پتھر وں کی خاصیت اور روحانیت

پتھر وں کی خاصیت اور روحانیت

Faqeer ki Daak | October 2024

ادب و احترام کے ساتھ  السلام علیکم ورحمۃ اللہ،

بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ نے  غاروں اور  پہاڑوں میں جا کر عبادت  کی ۔  روحانیت کا پہاڑوں اور  غاروں سے کیا تعلق ہے؟  کیا ان مقامات پر روحانی   وائبریشن زیادہ ہوتی ہے جس سے   توجہ میں آسانی  ہوتی ہےیا پتھروں میں کوئی خاص بات ہے؟  تفصیل سے  جواب  کی درخواست ہے ۔

                                                                              آپ کی نیاز مند ۔۔۔  نور جہاں، نیویارک

بی بی نور جہاں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ،

یہ دنیا رشتوں پر قائم ہے۔ رشتے سے مراد ہے کہ ہر طر ف دو  طرح کی لہریں  ہوتی ہیں۔ دو لہروں کا مفہوم ہے کہ  زید  کی لہر بکر میں  اور بکر کی لہر زید میں  نہ ہو تو  تعارف  سوالیہ نشان ہے ۔ جتنی مخلوقات ہیں، چاہے   آدمی  ہو،  درخت ہوں، پرندے ہوں، پہاڑ ہوں، آسمان اور زمین ہوں، سب میں  مستقل تبادلۂ خیال  ہوتا ہے ۔ تبادلۂ خیال استقامت پرقائم ہے جس کو ہم پہچان کا ذریعہ کہتے ہیں۔  پہچان کا ذریعہ  منتقل نہ ہو تو  تعارف سوالیہ نشان ہے ۔مشاہدہ ہے کہ  تخلیقات  ایک دوسرے کو پہچانتی ہیں ۔

مثال :  بجلی کے تار میں ایک لاکھ  بلب لگے ہوئے ہیں۔ تار میں کرنٹ ہے، کرنٹ ایک رَو ہے۔یہ رَو مسلسل چلتی ہے، ٹوٹتی ہے، جڑتی ہے  پھر ٹوٹتی ہے  پھر جڑتی ہے ۔ یہ  نظامِ کائنات ہے۔

  ہر زندہ بشر یا دوسری  مخلوق کی زندگی  کا دارو مدار  سانس پر ہے ۔ اندرمیں سانس  آتا ہے  اور باہر میں  مظاہرہ ہوتا ہے۔ یہ ایسی مساوات ہے کہ   اس مساوات میں پوری کائنات، زمین کے اندر،  زمین کے اوپر ، پانی اور اس کے اندرتخلیقات، فضا اور فضا میں تخلیقات وائرس، بیکٹیریا  سب شامل ہیں۔

اللہ کی آخری کتاب قرآن  کریم  کی تعلیمات  میں غور و فکر کیا جائے تو  دو باتوں کا  ادراک ہوتا ہے ۔

۱۔   واحد ہستی اﷲ نے چاہا  کہ میں پہچانا جاؤں اس لئے کہ اﷲتعالیٰ  چھپا  ہوا خزانہ ہیں۔قرآن کریم اعلان کرتا ہے، ’’ھو الاول و الآخر و  الظاہر و الباطن ۔‘‘تخلیقات  ان چار صفات پرقائم ہیں۔

۲۔  تخلیقات کا وجود اللہ تبارک   و تعالیٰ کے ارادے  میں موجود ہے۔

 مفہوم یہ ہے کہ تمام مخلوقات  اﷲتعالیٰ کی صفات کا تعارف ہیں ۔قرآن کریم  میں ارشاد ہےکہ اﷲ ہر شے  پر محیط  ہے  یعنی کائنات اللہ کی  صفات  کا مظہر ہے۔

حدیثِ قدسی ہے،

’’میں چھپا ہوا خزانہ تھا ۔ میں نے محبت سے مخلوق کو تخلیق کیا تاکہ پہچانا جاؤں۔ ‘‘

