مجھے ایسے خواب نظر آتے ہیں جن کو نظر انداز
نہیں کرسکتا۔ کچھ یاد رہتے ہیں ، باقی
بھول کے خانے میں چلے جاتے ہیں۔ یاد رہنے والے خواب ظاہر ہوتے ہیں، غائب ہوتے ہیں
اور کچھ عرصے بعد دوبارہ دستک دیتے ہیں جیسے متوجہ کرنا چاہتےہوں۔ توجیہہ کی
درخواست ہے۔ شوکت ایڈیسن (کراچی)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ،
آپ کے سوالات میں نے سنے ۔ پہلے آپ خواب اور بیداری کو
سمجھئے ۔ زندگی دو رخوں پر قائم ہے۔ ظاہر
اور غیب —غیب اور ظاہر۔ شے کا
ظاہر ہونا اور ظاہر کا غیب ہونا
اور غیب پھرظاہر ہونا، یہ زندگی کا
نہایت مختصر فارمولا ہے ۔ خواب اور بیداری کا موازنہ کیا جاتا ہے تو خواب میں
دیکھےہوئے حالات و واقعات یعنی زمان و مکان
کی فلم دو طرح نظر آتی ہے۔ایک زمین کی اسکرین پر یعنی
ذہن کی بساط پر بتدریج
مظاہرہ ہونا اور دوسرا غیب
ہونا۔قرآن کریم میں ارشاد ہے ،
’’وہی اول ہے اور آخر ہے، ظاہر ہے اور باطن ہے اور اس
کا علم ہر شے پر محیط ہے۔ ‘‘ (الحدید: ۳)
۱۔ اول ۲۔ آخر ۳۔ ظاہر ۴۔ باطن
زیادہ واضح الفاظ میں اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ
ابتدا—انتہا—ظاہر اور غیب۔
ظاہراور باطن
دو جہتیں ہیں۔ ظاہر ہونا اُسی وقت ممکن ہے جب ظاہر
کا باطن ہو ۔ کسی چیز کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب اس کی انتہا موجود ہو ۔ جو چیز غائب ہے ، غائب نہ ہو تو اس کا مظاہرہ
نہیں ہوسکتا اور مظاہرہ اگر غیب
کے پردے میں نہ چھپے تو مظاہرہ اور غیب
ایسا مسئلہ بن جائے گا کہ شعور،
لاشعور کے تابع نہیں ہوگا
اور لا شعور کی حکمت و دانائی شعور
قبول نہیں کرے گا۔
اول —آخر —ظاہر —
باطن ۔ شے کی شہادت کا فارمولا ہے کہ وہ کہیں موجود ہو ۔ موجود شے
بساط پر ظاہر ہو ، ظاہر غیب میں چھپ جائے اور غیب
ظاہر میں منعکس ہوجائے ۔جب تک غیب
و شہود کو سمجھنے کے لئے غیب و شہود کی اپنی اپنی
صفات کو نہیں سمجھیں گے، ان جہتوں کو
بیان نہیں کر سکتے ۔
ہرتخلیق کے دو رخ ہیں
اور ہر رخ کے بھی دو رخ ہیں ۔ اول،
آخر، ظاہر، باطن۔ ماورائی علوم
کی الگ الگ شاخیں ہیں
لیکن ان چاروں کی یکجائی کے
بغیر زندگی، زندگی نہیں ہے۔
زندگی نہ ہو
توبندگی سوالیہ نشان ہے ۔
آپ اس تحریر
کا تجزیہ کیجئے ۔ شے کی ابتدا اور
انتہا اس وقت ممکن ہے جب ایک ہستی جو غیب الغیب میں غیب ہےاور ظاہر ہے، جو اول ہے
اور آخر ہے، اس کی راہ نمائی حاصل
ہو۔ راہ نمائی حاصل ہونے کا
مشاہداتی عمل آسمانی کتابیں اور آخری آسمانی کتاب قرآن کریم ہے۔
ہم زندہ ہیں
مگر زندگی کے دو رخ ہیں۔ ایک زندگی کا
تانا بانا الوژن اور دوسری زندگی کا تانا
بانا نور ہے—
اﷲ نور ہے آسمانوں اور زمین کا۔
خواب کو آدھی زندگی کہا جا تا ہے اس لئے
کہ بیداری کے اعمال و حرکات صرف
بیداری نہیں ہیں، بیداری میں جتنا عمل
ہے، خواب کی زندگی میں بھی اس کا
ظہور ہوتا ہے جیسے غسل واجب ہونا— غیب و شہود
کا مشاہدہ اس وقت ہوتا ہے جب شے
موجود ہو۔ شے کی موجودگی ہمیں اس طرف
متوجہ کرتی ہے کہ موجودگی دراصل یک ذات
اللہ کا علم ہے ۔
زندگی کے دو رخ متعین ہیں۔ ایک رخ کو ہم شہود کہتے ہیں
اور دوسرے رخ کو غیب سے تشبیہ دیتے ہیں۔ آپ نے خط میں ماضی کی ایک اسپیس میں سات
خوابوں کی نشاندہی کی ہے جو وقفے وقفے سے دیکھے۔ خواب کا پس منظر روحانی ہے۔ آ پ مذہبی اعتبار سے جس مذہب کےبھی پیروکار ہیں، خواب کا علم
آسمانی کتابوں اور آخری آسمانی
کتاب قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ بیان
ہوا ہے۔ راہ نمائی کی گئی ہے کہ روحانی صلاحیت موجود ہے اور اپنا مظاہرہ چاہتی
ہے لیکن ذہن بکھرا ہوا ہے۔ذہن کے دو رخ
ہیں ۔ ایک رخ صراط ِمستقیم ہے ۔ دوسرا رخ
اس کی الٹ الوژن اور وسوسے
ہیں۔
مشورہ: الوژن
اورحقیقت دونوں کے اوپر غور و
فکر کیجئے۔ ان کی تفصیل آسمانی کتابوں اور آخری کتاب قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔
مثال : حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں بادشاہ ِ مصر ریان بن ولید نے خواب دیکھا،
’’ایک روز بادشاہ نے کہا، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ
سات موٹی گائیں ہیں جن کوسات دبلی گائیں کھارہی ہیں۔ اور اناج کی سات بالیں ہری
ہیں اور دوسری سات سوکھی۔ اے اہل ِ دربار!
مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ ، اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو۔ ‘‘ (یوسف: ۴۳)
بادشاہ کو پریشان دیکھ کر قید سے رہا ہونے والے ساقی
کو حضرت یوسف ؑ کا خیال آیا ۔
حضرت یوسف ؑ نے تعبیر بتائی ،
’’سات برس تک تم مسلسل کھیتی باڑی کرو گے۔ اس دوران جو
فصلیں تم کاٹو، ان میں سے بس تھوڑا سا حصہ جو تمہاری خوراک کے کام آئے، نکالو اور
باقی کو اس کی بالوں میں رہنے دو۔ پھر سات برس بہت سخت آئیں گے۔ اس زمانے میں وہ سب غلہّ کھالیا جائے گا جوتم
اس وقت کے لئے جمع کرو گے۔اگر کچھ بچے گاتو بس وہی جو تم نے محفوظ کر رکھا
ہو۔‘‘ (یوسف: ۴۷۔۴۸)
عزیز بھائی
! پیغمبر حضرت یوسف ؑ کے خواب میں 14 سال
کا انکشاف اور شہود
ہے۔
پہلے انکشاف
ہے پھر اس کا مظاہرہ ہے ۔[1]
دعا گو ، عظیمی