محترم و مکرم عظیمی
صاحب، السلام علیکم ورحمۃ
اللہ ،
روحانی علوم پر مبنی کتب کا مطالعہ کرتا
ہوں۔ ان میں یقین اور توکل کو بہت اہمیت
دی گئی ہے۔جاننا چاہتا ہوں کہ روحانی
قدروں میں اللہ تعالیٰ پر یقین اور تو کل کے کیا معانی ہیں ؟
نیاز مند، محمد اقبال قریشی ۔
ایبٹ آباد
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ،
سلوک کی راہ پر چلنے
کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی کھانا نہ کھائے ، پانی نہ پئے، کپڑے نہ پہنے، اس کے دوست احباب نہ ہوں
اور وہ بستی چھوڑ کر جنگل میں چلا جائے۔ دنیا کو وجود بخشنے والی ہستی اللہ، دنیا میں رونق دیکھنا چاہتا ہے اور اسے قائم
رکھنا چاہتا ہے اس لئے جب تک اسباب و
وسائل ہیں، دنیا موجود ہے اور وسائل کا
فائدہ مخلوقات کو پہنچتا رہا— پہنچتا رہے گا۔
روحانیت درس دیتی ہے کہ بندہ وسائل سے استفادہ کرے لیکن ہر کام اورعمل کا رخ اُس ذات کی طرف موڑ
دے جس نے دنیا بنائی ہے۔کھانا اس لئے کھائے کہ اللہ چاہتا ہے
کہ بندہ کھانا کھائے۔ پانی اس لئے پئے کہ
اللہ چاہتا ہے کہ بندہ پانی پئے تا کہ باغ
ِ دنیا اندر باہر شاد رہے۔ بچوں کی تربیت
ماں باپ کے ذمےّ ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ ماں باپ بچوں سے محبت کریں اور اس طرز پر تربیت کریں کہ انسانی
اقدار پھلے پھولیں، اللہ سے محبت کا احساس محیط ہو اور جب وہ سنِ بلوغت
کوپہنچیں تو ان کے اندر *Care
of Allah طرزِفکر
مستحکم ہوجائے ۔ آدمی اولاد سے پیار کرتا
ہے کہ یہ میری اولاد ہے، اس سے نسل چلے گی مگر اولاد کی محبت میں وہ راستہ اختیار
کرلیتا ہے جس سے سکون بے سکون ہوجاتا ہے۔ اللہ کے لئے اولاد سے محبت کی جائے تو یہ آپ کے لئے اور اولاد کے لئے فلاح ہے۔
روز مرہ زندگی میں اہم معاملہ
روزی اور رزق کا حصول ہے جس کے بغیر زندگی ایک قدم نہیں بڑھتی۔تجزیہ کیا
جائے تو زندگی مراحل اور زمانوں
سے مزین ہے۔اس کے قیام کا پہلا زمانہ بند کوٹھڑی ہے جس میں
بظاہر ہوا کا گزر ہے نہ آدمی کو اپنے
ارادے اور اختیار سے کھانے پینے کی چیزیں مہیا ہوتی ہیں اور نہ وہ
رزق کے لئے مشقت کرتا ہے لیکن— رزق ملتا ہے اور نشو و نما ہوتی
ہے۔
ماں کے پیٹ میں بچہ توازن کے ساتھ بڑھتا ہے۔ غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ نومہینے کے
بعد وہ بند کوٹھڑی سے باہر آتا ہے لیکن ضروریات خود
پوری کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔اس
کی نشو و نما کے لئے اللہ تعالیٰ ماں کے دل میں محبت ڈال دیتا ہے، ماں کے سینے کو بچے کے لئے دودھ کا چشمہ بنا
دیتا ہے اور بچہ جدو جہد کے بغیر غذا حاصل کرتا ہے۔ لڑکپن کے زمانے میں بھی روزی
کی فکر نہیں ہوتی ۔ پھر نوجوانی کا دور آتا ہے جس میں یہ انقلاب بر پا ہوتا ہے کہ
