باعث عز ّو شرف عظیمی صاحب— السلام علیکم ورحمۃ اللہ ،
آپ کی تصانیف اور تحریریں پڑھی ہیں اور اپنی سکت کے مطابق ان سے مستفید ہوا
ہوں۔ ایک علمی سوال کے ساتھ خدمت میں حاضر ہوں۔عرض یہ ہے کہ نسبتِ یادداشت کیا ہے،
سالک کے لئے اس کی کیا اہمیت ہے اور یہ کہ روحانی تعلیمات میں یہ نسبت کیا کردار
ادا کرتی ہے؟
نیاز مند، (مولا نا) محمد ادریس نقشبندی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ،
اﷲتعالیٰ نے انسان کے نقطۂ ذات میں چار عالمین کو یک جا کیا ہے۔
ا۔ عالم ِنور ۲۔ عالم ِتحت الشعور یا عالم ِملائکہ مقربین
۳۔عالمِ امر
۴۔عالم ِخلق
عالم ِخلق سے مراد عالم ِناسوت ہے یعنی جس مادی دنیا میں ہم اور آپ رہتے ہیں،
اسے عالم ِ خلق بھی کہتے ہیں۔ عالم ِامر کی وضاحت اس طرح ہے کہ ہماری کائنات اجرام
ِسماوی، موالید ِثلاثہ (نباتات، جمادات اور حیوانات ) اور لاتعداد مخلوقات و
موجودات کا مجموعہ ہے ۔ یہ سب اللہ کے حکم ’’کنُ‘‘سے ظاہر ہوا ہے۔ خالق ِ کائنات
اللہ کا ارشاد ہے،
’’بے شک اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ شے کو ظاہر کرنے کا ارادہ کرتا ہے توحکم
دیتا ہے کہ ہو، وہ ہوجاتی ہے۔ ‘‘ (یسٰ ٓ: ۸۲)
کائنات کے تمام اجزا اور افراد میں رابطہ موجود ہے۔ مادی آنکھ اس ربط کو دیکھ
سکے یا نہ دیکھ سکے (جب کہ دیکھ سکتی ہے)، اسے ربط کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
جب ہم کسی چیز کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو اسے دیکھتے ہیں۔ مثلاً ہم ستارے کو دیکھتے
ہیں، چاند کو دیکھتے ہیں، پتھروں اور پہاڑوں کو دیکھتے ہیں حالاں کہ یہ تمام اشیا ہماری
نوع سے الگ ہیں، ہمیں ان چیزوں کو دیکھنے میں دقتّ نہیں ہوتی۔ ہم ان تمام اشیا کو
اسی طرح دیکھتے ہیں جیسے اپنی نوع کے کسی فرد کو ۔ یہ ایک عام بات ہے۔ ذہنِ انسانی
کبھی اس طرف متوجہ نہیں ہوتا کہ آخر ایسا کیوں ہے ....؟
روحانیت میں کسی شے کی وجہ تلاش کرنا ضروری ہے، خواہ وہ کتنے ہی ادنیٰ درجے کی
شے ہو۔
ہم جب کسی شے کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ہم اس کی صفات
ٹھیک طرح سمجھ لیتے ہیں۔ سمجھنے کا تعلق ذہن میں گہرائی سے ہے۔
دوسرے الفاظ میں اس کو زیادہ واضح طریقے پر اس طرح کہیں گے کہ شاہد (دیکھنے والا
) جس وقت کسی شے کو دیکھتا ہے تو وہ شے کے دیکھنے کو دیکھتا ہے۔ گویا دیکھنے والا
شے کے دیکھنے کو دیکھ کر شے کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ یہ عالم ِ امر کا قانون ہے۔
مثال کو پھر سمجھئے۔
ہم نے گلاب کے پھول کو دیکھا یعنی
گلاب کے دیکھنے کو دیکھا۔ گلاب پہلے سے موجود ہے۔ گلاب کا عکس اندر میں ظاہر
ہوا اور ہم نے اسے دیکھا۔ اس طرح گلاب کے پھول کی معرفت حاصل ہوئی۔
عالم ِخلق کا ہرفرد اپنے نقطۂ ذات کو دوسری شے کے نقطۂ ذات میں تبدیل کرنے
کی ازلی صلاحیت رکھتا ہے اورجتنی مرتبہ چاہے، شے کی معرفت حاصل کرسکتا ہے۔ اس
قانون کے تحت ہر انسان کا نقطۂ ذات پوری کائنات کی صفات کا اجتماع ہے۔
قانون کی روشنی میں جب روحانی علوم کا طالب علم اپنی توجہ اُس سمت کی طرف
مرکوز کرتا ہے جس سمت میں ازل کے انوار چھائے ہوئے ہیں اور ازل سے پہلے کے نقوش
موجود ہیں تو یہ نقوش اس کے قلب میں بار بار وارد ہوتے ہیں ۔ عارف کے مشاہدے میں
یہ بات آ جاتی ہے کہ کائنات کا ہر فرد،ہر ذرّہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی علوم کا
مظاہرہ ہے۔ کوئی کام ہو، کوئی عمل ہو، کوئی بھی شے ہو، عارف کواللہ کے صفاتی علوم
کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
رفتہ رفتہ یہ عمل غیر اختیاری اور اختیاری دونوں طرزوں میں سامنے آتا ہے اور
اس کے ذہن میں اللہ کی وحدت کا احساس غالب ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً آدمی اپنی انا، اپنی
مرضی، اختیار اورعقل و شعور سے دست بردار ہوجاتا ہے اور اس پر جذب طاری ہوجاتا ہے۔
یہ نسبت یا طرز فکر ”نسبتِ یادداشت“
کہلاتی ہے۔
حضرت خواجہ بہاءالحق نقشبندؒ نے اس
طرز فکر کو ’’نشان ِبے نشانی“ کا نام دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے احباب کو خوش رکھے اور کامیابی عطا فرمائے، آمین۔
دعا گو ، عظیمی