پتنگا کون ہےاور میرا تعاقب کیوں کرتا ہے؟

پتنگا کون ہےاور میرا تعاقب کیوں کرتا ہے؟

Faqeer ki Daak | June 2024


محترم  و مکرم  عظیمی صاحب   السلام علیکم ورحمۃ اللہ ،

پندرہ برس  پہلے کی بات ہے۔  اسکول سے واپس آ کر دوپہر کا کھانا کھارہا تھا کہ شہد کی مکھی سے چھوٹی  جسامت کا پتنگا  میرے اور کھانے کے درمیان حائل ہوگیا۔ اڑانے  کی کوشش کی مگر ؟  دوسرے اور تیسرے روز بھی یہی ہوا غرضیکہ یہ معمول سات روز جاری رہا لیکن میں نے توجہ نہ دی۔ اس دوران دوسرے شہر جانا ہوا۔رات کو دیکھا کہ وہی پتنگا وہاں بھی میرے گرد منڈلا رہا ہے ، رنگ بھورا، پرَگہرے چاکلیٹی۔ اس قسم کے مافوق الفطرت واقعات میرے ساتھ رونما ہوتے رہے ہیں۔ ایک روز  شام کو بس میں سوار ڈیم سے آ رہا تھا، کھڑکی کے باہر  وہی پتنگا بس کے ساتھ پرواز کرتا ہوا نظر آیا۔

جب مسلسل یہ عمل ہوا تو ذہن نے اس کیفیت کو اہمیت دے دی۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ سردیوں میں کھڑکیاں اور روشن دان بند ہیں لیکن نہ جانے کہاں سے بھورا پتنگا  کمرے میں پرواز کرتا ہوا نظر آیا اور یکا یک غائب ہو گیا۔ جب دلچسپی لینا شروع کی وہ دو دو دن غائب رہنے لگا۔ اب  چاہتا ہوں کہ نظر  آئے کیوں کہ  دیکھے بغیر چین نہیں آتا۔ قابل ِغور ہے کہ 15سال کی طویل مدت گزرنے کے باوجود اس کا رنگ اور جسامت وہی ہے۔  وہ پتنگا کون ہےاور میرا تعاقب کیوں کرتا ہے؟

                                                                                                                                             نیاز مند،   کریم ۔ راولپنڈی

وعلیکم السلام ورحمۃا للہ،

قانون یہ ہے کہ جب کسی چیز کی شکل ہمارے سامنے آتی ہے تو وہ پہلے سے ہمارے ذہن میں ہوتی ہے۔ خالقِ کائنات اللہ نے آدم کا پتلامٹی سے بنایا ہے اور اس کے اندر اپنی روح پھونکی ہے۔

’’جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا، میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ پھر جب میں اسے پوری طرح  بنادوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گرجاؤ۔‘‘  (صٓ:  ۷۱۔۷۲)

اس قانون کے تحت تخلیق کے دو شعبے قائم ہوئے ۔ایک اعلیٰ یعنی روح ، دوسرا ادنیٰ یعنی مٹی۔ 

ا للہ تعالیٰ نے آدم کو تخلیق کرنے کے  بعد  فرمایا،

 ’’اے آدم! تم اور تمہاری زوج جنت میں رہو اورکھاؤ پیو جہاں سے چاہو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا۔ ‘‘  (البقرۃ: ۳۵)

 تفکر سرگوشی کرتا ہے کہ جیسے ہی جنت میں نافرمانی ہوئی، آدم و حوا نے محسوس کیا کہ جسم پر لباس نہیں ہے۔ معانی یہ ہوئے کہ جنت میں انسانی اوصاف اعلیٰ تھے اورجسم کے اوصاف بھی اعلیٰ تھے لیکن جیسے ہی نافرمانی ہوئی، ان کی روح تو اعلیٰ مقام پر رہی لیکن جسم  کا اعلیٰ سے اسفل میں مظاہرہ ہوگیا۔ اگرچہ اعلیٰ  (روح) ، اسفل (جسم) کے ساتھ رہا پھر بھی اعلیٰ، اعلیٰ رہا اور اسفل، اسفل ہوگیا اور اسفل سے غلطیاں سرزد ہونا لازم قرار پایا یعنی اعلیٰ اور اسفل الگ الگ ہوگئے۔

