وسوسے

وسوسے

Faqeer ki Daak | September 2024

قابل ِ احترام  عظیمی  صاحب  السلام علیکم ورحمۃ اللہ  ،

کچھ عرصہ قبل میری زندگی میں ایک حادثہ پیش آیا جس سے بے حد تکلیف پہنچی  اور میں اس کے اثر سے نہیں نکل سکی۔ مراقبہ میں یکسوئی ہوجاتی تھی، اب کوشش کے باوجود نہیں ہوتی اور آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔ وجود سنُ ہوجاتا ہے۔   اداسی کے خول کو توڑنے کے لئےنعمتیں شمارکیں جو اللہ نے مجھے عطا کی ہیں۔ بلاشبہ نعمتیں زیادہ ہیں اور  لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے  لیکن تکلیف   کا اثر مجھ پر غالب  آگیا۔ وسوسے تنگ کرتے ہیں تو  یکسوہونے  کی  کوشش کرتی ہوں۔     آپ  سے راہ نمائی کی درخواست ہے۔           چیتالی پربھو  (دبئی )

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ بہت پیاری بیٹی ،

آپ  کے خط میں  لکھی ہوئی تحریر  میں ایسی باتیں  ہیں جن کو ذہن  نے چھپایا ہے لیکن کچھ نہ کچھ اندازہ ہو گیا کہ آپ ذہنی  طور پر پریشان تھیں  اور الحمدللہ    اب اس کا اثر تقریباً  ختم ہوگیا ہے ۔جو باتیں   آپ کو لکھ رہا ہوں ، ان کو صرف  پڑھئے نہیں،  اندر میں محفوظ کر لیجئے تاکہ عملا ً  مظاہرہ ہو۔

 اﷲتعالیٰ  آپ کو خوش  رکھے ، آمین ۔

پیاری بیٹی ، یہ دنیا جیل خانہ  ہے  بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ  جیل خانہ نہیں،  پاگل خانہ ہے ۔ہم  سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز   مستقل ہے۔ آدمی خودبھی  زندگی کومستقل سمجھتا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے ۔یہ دنیا ایک ورق ہے۔ ورق کے دو رخ  ہیں،   دو صفحےہیں ۔ ایک ورق پر جو  کچھ لکھا ہے،  وہ عارضی ، غیرمستقل اور فکشن ہے ۔دوسرے ورق کی تحریر فکشن نہیں ہے۔ زمین پر رہنے والا مرد یا عورت  دنیا کے سفرکو مستقل سمجھتے ہیں۔ یہ ایسی بڑی بھول ہے کہ جس کو سات سمندروں  کےپانی  سے دھویا  جائے  تو نقوش  دھل کر بھی باقی رہتے ہیں ۔

غور کیجئے،  ایک دن کا بچہ  جب دنیا میں داخل ہوا تو  سوالیہ نشان   ہے کہ آیا کہاں سے؟ 

ایک دن کا بچہ دو دن کا ہوا  پھر سوالیہ نشان  ہے کہ پہلا دن کہاں غائب ہو گیا؟

ایک دن کا بچہ جب دس دن کا ہوا         تو        نو        (۹) دن کہاں غائب ہو گئے ؟

پیاری بیٹی !  سوال ہے کہ  جب ایک دن  چھپ جاتا ہے  تو ہمیں نظر  نہیں آتا ۔ دوسرا  دن نظر آتا ہے  لیکن  وہ بھی غائب ہوجاتا ہے۔ اس طرح سمجھیں   کہ پہلا دن  اگر مرتا ہے تو دوسرا دن جیتاہے ۔  دوسرا دن  مرتا ہے  تو تیسرا دن  جیتا ہے ۔ ایک دن غائب  ہونے کو ہم عمر کا بڑھنا   کہتے ہیں۔   دس دن  کی عمر  میں جب  پانچ  دن مر گئے یعنی غائب   ہو گئے  تو عمر کا  تعین  سوالیہ نشان  بن گیا ۔

 اس بات کو پھر سمجھئے ۔

 آدمی پیدا ہوتا ہے۔  ظاہر غیب  زندگی بنتی ہے۔  نتیجہ کیا ہوتا ہے  ؟بالآخر زندگی غیب   ہوجاتی ہے  یعنی فردغیب سے ظاہر ہوا  اور  ظاہر  غیب ہوتے ہوتے  آخر کار  غیب میں چھپ گیا یہ عمل  انتقال ِ  مکانی  ہے ۔  ہم  پیدا ہوتے ہیں  اور دنیا میں آتے ہیں۔کیا ہم وہاں مرکر دوبارہ یہاں زندہ نہیں ہوتے ؟  انتقال کا  یہ سلسلہ   بھی  ہماری  زندگی  نہیں بنتا  اور     بالآخر   ہم عالم ِ غیب میں غیب  ہوجاتے ہیں۔

