطر کا ایک دائرہ
بنا کر اس کے اندر ڈیڑھ انچ قطر کا ایک چھوٹا دائرہ بنا لیا جاتا ہے۔ چھوٹے دائرہ
سے باہر کی جگہ کو آٹھ برابر حصوں میں تقسیم کر کے اس طرح بنے ہوئے ہر خانے میں
ایک ایک رنگ بھر لیا جاتا ہے۔ آٹھواں خانہ سفید چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مرکز میں خالی
جگہ پر مریض اور اس کی والدہ کا نام لکھ کر پنڈولم کو مریض کے نام پر لٹکا کر ذہن
میں یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ پنڈولم کی کلاک وائز حرکت کا مطلب رنگ کی کمی اور
اینٹی کلاک وائز حرکت کا مفہوم رنگ کی زیادتی ہو گا۔ پھر مریض کے سامنے پنڈولم کو
ہر رنگ کے خانے پر باری باری لٹکا کر دیکھا جاتا ہے کہ پنڈولم حرکت کرتا ہے یا
نہیں اور اگر وہ حرکت کرتا ہے تو اس سے رنگ کی کمی کا اظہار ہوتا ہے یا زیادتی کا۔
اگر کسی رنگ کے خانے کے اوپر پنڈولم کوئی حرکت نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ لیا
جاتا ہے کہ اس رنگ کی بابت پنڈولم کوئی رہنمائی نہیں کر رہا۔ اس طرح ہر رنگ کی
بابت پنڈولم کی حرکت سے معلوم ہونے والی اطلاع کو نوٹ کر کے یہ تشخیص کر دی جاتی
ہے کہ مریض میں کون کون سے رنگ کی کمی ہے اور کون کونسا رنگ زیادہ ہے یا کونسا رنگ
مناسب مقدار میں موجود ہے۔
اس کا دوسرا طریقہ یہ ہے
کہ سات آٹھ مختلف رنگوں کے مارکر (سیاہی والے رنگین قلم) سے باری باری سفید کاغذ
پر مریض کا پورا نام اور اس کی والدہ کا نام لکھ کر اس کے آگے اسی قلم سے اسی رنگ کا
نام بھی لکھ دیا جاتا ہے جس سے مریض کا نام لکھا جاتا ہے۔ اس طرح سات آٹھ سطریں بن
جاتی ہیں۔ اب اوپر دیئے گئے طریقے کے مطابق ہر رنگ سے لکھی ہوئی سطر پر پنڈولم کو
لٹکا کر باری باری یہ چیک کر لیا جاتا ہے کہ مریض میں کس رنگ کی کمی یا زیادتی کا
اظہار ہو رہا ہے۔
پنڈولم کے ذریعے رنگوں کی
کمی بیشی معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ معالج پنڈولم کے استعمال میں مہارت رکھتا
ہو اور تشخیص کے وقت خود اس کا اپنا ذہن بالکل غیر جانبدار ہو۔ تشخیص کے وقت وہ
خود کسی رنگ کی کمی یا زیادتی کا شکار نہ ہو اور نہ ہی اس وقت وہ خود کسی رنگ کے
بارے میں پسندیدگی یا ناپسندیدگی رکھتا ہو اور نہ ہی وہ پہلے سے کوئی فیصلہ کر کے
بیٹھا ہو کہ مریض میں فلاں فلاں رنگ کی کمی بیشی ہے۔ کیونکہ معالج کے ذہن کی حرکت
پنڈولم کے ذریعے اپنا اظہار کرنا شروع کر دے گی اور ساری تشخیص غلط ہو جائے گی۔
رنگوں کی کمی بیشی معلوم
کرنے کا ایک طریقہ اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ معالج ۳ یا ۴ انچ مثلث شکل کے مختلف
رنگوں کے آٹھ دس کارڈ تیار کر لیتا ہے۔ مریض کے سامنے ایک بڑا سفید کارڈ بورڈ بچھا
دیا جاتا ہے اور مریض کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ آرام سے بیٹھ کر دکھائے جانے والے
