بے اطمینانی اور عدم تحفظ کیفیت کیسے ختم ہو؟

بے اطمینانی اور عدم تحفظ کیفیت کیسے ختم ہو؟

Faqeer ki Daak | May 2024


محترم عظیمی  صاحب  السلام علیکم ورحمۃ اللہ  ،

  فرد  زندگی کو بہترین  بنانے کے لئے  کوشش  اور جدو جہد  کرتا ہے مگر دنیاوی آسائشیں میسر  ہونے کے  بعد بھی  بے اطمینانی اور عدم تحفظ  کے احساس میں مبتلا رہتا  ہے۔  یہ  کیفیت  کیسے  ختم  ہو؟ 

                                                                                             ندا   افراز (کراچی)

وعلیکم السلام  ورحمۃ اللہ ،

کائنات میں بے شمار نوعیں ہیں ۔ ہر نوع  اور نوع کا ہر فرد  نوعی اور انفرادی حیثیت میں لہروں کے ذریعے  ایک دوسرے سے  مسلسل اور پیہم ربط رکھتا ہے۔ یہ پیہم ربط افراد ِ کائنات  کے درمیان تعارف کا  سبب ہے۔ خیالات کی  یہ لہریں دراصل انفرادی  اور اجتماعی اطلاعات  ہیں جو ہر لمحہ  اور ہر آن کائنات  کے افراد کو زندگی سے  قریب  لاتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ  پوری  زندگی خیالات  کے دوش  پر سفر کرتی ہے  اور خیالات کی کار فرمائی  یقین اور شک پر قائم ہے ۔ یہی نقطۂ آغاز  مذہب کی بنیاد  ہے۔

آدمی  جو کچھ ہے، خود کو اس کے خلاف پیش کرتا ہے ،  کمزوریوں کو چھپاتا ہے  اور ان کی جگہ مفروضہ خوبیاں بیان کرتا ہے  جو اس کے اندر ناموجود ہیں۔وہ جس معاشرے میں تربیت پا کر جوان ہوتا ہے، وہ معاشرہ اس کا عقیدہ بن جاتا ہے۔  ذہن اس قابل نہیں رہتا کہ اس  کا تجزیہ کر سکےاور   عقیدہ یقین  بن جاتا ہے حالاں کہ  وہ محض فریب ہے۔  اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آدمی جو کچھ خود کو ظاہر کرتا ہے،  حقیقت میں وہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ہے۔اس قسم کی زندگی گزارنے میں اسے بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں،  ایسی مشکلات جن کا حل اس کے پاس نہیں ہے قدم قدم پر اسے خطرہ ہوتا ہے کہ اس کا عمل تلف ہوجائے گا اور بے نتیجہ ثابت ہوگا ۔یہ سب  ان دماغی خلیوں کی وجہ سے ہے جن میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ واقع ہو رہی ہے۔

 آدمی کی زندگی وہ نہیں ہے جسے وہ گزار رہا ہے یا جسے وہ پیش کر رہا ہے ۔  جب اس عمل سے وہ  حسب ِ دلخواہ نتائج مرتب کرنا چاہتا ہے تو دماغی خلیوں کی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ اور ردّو بدل قدم قدم پر   راستے  میں رکاوٹ بنتے ہیں، عمل  بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے،   نقصان پہنچتا ہے یا شبہات پیدا ہوتے ہیں   ۔

آدمی کے دماغ کی ساخت دراصل اس کے اختیار میں ہے۔ ساخت سے مراد دماغی خلیوں میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ ، اعتدال میں ٹوٹ پھوٹ یا کم ٹوٹ پھوٹ ہے۔  دماغی خلیوں کی شکست و ریخت  کم سے کم ہو تو آدمی شک سے محفوظ رہتا ہے۔ جس قدر  شک اور بے یقینی  کم ہوتی ہے،  زندگی کامیاب گزرتی ہے اور ان کی  زیادتی ہو تو  زندگی ناکامیوں میں بسر ہوتی ہے۔جب تک خیالات میں تذبذب (بے یقینی) رہتا ہے،  یقین میں پختگی نہیں آتی ۔ قانون ہے کہ مظاہر اپنے وجود کے لئے یقین کے پابند ہیں  ہر  خیال یقین کی روشنیاں حاصل کر کے مظہر بنتا ہے۔

 مذہب ہمیں یقین کے اس پیٹرن پر قائم کرتا ہے جہاں شکوک و شبہات اور وسو سے ختم ہو جاتے ہیں۔پھر  انسان  باطنی نگاہ سے غیب کی دنیا اور غیب میں فرشتوں کو دیکھ لیتا ہے۔  مشاہدات سے بندے کا اپنے رب اللہ کے ساتھ  ایسا تعلق قائم ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ  کی صفات کو  ہر طرف  محیط دیکھتا ہے۔

روحانی نقطۂ نگاہ سے اگر کسی بندے کے اندر باطنی نگاہ متحرک نہیں ہوتی،  وہ یقین کے دائرے  میں داخل نہیں ہوتا۔رب ِ کائنات  نے فرمایا ہے،

 ’’یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان* لائے ہیں۔ آپؐ  کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ ‘‘  (الحجرٰت: ۱۴)

 بندہ یقین  کے دائرے میں داخل ہوتا ہے تو   اس کی طرزفکر میں سے تخریب اور شیطنت نکل جاتی ہے اور  اگر  اس پر یقین ( غیب کی دنیا ) منکشف نہیں ہے تو  وہ  ہر وقت تخریب اور شیطنت کے جال میں گرفتار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بے شمار ایجادات اور  آرام و آسائش کے باوجود  آدمی  بے سکون، پریشان اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔

سائنس(دنیاوی علوم)  مادہ یعنی matter پر یقین رکھتی ہے اور مادہ  عارضی اورفکشن ہے اس لئے سائنس کی ہر ترقی ، ہر ایجاد اور آرام و آسائش کے تمام وسائل عارضی اور فنا ہوجانے والے ہیں ۔ جس شے کی بنیاد  ٹوٹ پھوٹ اور فنا ہو،  اس سے حقیقی مسرت حاصل نہیں ہو تی ۔

مذہب  تمام احساسات ، خیالات ،تصورات  اور زندگی کے اعمال و حرکات  کو  آسمانوں اور زمین کے خالق اللہ سے وابستہ کر دیتا ہے  جس کی وجہ سے  آدمی  پر سے بے سکونی اور عدم تحفظ  کے بادل چھٹ جاتے ہیں،  وہ پرُسکون زندگی گزارتا ہے، خوش رہتا ہے۔ اس کے خوش رہنے سے ماحول میں سکون اورمسرت  کی لہریں دَور کرتی    ہیں۔ قرآن  کریم میں ارشاد ہے،

’’جو لوگ علم میں راسخ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا  اس پر ایمان ہے کہ ہر شے اللہ کی طرف سےہے۔ ‘‘   (اٰل ِعمرٰن: ۷)

         دعا گو، عظیمی

——————————

* محترم اساتذہ کرام السلام علیکم،  اللہ کی رحمتیں  آپ پر محیط ہوں۔ درخواست ہے کہ ’’فقیر کی ڈاک‘‘ کا مطالعہ کرکے اس پر اپنی عالمانہ اور فاضلانہ رائے سے مطلع کیجئے۔  ادارہ ’’ماہنامہ قلندر شعور‘‘ آپ کا شکر گزار ہے۔    (ادارہ )

 

ماہنامہ قلندر شعور(مئی          2024ء)

……………………………………………………..

 


 


More in Faqeer ki Daak