 خالق ِ کائنات اللہ  نے  ایک اور مقام پر فرشتوں کو مخاطب کر کے فرمایا،

’’ جو میں جانتا ہوں، وہ  تم نہیں جانتے ۔‘‘   (البقرۃ:   ۳۰)

 یہ وہ موقع تھا جب فرشتوں نے اعتراض کیا تھا کہ آدم فساد اور خون ریزی کرے گا۔ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم غلط کہتے ہو بلکہ یہ فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔

 جنت میں آدم سے ہونے والی نافرمانی کے بعد روح ماورا رہی اور جسم زمین کی کشش میں مبتلا ہوگیا۔ زمین کیکشش میں مبتلا ہونے سے اس کا کرداربھی مختلف ہو گیا۔ روح اورجسم جب الگ الگ نہیں تھے تو جسم روح کا عکس صحیح حدود میں قبول کرتا تھا۔ نافرمانی کے بعدجسم روح کی اطلاعات کے معانی پہنانے میں غلطی کرنے لگا یعنی روح اورجسم دونوں کا کردار الگ الگ ہو گیا۔

 روح کے اندر لاشمار اوصاف ہیں۔ مثلاً روح لکڑی کی میز کو دیکھتی ہے۔ میز کا تصور روح میں موجود رہتا ہے لیکن جب کوئی میز روح کے سامنے آتی ہے تو میز کا وصف روح کے سامنے ہوتا ہے۔ فی الواقع وہ میز نہیں ہوتی جس کو ہاتھ چھوتے ہیں۔   یہ دو رخ ہوئے۔

 *  ایک وہ میز ہے جس کا ریکارڈ مستقلاً روح کے اندر  ہے۔

*ایک وہ میز ہے جو  باہر نظر آتی ہے۔

   میز کو آگ لگا دیں تو لکڑی کی میز راکھ ہو جائے گی لیکن روح   کا ریکارڈ قائم  رہتا  ہے۔

آپ کی طبیعت میں  پتنگے کو دیکھ کر خاص کیفیت پیدا ہوگئی۔ اس  کاعکس اندر میں محفوظ ہوا۔ اندر نے اسے قبول کرکے اپنا جزو بنالیا۔ ظاہر ہے جو چیز اندر میں ہے، وہ آنکھوں کے سامنے ضرور آتی ہے، چاہے وہ ہر وقت آتی رہے یا کسی خاص وقت میں آئے ۔ چناں چہ 15سال تک آنکھوں کے سامنے روح میں محفوظ  عکس آتا رہا ۔  آپ  نے چاہا کہ   پتنگے کو پکڑ لیں تو پکڑ نہیں سکتے تھے اس لئے کہ جو کچھ آپ دیکھ رہے تھے، اس کی مادی حیثیت نہیں تھی ۔اگر اس کو مارنا چاہتے تو ماربھی نہیں سکتے تھے اس لئے کہ اس کا تحفظ روح کر رہی تھی ۔

 یہ واقعہ صرف آپ کے ساتھ پیش نہیں آیا، لاکھوں میں چند آدمیوں کے ساتھ پیش آتا  ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کا ذہن اس پتنگے کو تلاش نہیں کرتا بلکہ اندر میں پتنگے کا عکس جذب ہوچکا ہے، اسے تلاش کرتا ہے۔ اس طرف سے بتدریج ذہن ہٹا لیا جائے تو پتنگا نظرنہیں آئے گا۔ اس کا سہل طریقہ یہ ہے کہ  فجر کی نماز کے بعد اور رات کو سونے سے پہلے  نیلی روشنی کا مراقبہ کریں۔

        دعاگو ۔ عظیمی

 ماہنامہ قلندر شعور(جون                       2024ء)

……………………………………………………..


 


More in Faqeer ki Daak