Topics
اللہ نے زبان کو قلب کا
ترجمان اور خیر و شر کی کنجی بنایا ہے۔ زبان کا ادب یہ ہے کہ وہ اللہ کے ذکر سے
سرشار رہے اور لوگوں کا ذکر بھلائی کے ساتھ کرے اور انہیں دعا دے۔ چھوٹوں کو وعظ و
نصیحت کرے اور ایسی بات نہ کرے جو انہیں ناگوار ہو۔ کسی کی غیبت نہ کرے ، نہ چغل
خوری کرے اور نہ گالی دے اور نہ ہی بیکار باتوں میں منہمک ہو۔ اگر مرید کسی جماعت
میں ہو تو ضرورت کے وقت بولے اور بیکار باتوں میں نہ بولے۔ ہر جگہ وہاں کی حالت کے
مطابق گفتگو کرے۔ کہا گیا ہے کہ اگر تم اپنے قلب کی حفاظت چاہتے ہو تو اپنی زبان
کی حفاظت کرو۔ طالب کو چاہئے کہ خاموشی اختیار کرے کیونکہ خاموشی جاہل کے لئے پردہ
پوشی اور عقلمند کے لئے زینت ہے۔ رسولﷺ کا ارشاد ہے:
‘‘جس چیز کے متعلق میں اپنی
امت پر سب سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ زبان ہے۔’’
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
‘‘اس آدمی سے زیادہ اچھا
گفتگو کے اعتبار سے کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے۔’’
اہل طریقت کے لئے ضروری
ہے کہ وہ بغیر ضرورت کے ہرگز نہ بولیں۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
‘‘پس خاموشی میں بڑے فائدے
اور کامیابیاں ہیں جبکہ بولنے میں بہت مصیبتیں ہیں۔’’
حضرت جنیدؒ کا قول ہے کہ:
‘‘جو اللہ کو پہچان لیتا ہے
اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے کیونکہ مشاہدے میں بیان ایک حجاب ہوتا ہے یعنی جب بندے
پر طریقت کی راہ کھل جاتی ہے تو وہ گفتار سے مستغنیٰ ہو جاتا ہے کیونکہ الفاظ تو
غیر کی اطلاع کے لئے ہوتے ہیں اور حق تعالیٰ احوال کی تفسیر سے بے نیاز ہیں۔’’
حضرت علی بن عثمان
ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخشؒ اپنی کتاب ‘‘کشف المعجوب’’ میں لکھتے ہیں:
‘‘تمام کلام دو طرح کے ہوتے
ہیں اور تمام سکوت بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک کلام حق ہے اور دوسرا باطل۔ اور
ایک سکوت حصول مقصد اور مشاہدہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور دوسرا غفلت کی وجہ سے۔ پس
کلام کرنے اور خاموش رہنے کے وقت ہر شخص کو اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہئے کہ
اگر اس کا کلام حق کے لئے ہے تو اس کی گفتار اس کی خاموشی سے بہتر ہے اور اگر کلام
باطل ہے تو پھر سکوت، کلام سے بہتر ہے۔ اسی طرح سکوت اگر غفلت اور حجاب کی وجہ سے
ہے تو پھر گفتار خاموشی سے بہتر ہے۔’’
طالب جب گفتگو کرے تو
ضروری ہے کہ حق بات کے سوا کچھ بھی نہ کہے۔ کسی کو اس کی زبان سے تکلیف نہ پہنچے۔
مریدین کو چاہئے کہ وہ مرشد کے کلام میں ہرگز دخل نہ دیں نہ ہیر پھیر کریں۔ حق کی
تعریف یقین ہے۔ جس بات پر طالب عین الیقین حاصل کر چکا ہو تو اس بات پر بولنا جائز
ہے اور جو بات اس کے یقین میں داخل نہیں اس پر طالب کا بولنا جائز نہیں۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
"ذہن کو آزاد کر کے کسی
بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور
طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس
کا فیض ہو گا۔"
اس کتاب کی تیاری میں
مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء
اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں
گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے
کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر
محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)
میاں مشتاق احمد عظیمی