محترم و مکرم
عظیمی صاحب —
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ،
آپ نے اکثر تحریروں میں رنگ کی جانب متوجہ کیا ہے اور نظام ِ تخلیق سے واقف
ہونے کے لئے رنگوں کے نظام کو سمجھنے پر
زور دیا ہے۔ گزارش ہے کہ جب تخلیق کا مادہ ایک ہے پھر رنگوں کا ظہور کیا ہے اور
کائنات کے نظام میں رنگ اور بے رنگی
کی حکمت کیا ہے؟
نیازمند،
روبینہ خالد (لندن )
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ،
رنگ و نور کے خالق اللہ تعالیٰ
کا قرآن کریم میں ارشاد ہے،
’’اور یہ جو
بہت سی رنگ برنگ کی چیزیں اس نے تمہارے لئے زمین میں پیدا کی ہیں، ان میں غوروفکر
کرنے والوں کے لئے نشانی ہے۔ ‘‘ (النحلّ : ۱۳)
ہم جب زمین پر موجود تخلیقات پرتفکر
کرتے ہیں توتخلیق کا عمل ظاہربین نظروں سے
ایک نظر آتا ہے۔ مثلاً درخت کی پیدائش پرغور کرتے ہیں
تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام درختوں کی
پیدائش کا لامتناہی سلسلہ ایک ہی طریقے پر قائم ہے۔ درخت چھوٹا ہو یا بڑا، تناور
ہو، ’’بیل‘‘یا جڑی بوٹی کی شکل میں، پھل دار ہو یا خاردار— پیدائش کا سلسلہ یہ ہے کہ زمین کے
اندر بیج بویا جاتا ہے، زمین اپنی کوکھ
میں بیج
کی نشو ونما کرتی ہے۔ نشو و
نما کے بعد درخت وجود میں آجاتا ہے۔
تفکر طلب ہے کہ پیدائش کا طریقہ ایک ہونے کے باوجود ہر درخت انفرادیت رکھتا
ہے اور درخت کی یہ انفرادیت نا مکمل نہیں ہوتی۔مثال: آم اور بادام کے درختوں کو
دیکھا جائے تو درخت کی حیثیت میں دونوں ایک ہیں، پیدائش کا طریقہ بھی ایک ہے، قد و
قامت بھی تقریباً ایک جیسی ہے لیکن آم کے
تنے اور بادام کے تنے میں فرق ہے— آم کے درخت کا
پھل اور بادام کے درخت کاپھل الگ الگ ہے۔
جب ہم پھولوں کی طرف توجہ کرتے ہیں تو پھول کا ہر پودا اور درخت انفرادی حیثیت رکھتا ہے، اس کے پتےّ
الگ الگ ہوتے ہیں، شاخیں بھی الگ ہوتی ہیں اور ان پودوں اور درختوں
میں سے جو پھول نکلتا ہے، وہ مختلف ہے۔
پھولوں کی بے شمار قسموں پر جب نظر جاتی ہے تو
حیرت ہوتی ہے کہ پھول میں اگر خوش بو ہے تو ہرپھول میں خوش بو الگ ہے۔ پھول
رنگین ہے اور ہر درخت کے پھول کا رنگ الگ
ہے۔ رنگ سازی کا یہ عالم ہے کہ کوئی پھول اس قدر سرخ ہوتا ہے کہ نوع
ِانسانی کے لئے ایسا سرخ رنگ بنانا آسان نہیں ۔ پھول کے رنگوں میں کہیں سفید، سبز، گلابی، اُودا اور کہیں داؤدی رنگ غالب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بے شمار رنگ زمین میں سے
پھوٹتے رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ زمین ایک ہے ، ہوا ایک ہے، سورج کی روشنی ایک ہے،
پانی ایک ہے، پیدائش کا طریق ِ کاربھی ایک ہے لیکن ہر شے ایک دوسرے سے صورتوں میں
مختلف ہے اور ہر شے کا مظاہرہ مختلف رنگوں
میں ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ہر پیدا ہونے والی
شے میں کسی نہ کسی رنگ کا غلبہ ہے۔ عالمین میں کوئی ایسی شے نہیں جو بے رنگ نظر
آتی ہو۔ یہ رنگ اور بے رنگ دراصل خالق اور
مخلوق کے درمیان ایک پردہ ہے۔ ارشاد ِ
باری تعالیٰ ہے،
’’کہو، اللہ کا رنگ اختیار کرو،
اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہے ؟ اورہم اسی کی بندگی کرنے والے
ہیں۔ ‘‘ (البقرۃ:
۱۳۸)
انسان کے اندر جب تخلیقی صفات کا مظاہرہ ہوتا ہے یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کے اندر
تخلیقی صلاحیتوں کا علم بیدار کر دیتے ہیں تو یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ تخلیق کا
مطلب ہے کہ کوئی
بے رنگ خیال جب رنگین ہوجاتا ہے تو تخلیق عمل میں آتی ہے۔
خالق ِ کائنات اللہ تعالیٰ نے جب کا ئنات کو ظاہر کرنا چاہا تو کائنات
سے متعلق جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ارادے میں موجود تھا اور ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”کنُ“اور ہر شے وجود میں آگئی ۔ ورائے بے رنگ سے نزول کر کے خیال نے ایک رنگ اختیار کیا جس کو
سمجھنے کے لئے روحانی سائنس نے بے رنگی
کا نام دیاہے —
ایسا رنگ جس
کو بیان نہیں کیا جا سکتا اور جس کی الفاظ میں تشریح نہیں کی جا سکتی۔ اس
بے رنگی میں حرکت پیدا ہوئی تو رنگین وجودتخلیق میں آ گیا۔ یہی وجود مختلف
صورتوں، رنگوں اور مختلف صلاحیتوں کے ساتھ مجسمّ اور متشکلّ ہوگیا۔ قانون ہے کہ کائنات کی تخلیق میں بنیادی عنصر یا
بنیادی مسالا رنگ ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد
ہے،
’’اور یہ جو
بہت سی رنگ برنگ کی چیزیں اس نے تمہارے لئے
زمین میں پیدا کی ہیں، ان میں غوروفکر کرنے والوں کے لئے نشانی ہے۔ ‘‘ (النحلّ
: ۱۳)
دعاگو ، عظیمی
ماہنامہ قلندر شعور(جولائی
2024ء)
………………………………………………………..