پہچاننے کے لئے ضروری  ہے کہ مخلوقات   کے اندر حواس ہوں۔ حواس  کے لئے ضروری ہے کہ ایسا   وجود  ہو جو پیدا ہو ۔ پیدا ہونے کے بعد بتدریج مظاہرہ ہو ۔  وہم، خیال، تصور، مظاہرہ     چار مراحل  پر کائنات قائم  ہے  اور ایک ہستی کی حاکمیت ہے۔ زندگی کے شب  و روز،  شب و روز میں حرکات اورحرکات و  سکنات  میں اچھائی برائی، صحت، غم، خوشی اور غیب و شہود شامل ہیں۔ تخلیقات میں تفکر  ظاہرکرتا ہے کہ   ہر شے کی اصل اس کا وجود ہے جب کہ  وجود کی اصل بھی ضروری ہے۔

 وجود کی اصل وعلم  آدم الالسماء کلھا  یعنی اللہ کے اسماء  (اللہ کی صفات) ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تخلیقات  میں چار صفات  اہم ہیں ۔  مخلوق کا وجود  ، غیب ،  ظاہر  اور غیب ظاہر  صفات ۔  جب اﷲتعالیٰ  نے آدم کو اپنی نیابت عطا فرمائی تو قرآن کریم  شہادت فراہم کرتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کے مظاہرے کے لئے چار رخ  متعین فرمائے۔ اوّل، آخر، ظاہر، باطن۔ ہر مخلوق کی  زندگی کے چار متعین رخ ہیں۔ چاروں رخوں کو یکجا  کر کے بیان کیا جائے تو آدمی پیدا ہوتا ہے ، ٹکڑوں(فاصلوں)میں مظاہرہ  ہوتا ہے اور مظاہرے  کی تکمیل  یہ ہے کہ  ہرتخلیق  گھٹتی بڑھتی  ہے، ظاہر  ہوتی ہے  اور غیب میں منتقل ہوجاتی ہے۔  ہر مخلوق بولتی  ہے، کھاتی ہے،   پیتی ہے،  لڑکپن گزار کر جوان ہوتی ہے  اور جوانی بڑھاپے  میں  بند ہوجاتی ہے۔  جوانی کی تصویر اور بڑھاپے کی  تصویر  کو دیکھا جائے تو  ہر شے چھوٹی ہوتی ہے ،                       لڑکپن گزار کر جوان ہوتی ہے ، جوانی گزرنے  کے بعد جھریوں والے جسم کے ساتھ بوڑھی ہوتی ہے  اور جہاں سے آئی پھر و ہیں غائب ہو جاتی ہے ۔اس میں حشرات الارض، آدمی، جانور، زمین ، دنیا اور تمام مخلوقات  مشترک ہیں ۔ پہاڑ بھی مشترک ہیں۔ اللہ نے فرمایا، ’’کُن‘‘۔  اللہ تعالیٰ نے انسان کو جتنے علوم منتقل  کرنا پسند فرمائے ، ان کا  مظاہرہ ہوگیا ۔ مظاہرے  سے مراد   ہے کہ کائنات غیب کے پردے  میں تھی اور اﷲ تعالیٰ  کے حکم ’’کُن‘‘سے ظاہر ہوگئی ۔

——————————

 آپ نے پوچھا ہے کہ  روحانی  خواتین و حضرات تربیت  کے  لئے پہاڑوں کو مسکن کیوں بناتے ہیں ؟

پہاڑ ایک مخلوق ہے ۔آدمی  بھی  مخلوق ہے ۔ آدمی ایک منٹ میں 16 سانس لیتا ہے، پہاڑ بھی سانس لیتے ہیں۔ قرآن کریم  شاہد ہے  کہ جب  اﷲ تعالیٰ نے اپنی امانت  پیش کی تو آسمانوں اور  زمین  نے  معذرت کرلی  لیکن اظہار  پہاڑوں نے کیا  کہ اگر ہم نے اﷲ کی امانت  کو قبول کر لیا  تو ہم  ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ۔  کیا یہ عقل و فہم  کا  روشن پہلو نہیں ہے؟ 

آپ نے پوچھا ہے کہ روحانی  علوم  سیکھنے والے  طالبات و طلبہ  غاروں میں بیٹھ  کر یکسوئی  تلاش کرتے ہیں  اور مرشد  کی  ہدایت ( قرآن و  حدیث) پر عمل کرتے ہیں ۔ اس کی وجوہات پڑھیے۔