کارڈوں کو ایک ایک منٹ تک ٹکٹکی باندھ کر دیکھے۔ ایک منٹ کے بعد دکھایا جانے والا
کارڈ ہٹا لیا جاتا ہے لیکن مریض اپنی نگاہیں وہیں جمائے بیٹھا رہتا ہے۔ سفید سطح
پر دیکھے جانے والا کارڈ کا معاون رنگ مریض کے سامنے ابھرتا ہے جتنی دیر رنگ کا
دوسرا رخ مریض کی نگاہوں کے سامنے رہتا ہے وہ اسے دیکھتا ہے اور جونہی وہ رنگ
دھندلا جاتا ہے یا غائب ہو جاتا ہے تو وہ اشارہ کر دیتا ہے۔ معالج کارڈ ہٹانے سے
لے کر مریض کو معاون رنگ نظر آنا بند ہونے تک کا وقت اسٹاپ واچ کی مدد سے نوٹ کر
لیتا ہے اور پہلے سے بنائے گئے ایک چارٹ میں اس رنگ کے سامنے اس وقت کا اندراج کر
لیتا ہے۔ اس طرح جامنی، آسمانی، نیلا، سبز، زرد، نارنجی، سرخ، گلابی، بھورا، سیاہ،
سنہرا وغیرہ جیسے رنگوں کے کارڈ مریض کو باری باری دکھا دکھا کر ان کی وجہ سے
ابھرنے والے معاون رنگوں کے نام اور ان کا دورانیہ نوٹ کر لیا جاتا ہے۔
جو رنگ جتنی زیادہ دیر تک
کسی معاون یا مخالف رنگ کو مریض کی نگاہوں کے سامنے ابھارتا ہے اس رنگ کی مریض کے
اندر اسی مناسبت سے کمی کا اظہار ہو جاتا ہے اور جو رنگ کسی معاون رنگ کو ابھارنے
کا سبب نہیں بنتا اس سے اس رنگ کی زیادتی پتہ چل جاتا ہے۔ اگر کسی رنگ کو مسلسل
ایک منٹ تک دیکھنے کے بعد اس کا معاون رنگ تیس سیکنڈ یا اس سے زیادہ عرصہ کے لئے
نگاہوں میں جھلملائے تو مریض میں اس رنگ کی کمی کا حکم صادر کر دیا جاتا ہے۔
رنگوں میں کمی بیشی معلوم
کرنے کے اس طریقے میں قباحت یہ ہے کہ جس وقت کارڈ دکھائے جا رہے ہیں مریض اس وقت
کس ذہنی اور جسمانی کیفیت سے دوچار ہے۔ اگر اس وقت مریض تھکا ہوا ہو تو جن رنگوں
کی کمی کا اظہار ہو گا وہ اس وقت کے حوالے سے تو درست ہو سکتے ہیں لیکن موڈ اور
مزاج کے بدلتے ہی اس کی طبیعت یکسر مختلف رنگوں کو پسند یا ناپسند کرنا شروع کر
دیتی ہے۔
اس لئے رنگوں کی کمی بیشی
معلوم کرنے کا سب سے بہترین طریقہ تو یہی ہے کہ معالج اپنی تشخیصی صلاحیتوں کو
اتنا ابھار لے کہ مریض کا جسم مثالی اس کی باطنی نگاہوں کے سامنے آ جائے اور وہ اس
کو دیکھ کر یہ بتا سکے کہ مریض میں کس کس رنگ کی کمی ہے۔
دوسرے نمبر پر یہ بات آ
جاتی ہے کہ معالج جسم میں رنگوں کے مراکز اور رنگوں کے خواص اور ان کی کمی بیشی سے
پیدا ہونے والی علامات کے علم کی مدد سے یہ تشخیص کر لے کہ مریض میں کون کونسے رنگ
کم ہو رہے ہیں یا کون سے رنگ زیادہ مقداروں میں ہیں اور ان کو کس طرح اعتدال پر
لایا جا سکتا ہے یعنی معالج اپنے علم اور تجربے کے زور پر یہ تشخیص کرے کہ مریض کو
کن رنگوں کی ضرورت ہے۔
بعض بیماریاں ایک سے
زیادہ رنگوں کے ٹوٹنے کے سبب لاحق ہوتی ہیں۔ مثلاً ذیابیطس۔ اس بیماری میں جگر اور
