عزیز بہن بھائیو۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم۔
پیارے بچو۔۔۔۔۔ دنیا میں جتنی مخلوقات ہیں،
جن کو ہم دیکھ سکتے ہیں وہ سب آپس میں باتیں کرتی ہیں، سوتی جاگتی ہیں اور اپنے
ننھے منے بچوں کی پرورش کرتی ہیں۔ پرندے اپنے بچوں کو اڑنے اور کھانے پینے کے آداب
سکھاتے ہیں۔ انہیں سردی گرمی بھی لگتی ہے ۔جب پرندے گھونسلے بناتے ہیں تو گھونسلوں
کے اندر گرمی سردی سے بچنے کے لئے گھاس پھونس کا بستر بچھاتے ہیں۔
ذہین بچو، آدمی۔ ۔۔۔۔ حیوان ہے۔ ہر طرف
سے توجہ ہٹا کرر سوچئے کہ آدمی اور زمین
پر اس کی پوری برادری بچوں کی طرح ہے۔ دوسرے حیوانات چو پائے، گائے، ہرن اور تیسری
مخلوق ہوائی جہاز کی طرح اڑنے والے لا شمار پرندے ہیں۔ ۔۔ کوئل کی کوک ،بلبل کی
موسیقی۔ چڑیوں کے جھرمٹ میں مخمور کرنے والی آواز چوں چوں چوں،طوطے میاں سبحان اللہ کہتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں
کہ ’’مٹھو میاں، چوری کھائے گا۔‘‘
یہ بات بہت زیادہ سوچنے سمجھنے اور غور
کرنے کی ہے کہ ہر مخلوق جس کو ہم دیکھتے ہیں یا نہیں دیکھتے، خوش ہوتی ہے، بولتی
ہے، رنجیدہ ہوتی ہے، پیدا ہوتی ہے ،جیتی مرتی ہے آدمی پیدا ہوتا ہے ،بچپن سے لڑکپن
اور لڑکپن سے گزر کر جوان ہوتا ہے، جوانی بڑھاپے میں چھپ جاتی ہے اور بڑھاپا۔۔۔
مضبوط ،خوبصورت، سڈول جسم کو جھریوں میں تبدیل کر دیتا ہے یعنی پیدائش کا پہلا دن۔
۔۔ جب دنیا میں عمر کا آخری دن ہوتا ہے تو آدمی جہاں سے آیا تھا وہاں منتقل ہو
جاتا ہے۔
عقل مند، ذہین اور دانہ بچو۔۔۔ آپ کے
اندر دماغ میں شعاعیں دور کرتی رہتی ہیں۔ اماں ابا اور اساتذہ بچوں کی تربیت کرتے
ہیں تو ان کے دماغ کے اندر علم دنیا اور علم روحانیت بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ ماں
باپ جو کچھ بولتے ہیں یا ماحول میں کلام کیا جاتا ہے، بچے سن کر نقل کرتے ہیں۔
دماغ میں اسپیس ہے۔ اسپیس پر تحریر ہے۔
جب ہم بولتے ہیں تو بولنے کے ساتھ حروف ظاہر ہوتے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتے اور وہ
لفظ دماغ کی اسکرین پر پرنٹ ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح ہم آج کی سائنسی دور
میں ٹی وی پر تحریریں اور مناظر دیکھتے ہیں۔
ہونہار بچو آئیے۔۔۔ مشق کرتے ہیں۔ آلتی پالتی
مار کر بیٹھ جائیے۔ اس بات کا خیال رکھئے کہ کمر سیدھی ہو۔۔۔۔ گردن اکڑی ہوئی نہ
ہو۔ آنکھیں بند کر لیں۔ اچھا ہے آنکھوں پر سفید نرم کپڑے کی پنی اس طرح باندھ لیں
کہ آنکھ کے پپوٹوں پر ہلکا سا دباؤ رہے زیادہ
دباؤ نہ ہو۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھئے۔ یکسو ذہن
کے ساتھ ۱۱ مرتبہ ’’یا اللہ یا رحمن یا رحیم ‘‘ پڑھ کر تصور کیجئے کہ آپ باغ میں ہیں۔ باغ میں
رنگ رنگ خوشبودار پھول ہیں۔ چمپا ، چنبیلی ، موتیا ، رات کی رانی، دن کا راجا وغیرہ۔
باغ کے درمیان میں گلاب کا درخت ہے درخت میں گلابی رنگ پھول لگے ہوئے ہیں۔ ایک
پھول دوسرے پھولوں سے بڑا ہے۔بند آنکھوں سے بڑے پھول کو دیکھئے۔ پھولوں کی
گنتی کیجئے اور بتائیے، آپ کے ذہن کی اسکرین پر کتنی پھولوں کا عکس نمودار ہوا۔ ۔۔۔؟
نوٹ : یکسو ہونے کی مشق مراقبہ پانچ منٹ کیجئے۔ جو دیکھا
سمجھا’’ بچوں کا قلندر شعور ‘‘کو لکھ کر بھیج دیجئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکول: محترم اساتذہ کرام۔۔۔۔ ادب کے ساتھ التماس ہے کہ
’’بچوں کا قلندر شعور‘‘ میں مراقبہ کی مشق اسکول میں بچوں کو کروائیے اور بچوں سے
مراقبہ کے دوران ہونے والی کیفیات سن کر ادارہ بچوں کا قلندر شعور کو لکھ کر بھجوا
دیجئے۔’’ بچوں کا قلندر شعور‘‘ اساتذہ کرام کے تعاون سے بچوں کے اندر صلاحیتوں کو
بیدار کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔
ادارہ آپ کے تعاون کا منتظر ہے۔ مراقبہ
کی کیفیات ان شاءاللہ اسکول کے نام کے ساتھ شائع کی جائیں گی، والسلام۔
فقیر عظیمی
خواجہ شمس الدین عظیمی