۱۔  پہاڑوں کے زون میں یکسوئی ہوتی ہے ۔ جب لوگ عارضی طور پر   پہاڑوں  میں بیٹھ  کر  عبادت اور مراقبہ  کرتے ہیں  تو دنیاکے ہجوم سے آزادی  مل جاتی ہے،  ذہن یکسو  ہو جاتا ہے  یعنی ذہن  دنیا سے  دور ہوجاتا ہے  اور یکسوئی کی بنیاد  پر شعور  پر لا شعور کا غلبہ ہوجاتا ہے۔  دنیا  illusionکے سوا  کچھ نہیں ہے۔ الوژن سے ذہن دور ہوکر reality  میں منتقل ہوجاتا ہے۔یکسوئی کے لئے ضروری ہے کہ تمام خیالات  اور  تصورات ایک نقطہ  پر مرکوز  ہوجائیں۔ مشقوں میں ادراک کا عمل دخل  یہ ہے   کہ   ذہن  یکسو ہو کر ختم ہونے والی دنیا سے  نہ ختم ہونے والے عالمین  میں منتقل  ہو جاتا  ہے۔

یہ جاننا  اہم ہے کہ پہاڑ پر مخلوقات کس طرح زندہ ہیں،  پیدا ہوتی ہیں ، جوان ہوتی ہیں،  قد آور ہوتی ہیں اور مرتی ہیں ؟  پہاڑوں میں عقل و شعور  ہے اس لئے انہوں نے کہا کہ  اگر  ہم  نے یہ امانت  اٹھالی  تو ہمارا وجود  ریزہ ریزہ ہو جائے گا ۔ انہیں امانت کا ادراک تھا۔ آدمی نے امانت قبول کرلی۔ اللہ تعالیٰ  فرماتے ہیں  کہ بے شک آدمی ظالم اور جاہل ہے ۔ تفکر طلب ہے  کہ   جاہل ہونا  اور اپنے اوپر  ظلم کرنا   ظاہر  کرتا ہے  کہ  آدمی نے  سوچے  سمجھے بغیر  امانت کو اپنے دوش  پر اٹھا لیا     فی الواقع  قدرنہیں کی۔

۲۔ پہاڑوں یا غاروں میں عبادت کی ایک وجہ کچھ وقت کے لئے دنیا سے الگ ہونا  ہے۔ دوسری وجہ پہاڑ کے  سانس کا معاملہ ہے۔ کائنات  کی ہر شے  سانس لیتی ہے ۔ سانس سے زندگی مظہر بنتی  ہے ۔ اپنے اندر میں سفر کے لئے سانس کی بہت اہمیت ہے۔ اس پر دسترس کے لئے مشقیں کروائی جاتی ہیں۔

ابدال ِ حق قلندر باباؒ فرماتے ہیں کہ پہاڑ  15منٹ میں ایک  سانس لیتا ہے۔ 

آدمی  کے سانس کا دورانیہ   =  فی منٹ اوسط   16 سانس    =   1/16

 پہاڑ کے سانس کا دورانیہ  15 منٹ میں ایک سانس   =  1/15

 سانس کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ عمر کا دارومدار سانس پر، سانس کا دارومدارطرزفکر پر اور طرزفکر کا دارومدار  ماحول پر ہے۔

۳۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ پہاڑوں میں خلا ہے  ۔آدمی کی نسبت پہاڑوں میں خلا بہت زیادہ ہے۔ خلا کاتعلق صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ عمر سے ہے اس لئے پہاڑوں کی عمر طویل ہوتی ہے۔ باطن میں آنکھ                                 دیکھتی ہے کہ پہاڑ دس ہزار سال تک جیتے ہیں، اس کے بعد پہاڑ پانی میں چھپ جاتے ہیں اور پانی کی                                           جگہ خشک زمین ظاہر ہوجاتی ہے۔ 

دعا گو،  عظیمی

 (26 اگست، 2024 ء)

 

 

 

 

 


More in Faqeer ki Daak