ابا آدم —اماں حوا کے بچو
السلام علیکم دوست بہن بھائیو ،
آپ
سے عمر میں بڑا ہوں لیکن عمر محض گنتی ہے — ایسی گنتی جس کا حساب آدمی نے لکیروں سے رکھا ہے ۔ لکیریں زیادہ ہوں تو گنتی بڑھتی ہے،
لکیریں کم ہوں تو گنتی گھٹ جاتی ہے ۔ اسی
طرح جسم پر لکیریں کم
ہوں تو آدمی بچہ کہلاتا ہے ، لکیریں
گہری ہوں تو خود کو بوڑھا سمجھتا ہے جب کہ وہ بوڑھا ہے نہ بچہ ۔
آپ
کہیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی ؟ جی ہاں ، آدمی بوڑھا نہیں ہوتا ، جسم
جوان —
بوڑھا ہوتا ہے ۔
***
بچہ
اس دنیا میں پیدا ہوا ۔ دادی نے نام ’زید ‘ رکھا ۔من موہنی صورت زید سب
کی آنکھوں کا تارا بن گیا ۔زید کو
پھر ایک سال بعد دیکھا
تو وہ کافی بدل چکا تھا ۔ پھراسے پندرہ
سال بعد دیکھا
تو یقین نہ آیا کہ
یہ وہی ننھا زید ہے جو خود سے کروٹ بھی نہیں بدل سکتا تھا ۔اس کی شکل و صورت ، قد کاٹھ اور آواز بدل گئی
لیکن اس کا نام نہیں بدلا
۔ جوانی کے بعد بڑھاپے میں قدم رکھا تو زید کے سیاہ بال
چاندی بن گئے ، منہ
پوپلا ہوگیا ، چہرے پر جھرّیاں نمودار ہوگئیں ، بڑی بڑی آنکھیں چھوٹی نظر آنے
لگیں ، کمر جھک گئی، گھٹنوں میں وہ جان نہیں رہی
جو جوانی میں تھی — سب بدل گیا لیکن عجیب
بات
یہ ہے کہ نام
نہیں بدلا ۔
***
جب
بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو اس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ گھر میں بڑے اس کا نام رکھتے
ہیں اور پھر سب بچے کو اس نام سے
پکارتے ہیں۔ اماں ابا ، نانا نانی، دادا دادی سے پوچھئے
کہ جب آپ اس دنیا میں آئے تھے، اس وقت کیا آپ کا کوئی نام تھا ؟
بہن بھائی دوستو — ہم کسی کے
دئیے ہوئے نام کو قبول کرکے فخر سے بتاتے ہیں کہ میرا نام یہ ہے۔ بتائیے
کہ جو نام کسی اور نے دیا ہے، کیا
وہ ہماری پہچان ہوسکتا ہے؟ ہماری
پہچان کیا ہے؟ نام رکھنے سےپہلے ہم
کون تھے اور
نام رکھنے کے بعد ہم کون ہیں
؟ محترم اساتذہ کرام اور
گھر میں بڑوں
سے پوچھیں کہ وہ
بچہ جو خود سے کروٹ نہیں بدل سکتاتھا،
وہ کہاں ہے؟ بچے
کا چہرہ، نقوش،
قد اور آواز بدل گئی ،
ایک فٹ سے چھ
فٹ کا جوان بن گیا مگر اتنا بدلنے کے
باوجود نام کیوں
تبدیل نہیں ہوا ؟
پیارے
بہن بھائیو — دنیا گورکھ دھندا
*ہے۔ یہاں آدمی خود کو زید، حامد اور بکرسمجھ
لیتا ہے اور سوچتا نہیں ہے کہ
نام رکھنے سے
پہلے وہ زید ، حامد اور بکرنہیں تھا۔ وہ
کون تھا ؟
اللہ حافظ
|
آپ کا دوست