لبلبہ بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ کیونکہ یہ بیماری انہی اعضاء میں خرابی کے سبب پیدا
ہوتی ہے ایسی حالت میں جگر کی اصلاح کیلئے زرد، لبلبہ کیلئے جامنی اور چونکہ یہ
مرض ذہنی تنائو کے سبب ہوتا ہے اور ذہن ان اعضاء سے کام لینے میں کوتاہی کر رہا
ہوتا ہے اس لئے ساتھ میں نیلا رنگ بھی دیا جانا ضروری ہو جاتا ہے۔
مرض کی تشخیص اور علاج تجویز
کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مریض کی جسمانی اور جذباتی سطح کو پوری طرح سمجھا جائے۔
مرض کی تشخیص کیلئے معلوم ہونا چاہئے کہ جسم میں کس رنگ کی کمی واقع ہو گئی ہے تا
کہ ضروری رنگ کے استعمال سے اس مرض کو رفع کیا جا سکے۔ مریض کی عادات مزاج عمل اور
رد عمل کا علم ہونا بھی ضروری ہے۔
سرخ رنگ کی کمی واقع ہو
جانے سے مریض سست کاہل کمزور اور سویا سویا سا رہتا ہے۔ قبض کی شکایت بھی ہو جاتی
ہے۔ برخلاف اس کے جس شخص کے اندر نیلے رنگ کی کمی واقع ہو جائے وہ اضطراری کیفیت
سے دوچار رہتا ہے۔ بات بات پر غصہ کرتا ہے اور ہر کام میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتا
ہے۔
جسم میں سرخ اور نیلے رنگ
کی کمی بیشی کا اندازہ لگانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مریض کی آنکھوں کے ڈیلوں (Eye Balls) ناخنوں اور جلد کے رنگ کا
بغور مطالعہ کیا جائے۔ مثلاً اگر کسی مریض کو سرخ رنگ کی ضرورت ہے تو اس کی آنکھوں
کے ڈیلے اور ناخن نیلاہٹ مائل ہوں گے جلد کا رنگ بے رونق ہو گا آنکھوں کے نیچے
حلقے ہوں گے جب کہ جسم میں نیلی روشنی کی کمی کا اظہار آنکھوں کے ڈیلوں میں سرخی
ناخنوں میں تیز سرخی اور جلد میں سرخی سے ہو گا۔
اگر جسم میں سرخی یک لخت
اور بے تحاشا بڑھ جائے جیسا کہ سگ گزیدگی میں ہوتا ہے تو نیلا رنگ بار بار اور جلد
جلد استعمال کرنا چاہئے۔
بعض حالتوں میں ایسا لگتا
ہے کہ کوئی ایک رنگ جسم کے کسی خاص حصہ میں جمع ہو گیا ہے جیسے پھوڑا، پھنسی، آشوب
چشم، درد سر اور فالج وغیرہ لیکن درحقیقت وہ رنگ پورے جسم پر غالب ہوتا ہے۔ جسم کا
قدرتی نظام مدافعت اس کو کسی عضو یا حصہ پر ظاہر کر کے ہماری توجہ اس زیادتی کی
طرف مبذول کراتا ہے۔ ایسی صورت میں معالج کو چاہئے کہ یکسوئی کے ساتھ غور و فکر
کرے کہ مریض کو کس رنگ کی ضرورت ہے۔
آنکھوں کا رنگ کبھی کبھی
دھوکہ بھی دے دیتا ہے۔ جیسے آنکھوں کے سرخ ہونے میں سرخ رنگ کی کمی بھی ہو سکتی ہے
لیکن جب بقیہ دو چیزوں کا معائنہ کیا جائے تو صحیح صورتحال سامنے آ جائے گی۔
آنکھوں کا رنگ مختلف ہوتا ہے۔ گرم ممالک کے لوگوں میں سیاہ ہوتا ہے۔ سفید فام
اقوام میں ہلکا نیلا ہوتا ہے۔ چنانچہ ان تینوں چیزوں کا اکٹھا مطالعہ ہی صحیح
صورتحال کے تعین میں رہنمائی کر سکتا ہے۔ کبھی کبھی ناخنوں میں باریک یا موٹی