 آپ کسی بات پر رنجیدہ ہو ئیں ۔ آپ کو تکلیف پہنچی۔  تکلیف کیا ہے؟  میں آپ سے پوچھتا ہوں  کہ تکلیف کیا ہے ؟    دوسرا سوال ہے  کہ راحت کیا ہے؟  کیا راحت مستقل کیفیت ہے؟ رنجیدہ ہونا مستقل کیفیت ہے؟ ایک آدمی سفر میں ہے۔ سفر کیا ہے؟

  سفر یہ ہے کہ زمین  کی رفتار  کو محسوس نہ کرنا جب  کہ رفتار محسوس ہوتی ہے ۔ہم ایک قدم اٹھاتے ہیں ، دوسرا  قدم  زمین پر رکھتے ہیں ۔ دوسرا  قدم اٹھاتے ہیں تو تیسرا قدم زمین پر رکھتے ہیں۔ ایک قدم  جب دوسرے  قدم میں منتقل  ہوتا ہے تو    یہ غیب  اور ظاہر ہے۔ یہاں جو کچھ ہورہا ہے،  وہ غیب اور ظاہر ہے ۔ اگر 16,17سال  کے دن رات اور ماہ و سال کو شمار کیا جائے  تو  جب تک  16سال غیب  کے پردے  میں نہیں  چھپتے ، آدمی جوان نہیں ہوتا ۔ آپ کو جس بات   کا  رنج ہوا،  تھوڑی دیر بعد وہ  خوشی  بن گئی اور خوشی  تھوڑی دیر بعد رنج  میں بدل جاتی ہے ۔   زندگی ایک کھیل ہے ۔ نہیں معلوم  کہ ہم کہاں سے آتے ہیں ۔ معلوم نہیں  کہ  ہمارا ایک دن کہاں غائب ہو جاتا ہے۔ہم دو دن  کے ہوتے ہیں تو تیسرا دن ظاہر   ہوجاتا ہے۔ یہ میں پہلے بھی  لکھ چکا ہوں ۔

 آپ کو جن باتوں سے تکلیف ہوئی،  ان کو خوشی  میں تبدیل کریں ۔ خوشی اورغم   کی حیثیت ہوا کے جھونکے  کی ہے ۔ کبھی ہوا  گرم  لُو اورکبھی ٹھنڈی  اور پرُسکون بن جاتی ہے ۔ اس دنیا میں پریشانی مستقل نہیں ہے تو خوشی بھی مستقل نہیں ہے ۔

 آخر ی بات  جو لکھ رہا ہوں ،اس کوصرف پڑھئے نہیں، دماغ  کی اسکرین  پرلکھ  لیجئے ۔پھرکہتا ہوں ،   اس کو صرف پڑھئے نہیں، دماغ کی اسکرین پر لکھ لیجئے۔آپ  ذرا سوچئے  کہ میں  کیا کہنا چاہتا ہوں ۔

آپ کی سمجھ میں کچھ آیا ؟  میرا  خیال ہے کہ تصویر     پوری  واضح نہیں ہوئی۔

 غور کیجئے ایک خیال آتا ہے، ہم خوش ہوتے ہیں۔  کچھ دیر بعد دوسرا خیال  آتا ہے،ہم رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔   ان دونوں خیالات کو یکجا کرتے ہیں تو  خوشی  اور پریشانی  ایک نقطے میں جمع ہوکر غائب ہوجاتی ہے ۔ یہاں خوشی ہے نہ غم ہے       سب الوژن ہے ۔

؎ہر خوشی  اک وقفۂ تیاریِ   سامان ِغم     ہر سکوں مہلت  برائے امتحان  و اضطراب

اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔  اماں کو بہت دعا۔ اپنے ابا کو سلام۔

 دادی ماں اور دادا جی  کو  بہت سلام اور دعا کی درخواست ۔  [1]

 دعاگو ، عظیمی  (17 جولائی   2024ء )


 



[1] ماہنامہ قلندر شعور۔ ستمبر۔2024


More in Faqeer ki Daak