محترم عظیمی
صاحب—
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ،
میں
تبلیغ کے شعبے سے وابستہ ہوں ۔ تحریر و تقریر سے واسطہ رہتا ہے ۔ چاہتا ہوں
کہ جب
لوگوں کو رب العالمین اللہ تعالیٰ کی محبت کی جانب متوجہ کروں تو میری بات
ان کے دل میں داخل ہوجائے ۔ ہوتا یہ
ہےکہ آدمی کہتا
بہت کچھ ہے لیکن وہ جوکچھ کہتا ہے،
ضمیر ملامت کرتا ہے۔ کہنے والے کےعلم و عمل
میں کمی ہوگی تو سننے والے کے دل میں بات
کیسے اثر کرے گی۔ ہمارے پاس علم کی کمی
ہے اورعلم کی کمی سے ”کل
من عند ربنا*“جیسا یقین حاصل نہیں ہوتا ۔ گزارش ہے کہ تبلیغ کے
سلسلے میں اپنے تجربات کی روشنی میں مشورہ عنایت کیجئے۔
ایک قاری
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ،
عزیز محترم! بزرگوں کی توجہ، دعا اور نسبت سے، میں ناچیز بندہ سلوک کی راہوں کا ایک مسافر ہوں۔
عرض ہے کہ خالق ِ کائنات اللہ نے
بابا آدم ؑ کو زمین پر اپنی نیابت
عطا فرمائی تو فرشتوں نے کہا کہ یہ زمین
پر فساد پھیلائے گا ۔ یہ بتانے کے لئے کہ آدم کے اندر شر اور فساد کے ساتھ فلاح و خیر کا سمندر
موجزن ہے، اﷲتعالیٰ نے آدم ؑ سے فرمایا کہ
تخلیقی صفات (علم الاسما ء) بیان کرو۔ جب آدم ؑ نے تخلیقی صفات اورتخلیق
میں کام کرنے والے فارمولے (اسمائے الٰہیہ) بیان کئے تو فرشتے برملا پکار اٹھے،
”پاک اور مقدس ہے آپ کی ذات۔ ہم
کچھ نہیں جانتے مگر جس قدر علم آپ نے ہمیں بخش دیا ہے۔ بے شک و شبہ آپ کی ذات علیم و حکیم ہے۔“ (البقرۃ: ۳۲)
کائناتی پروگرام میں خیر اور شر دو
طرزیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ
مخلوق شر کو نظر انداز کرکے خیر
(صراط مستقیم) کا پرچار کرے۔ خود بھی خیر پر قائم رہے اور اپنے بھائی بہنوں کو بھی
دعوت دے ۔ یہ وہ دعوت ہے جس کے لئے پیغمبرانِ کرام علیہم السلام دنیا میں بھیجے گئے اور یہی دعوت تبلیغ ہے۔
”اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف
دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور
لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ تمہارا رب جانتا ہے کہ کون اس کی
راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ ِ راست
پر ہے۔‘‘ (النحلّ: ۱۲۵)
قرآن کریم
کی اس آیت سے ہمیں تین اصولی ہدایات ملتی ہیں۔
۱۔
شر سے محفوظ رہنے اور خیر کو اپنانے کے لئے دعوت حکمت سےدی جائے۔
۲۔ نصیحت ایسے انداز میں نہ کی جائے
جس سے دل آزاری ہوتی ہو ۔نصیحت کرتے وقت چہرہ بشاش ہو،آنکھوں میں محبت اور یگانگت
کی چمک ہو ۔ دل خلو ص سے معمور ہو ۔
۳۔
اگر کوئی بات سمجھاتے وقت بحث و مباحثے کا پہلو نکل آئے تو آواز میں کرختگی
نہ آنے دیجئے، تنقید ضروری ہو جائے تو
خیال رکھئے کہ تنقید تعمیری ہو، دل سوزی
اور اخلاص کی آئینہ دار ہو ۔سمجھانے کا
انداز ایسا دل نشیں ہو کہ اگر مخاطب کی طرف سے ضد اور ہٹ دھرمی کا اظہار ہونے لگے تو فوراً
اپنی زبان بند کر لیجئے کہ اس وقت یہی اس کے لئے خیر ہے ۔
دین کو پھیلانے کے ہمیشہ سے
دو طریقے رائج رہے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ مخاطب کی ذہنی صلاحیت کو
سامنے رکھ کر گفتگو کی جائے اور حسن
ِاخلاق سے اس کو اپنی طرف مائل کیا جائے ۔ اس کی ضروریات کا خیال
رکھا جائے، اس کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھ کر تدارک کیا جائے ۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تحریر و
تقریر سے اپنی بات دوسروں تک پہنچائی جائے۔
موجودہ دور تحریر و تقریر کا
دور ہے۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں۔ زمین کا پھیلاؤ ایک گلوب (globe) میں بند ہو گیا ہے۔ آواز کے نقطۂ نظر سے امریکا اور کراچی کا فاصلہ ایک کمرے سے بھی کم ہو گیا ہے۔ کراچی میں بیٹھ کر لندن اور امریکا کی سر زمین پر اپنا پیغام پہنچا
دینا روزمرہ کا معمول ہے۔یہ صورتِ حال تحریر کی ہے ۔ نشر و اشاعت کا ایک لامتناہی
سلسلہ ہے ۔ دور دراز کسی ملک میں
ٹائپ ہونے والی تحریر کراچی اور اسلام آباد میں اسی طرح پڑھی جاتی ہے
جیسے کراچی میں لکھی گئی ہو ۔
تحریر قاری کے اوپرایک تاثر چھوڑ دیتی ہے ۔ ایسا تاثر
جو ذہن کے اندر فکر و فہم کی تخم ریزی کرتا ہے اور پھر یہی فکر و فہم تنا ور درخت بن جاتی ہے ۔ تحریر اور تقریر میں
ہمیشہ اعتدال کا راستہ اختیار کیجئے۔ الفاظ کی نشست و برخاست ایسی ہوکہ سننے اور
پڑھنے وا لے کے اوپر امید اور تعلق ِ خاطر
کی کیفیت ہوجائے۔ خوف کو درمیان میں نہ
لایئے کہ خوف پر مبالغہ آمیز زور دینے سے
بندہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو سکتا
ہے اور اسے اپنی اصلا ح اور نجات مشکل اور محال نظر آنے لگتی ہے ۔
تحریر میں ایسے الفاظ لکھئے جن میں اللہ سے محبت کرنے کا تصور غالب ہو، خوف کی جگہ ادب و احترام ہو کہ پڑھنے
والا اللہ کی رحمت اور بخشش کو اس کے پورے ادب و احترام
کے ساتھ قبول کرے ۔
دین کی دعوت اور روحانی علوم کی
اشاعت کے لئے تھوڑا کام کیجئے لیکن مسلسل کیجئے۔
لوگوں کو روحانی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی دعوت دیجئے اور اس راہ میں
پیش آنے والی مشکلات ، تکالیف اور
آزمائشوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کیجئے
۔ خاتم النبیین حضرت محمد ؐ کا ارشاد ِ
گرامی ہے،
’’بہترین عمل وہ ہے جو
مسلسل کیا جاتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی تھوڑا
ہو ۔‘‘
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور کامیابی عطا فرمائے، آمین۔
دعا گو ، عظیمی
*کل من عند ربنا (ہر
شے اللہ کی طرف سے ہے۔)