عبدالقیوم عظیمی صاحب نے 1963ء میں ڈھاکا،
سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش سے ابدال ِ حق قلندر بابا اولیاؒ کی خدمت میں خط ارسال کیا۔ حضور بابا صاحبؒ کے
جواباً مکتوبِ گرامی میں خواب کی تعبیر سے منسلک حصہ ’’ماہنامہ قلندر
شعور‘‘کے قارئین کے لئے شائع کیا جارہا ہے۔
——————————————
برادر بجان برابر — السلام
علیکم ورحمۃ اللہ ،
ہم لوگ آپ کے لئے
دست بدعا ہیں۔ آپ کا مرسلہ منی آرڈر مبلغ پچاس روپے کا وصول ہوگیا۔ اطلاعاً عرض
ہے، میں نے (عظیمی صاحب)آپ کے دونوں خطوط نمبر 55 اور 56
مرشد کریم ابدال ِ حق حضور
قلندر بابا اولیاؒ کو پڑھ کر سنائے۔ حضرت نے جواب میں جو کچھ ارشاد فرمایا، من و عن
تحریر کر رہا ہوں۔آپ کےخوابوں کی تفصیل حسب ِ ذیل ہے۔
——————————————
کائنات میں ہر چیز
کی ذات ہے اور وہی حقیقی ہے، خواہ وہ ذرّے میں ہو یا انسان میں۔ اس کی دو طرزیں
ہیں۔ ایک طرز فکر محسوسیت کے دائرے میں عمل کرتی ہے اور دوسری ورائے محسوسیت میں
یا حقیقت میں عمل کرتی ہے۔ حقیقت میں جوعمل ہے، وہی فعال ہے۔ وہی تخلیق کرتا ہے۔
اس کی تخلیقات کس قدر ہیں، اس کی تفصیلات قرآن پاک میں جا بجا بیان ہوئی ہیں۔
جب قرآن پاک
پڑھیں تو تھوڑا سا پڑھیں اور بہت غور و فکر کے ساتھ پڑھیں یعنی زیادہ سے زیادہ وقت
لگا کر۔ ضروری ہے کہ قرآن پاک کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لئے عربی زبان کا
ادراک ہونا چاہئے۔ قرآن کریم میں زیادہ تر عربی کے الفاظ جو اردو میں بڑی حد تک مانوس
ہیں، آپ ان کی حدود میں اور ان کی گہرائی میں غور کرنے کی
عادت ڈالیں۔
اب محسوسیت
کا مسئلہ باقی رہا۔ یہ زوائد میں سے ہے۔اس کی تشریح مختصراً اس طرح کی جا سکتی ہے
کہ جس صلاحیت کو آپ develop
کرلیں اور جتنا کرلیں، اتنا کام کرتی ہے۔
جو شخص انجینئر ہونا چاہے، ہوجاتا ہے اور جس درجہ کا ہونا چاہے، ہوجاتا ہے۔
اگر بہت کوشش کرے تو بہت اچھا ہوجائے گا، نہیں تو معمولی فنکار رہ جائے گا۔ اس طرح
آدمی اپنی صلاحیتوں کی حقیقت اور مکمل کارکردگی سے بے خبر رہتا ہے۔ وہ اپنی ذات
کا کوئی جائزہ نہیں لے سکتا۔ یہ نہیں جان سکتا کہ اس کی ذات کہاں تک محیط ہے۔
یہ انسان کی سب سے بڑی محرومی ہے کہ اس نے محسوسیت کو medium بنا رکھا ہے۔ اس میں
کوئی حرج نہیں ہے کہ اسے استعمال کرے اور جتنا زیادہ چاہے استعمال کرے البتہ یہ
بہت بڑا سقم ہے کہ وہ اس پر ہی اپنی ذات کو منحصر کردے۔ جب ذات کو محسوسیت پرمنحصر
کردیا جائے گا تو ذات بالکل معطل ہوجائے گی اور انسان محسوسیت کے ہاتھوں کھلونا بن
جائے گا۔ اب محسوسیت کھلونے کو توڑ دے یا محفوظ رکھے، یہ اس کی مرضی ہے۔
فی الواقع غلامی کو ساری دنیا برا
سمجھتی ہے لیکن تمام نوعِ انسانی نے
محسوسیت کی غلامی کا طوق فخریہ اپنے گلے میں پہن رکھا ہے۔ خواب اور خیال سے فائدہ
نہ اٹھانے کا اصل سبب یہی ہے۔
بات یہ ہے کہ خواب ورائے محسوسیت سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اسے محسوسیت ناپسند
کرتی ہے اور جب یہ انسان کی زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح
بیداری کا عمل دخل ہوتا ہے تو محسوسیت ہر طرح کی رکاوٹ ڈالنے لگتی ہے اور ہر
دروازے میں دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے تاکہ ورائے محسوسیت عملی زندگی میں داخل نہ
ہوسکے۔ انسان محسوسیت کے ذریعے ہی کسی چیز کو دیکھتا ، سنتا ، سمجھتا ہے۔ چنانچہ
جب ورائے محسوسیت کے ذریعے کوئی چیز زندگی میں داخل ہونا چاہتی ہے تو محسوسیت اس
چیز کی صورت مسخ کردیتی ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ انسان اس کے قریب جانے کی بجائے اس
سے دور بھاگتا ہے اور وہ چیز common senseنہیں رہتی بلکہ proper sense بن جاتی ہے۔ کامن سینس کا مطلب یہ ہے کہ سب انسان اس کو دیکھیں ، چھوئیں اور
یکساں طریقے پرسمجھیں۔ اور پراپر سینس کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی اس کو دیکھ رہا
ہے ، سمجھ رہا ہے ، چھو رہا ہے اور دوسرا
شریک ِعمل نہیں ہے۔ یہاں سے ورائے محسوسیت کی قیمت ختم ہوگئی اس لئے کہ نوع
قیمت نہیں لگاتی، فرد قیمت لگاتا ہے۔ فرد
کا قیمت لگانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
اس کے علاوہ یہ بھی ہوا کہ فرد کی
نگاہ میں بھی محسوسیت نے ورائے محسوسیت کی شکلیں مسخ کرکے پیش کیں تاکہ وہ سمجھے
کہ یہ بات واقعاتی نہیں تھی، فضول تھی۔ اس پر اعتماد نہ کرے اور فائدہ نہ اٹھا
سکے۔ اندازہ لگایئے جو خواب انسان دیکھتا ہے اور جو خیال انسان کے ذہن میں آتا
ہے، وہ کس قدر مسخ اور کتنا بگڑا ہوا ہوتا
ہے۔
جس گم شدہ نوجوان کے بارے میں آپ نے معلوم کیا ہے، وہ یورپ میں ہے ، زندہ ہے
لیکن اس کے مالی حالات اچھے نہیں۔ غالباً وہ اگلے سال تک وطن واپس آجائے گا۔اس نے
گھر سے جس طرح کی لاتعلقی اختیار کرنا چاہی تھی، وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ یہی
اسباب اس کو وطن واپس لے آئیں گے۔ آپ اتنی ہی بات ان حضرات کو بتادیں۔
درجہ بدرجہ سب
کو سلام و دعا…….. قلندر حسن
اخریٰ محمد عظیم برخیاؔ
————————
مرشد کریم حسن اخریٰ محمدعظیم
برخیاؔ قلندر بابا اولیاا بدال ِ حق خیریت
سے ہیں اور آپ کے لئے دعا فرماتے ہیں۔
احمد شمس الدین
13 اکتوبر،
1963ء