وہ سوچتا ہے — روزی حاصل کرنے کے لئے کچھ کرنا ہوگا۔اس تگ و دو
میں پچھلی زندگی کو فراموش کر دیتا ہے ۔
ذہن سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ میری جانب سے کسی جدوجہد کے بغیر اللہ
تعالیٰ نے رزق عطا کیا ہے۔
جوانی کے دور سے گزر کر وہ بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے۔
بڑھاپے میں اعضا اسی طرح ہو جاتے ہیں جس طرح بچپن میں تھے۔ وہ معاش کے قابل نہیں
رہتا لیکن جب تک اس کی زندگی ہے، اللہ تعالیٰ
رزق
فراہم کرتے ہیں۔ جوانی کے دور میں یہ سوچنا کہ رزق
ہماری محنت سے ملتا ہے،صحیح طرزِ فکرکے
خلاف ہے اس لئے کہ زندگی کا تین
چوتھائی حصہ بغیر محنت اور مزدوری کے گزرتا ہے۔ محنت، مزدوری اور کوشش اس لئے کی
جانی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کو ہر لمحہ اور ہرآن متحرک دیکھنا چاہتے ہیں۔
اللہ نے ماں کے دل میں محبت پیدا کر دی اور ماں کو رزق پہنچانے کا ذریعہ بنایا ہے،
اسی طرح زمین کو پابند کیا ہے کہ تمام
مخلوقات کو روزی فراہم کرے۔آپ بیج بوتے ہیں ۔ اگر زمین بیج کی نشو ونما کرنے سے
انکار کر دے تو دنیا ویران ہو جائے گی۔ کوئی چیز پیدا نہیں ہوگی تو تمام
حرکات اور گردشیں رک جائیں گی۔
اللہ نے چاند اور سورج کو خدمت گزاری کے
لئے مسخر اور پابند کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ زمین اگر اپنا ارادہ اور اختیار استعمال
کر کے گیہوں نہ اگائے، سورج اپنی روشنی یادھوپ سے گندم نہ پکائے تو روٹی کا تذکرہ سوالیہ نشان بن جائے
گا۔ زمین پرکوئی چیز نہیں اگے گی توہم
زندہ کیسے رہیں گے؟
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ رزق ذاتی محنت کی وجہ سے نہیں ملتا، یہ پہلے سے
موجود ہے۔ حرکت کے نظام کو متحرک رکھنے کے لئے محنت زیر بحث آتی ہے۔
طرز ِفکر کا ایک رخ یہ ہے کہ اگر میں نے محنت نہیں کی تو بھوکا مرجاؤں گا۔
دوسرا رخ یہ ہے کہ اللہ
تعالیٰ حرکت کو پسند فرماتے ہیں۔
کائنات بجائے
خود ایک حرکت ہے جو کُن سے شروع ہوئی ۔ توکل اوریقین راسخ ہونے سے طرزِفکر مستحکم
ہوتی ہے کہ میری ہرحرکت اورعمل اللہ کے
رحم و کرم پر قائم ہے۔ وہی روزی دیتا ہے، حفاظت کرتا ہے، زندہ رکھتا ہے، آفات اور
بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے اور وہی خوشی
دیتا ہے۔ یقین ٹوٹنے سے طرزِفکر ناقص ہوجاتی ہے۔ اللہ کے علاوہ دوسروں کو سہارا سمجھنے والی قو میں اور افراد زمین پر بوجھ
بن جاتے ہیں۔ زمین انہیں رد کر دیتی ہے۔
وہ مفلوک الحال ہوجاتے ہیں اور ان کے اوپر احساس ِ کمتری کاعذاب مسلط ہوجاتا ہے۔
انبیاء
کرام علیہم السلام کی طرز ِ زندگی کے
مطالعے سے ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے
ہر بات، ہرعمل اور ہر حرکت کو اللہ
کی طرف سے سمجھا اور اللہ سے رجوع کیا۔
دعا گو ، عظیمی