عمودی لکیریں ہوتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلغم زیادہ بن رہا ہے۔ ناخن کالے
ہونے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ خون میں سوداویت بڑھ گئی ہے۔ جسم میں اگر کسی ایک رنگ
کی زیادتی ہوئی ہو تو اس رنگ کو متوازن کرنے کیلئے ایسا رنگ استعمال کرنا چاہئے جو
اس رنگ کی زیادتی کو معتدل کر دے۔ ایسے رنگ کی پہچان کیسے ہو؟ کون سا رنگ کس رنگ
کو معتدل کرے گا؟
ان
سوالات کے جوابات الہامی کتابوں میں موجود ہیں۔
‘‘اور
ہم نے ہر چیز کو دو رخوں پر پیدا کیا۔’’ (القرآن)
اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد
کہ ہم نے ہر چیز کو دو رخوں پر پیدا کیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کی
تخلیق میں دو رخ کارفرما ہیں۔ مثلاً دن رات، مرد عورت، خوشی غم، روشنی اندھیرا،
سردی گرمی، بہارخزاں، سونا جاگنا غرض یہ کہ ہر تخلیق اس قانون کی پابند ہے۔ اس دو
رخوں میں کبھی ایک رخ غالب ہوتا ہے اور دوسرا مغلوب اور کبھی دوسرا غالب اور پہلا
مغلوب ہوتا ہے۔ رنگ اللہ کی تخلیق ہیں اور وہ بھی اسی قانون کے پابند ہیں۔
جس رنگ کو ہماری آنکھ
دیکھتی ہے وہ رنگ کا غالب رخ ہوتا ہے۔ رنگ کا دوسرا رخ غالب رخ کے پس پردہ ہے۔
مغلوب رخ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ غالب رخ کے اثرات کو معتدل کر دیتا ہے۔ اسی طرح
غالب رخ کی خاصیت یہ ہے کہ مغلوب رخ کے اثرات کو معتدل کر دیتا ہے۔
کسی رنگ کے مغلوب رخ کو
دیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس رنگ کو تھوڑی دیر کیلئے نظر جما کر دیکھیں اور پھر
فوراً کسی سفید یا خاکستری سطح کو دیکھیں۔ اس سطح پر مغلوب رخ نظر آ جاتا ہے۔
رنگ کے غالب اور مغلوب رخ
چونکہ ایک دوسرے کے اثرات کو معتدل بناتے ہیں اس لئے دونوں رخ ایک دوسرے کے معاون
رنگ کہلاتے ہیں۔
معالج کیلئے ضروری ہے کہ
وہ یہ بات دھیان سے نوٹ کرے کہ رنگوں میں کمی بیشی محض کسی ایک عضو میں ہوئی ہے یا
پورا جسم اس رنگ کی کمی بیشی کی زد میں ہے۔ جیسے جلنے کی صورت میں صرف جلی ہوئی
جگہ یا متاثرہ عضو میں ہی سرخ رنگ کی زیادتی ہوتی ہے لیکن خون کی کمی ہونے کی صورت
میں پورے جسمانی نظام میں سرخ رنگ کی کمی ہوتی ہے۔ یہ بات علاج کا مناسب طریقہ
اختیار کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
سرخ رنگ کا معاون رنگ ہرا
یعنی سبز، نارنجی کا نیلا، زرد کا بنفشی اور اس طرح سبز کا سرخ، نیلے کا نارنجی،
بنفشی کا پیلے رنگ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ جسم میں کسی رنگ کی زیادتی کو کنٹرول
کرنے کے لئے اس رنگ کا معاون رنگ دیا جانا چاہئے۔
ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی
روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔
(آمین)
خواجہ
شمس الدین عظیمی
مرکزی
مراقبہ ہال
کراچی