Topics

رابطہ شیخ


                اللہ تعالیٰ کی قربت حصول کے لئے سب سے بہتر ذریعہ رابطہ شیخ ہے۔ رابطہ کے معنی ربط، ضبط اور تعلق خاص کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل کرنے کے بہت سے راستے ہیں۔

                حضرت خواجہ بہا ؤالدین نقشبندؒ فرماتے ہیں:

                ‘‘جس قدر نفوس ہیں اسی قدر خدا سے ملنے کی راہیں ہیں۔ ہر نفس اپنی حقیقت سے ملنے کا راستہ رکھتا ہے لیکن دین کبریٰ سے بالاتفاق تین راہوں کو اخذ کیا ہے۔ یہ تین راستے سب راستوں سے افضل ہیں اور انہی راستوں پر چلنے سے لاکھوں ولی اللہ بن گئے اور ان کی تصدیق تواتر سے حق الیقین تک پہنچتی ہے۔ یہ راستے بے شک سب راستوں سے افضل ہیں، وہ یہ ہیں:

                اوّل:        ذکر

                دوئم:        فکر

                سوئم:        رابطہ شیخ

                اگر ان تینوں راستوں میں سے ایک کو بھی مضبوط پکڑ لیا جائے تو بے شک انسان خدا تک ضرور پہنچے گا۔

                خواجہ محمد معصومؒ فرماتے ہیں:

ذکر بے رابطہ موصل نیست

و رابطہ بے ذکر البتہ موصل نیست

                (ذکر رابطے کے بغیر خدا تک نہیں پہنچاتا البتہ رابطہ بلا ذکر کر کے خدا تک پہنچا دیتا ہے)

                حضرت شیر ربانی مجدد الف ثانیؒ بھی رابطہ شیخ کو اپنی کتابوں میں تحریر فرماتے ہیں۔

                ‘‘اگر بلا تکلف بلا بناوٹ کے مرید کو پیر کا رابطہ حاصل ہو جائے تو پیر و مرید کے درمیان مناسب کامل ہونے کی علامت ہے جو افادہ اور استفادہ کا سبب ہے اور وصل اللہ کے لئے رابطہ سے زیادہ اقرب کوئی طریقہ نہیں اور ذکر سے رابطہ کا بہتر کہنا بلحاظ نفع کے ہے کیونکہ مرید کو ابھی مذکورہ سے کامل مناسبت پورا فائدہ حاصل کرنے کی نہیں ہے۔’’

                حضرت خواجہ احرارؒ فرماتے ہیں:

                سایہ رہبر بہ است از ذکر حق

                (ذکر سے بہتر ہے سایہ پیر)

                حضور نبی کریمﷺ سے حضرت ابو بکر صدیقؓ زیادہ رابطہ و تعلق اور محبت رکھتے تھے اس واسطے آپؓ تمام صحابہ سے سبقت لے گئے۔ آپؓ کی شان میں فرمان ہے کہ ‘‘ نہیں ڈالا اللہ تعالیٰ نے میرے سینے میں کچھ مگر میں نے اس کو ابوبکر کے سینے میں ڈال دیا۔’’

                پس رابطہ شیخ سے طالب ایسا کمال حاصل کر لیتا ہے کہ جیسے کاغذ پر مہر کی نقل جلوہ گر ہوتی ہے۔

                رابطہ شیخ، ربط الی اللہ قائم کرنے اور واصل باللہ ہونے کا راستہ ہے۔ حضرت یزید بسطامیؒ فرماتے ہیں:

                ‘‘علم نا اہل علماء سے سیکھنا مناسب نہیں کیونکہ وہ روحانی قوتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ علم اور خبر ایسے شخص سے سیکھو اور سنو جو علم سے معلوم (یعنی اللہ تعالیٰ) تک رسائی حاصل کر چکا ہو اور خبر سے مخبر کو جانتا ہو۔’’

                حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ محسوس کر لیا کہ امت محمدیﷺ میں ایسے خدا رسیدہ بندے بھی ہیں جو تحت الثریٰ سے لے کر اعلیٰ علیین تک چھائے ہوئے ہیں تو آپ نے بھی حضورﷺ کی امت میں شمولیت کے لئے دعا کی۔

                سلوک، روحانیت، تصوف یا طریقت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں داخل ہونے کی اولین شرط کسی شیخ یا مرشد کی صحبت میں آنا ہے۔ طبعاً کسی مرید کے لئے اپنے مرشد کی طویل صحبت حاصل کرنا ممکن نہیں لہٰذا مرشد کے ساتھ ذہنی رابطہ بہت ضروری ہے۔ اہل سلوک ذہنی ربط کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور اسے روحانیت کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ اس طریقہ میں دوری اور نزدیکی کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔ ذہنی ربط کے ذریعے معنوی صحبت حاصل کرنے کی راہ میں کوئی چیز کسی وقت حائل نہیں ہوتی۔ حقیقت ربط کی اصل اس حدیث سے ظاہر ہوتی ہے جس میں حضورﷺ نے فرمایا:

                ‘‘میرا اللہ کے ساتھ ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ جس میں کسی مقرب فرشتے یا نبی مرسل کی گنجائش نہیں ہوتی۔’’

                مرید کے لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اس کی کامیابی کا مدار باطنی رابطے پر ہے جو مرید کی اپنے پیر سے محبت، عقیدت، اس کا گرویدہ ہونے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے عبارت ہے۔ یہ رابطہ جس قدر مضبوط ہو گا شیخ کے باطن سے فیوض و برکات اسی قدر زیادہ حاصل کرے گا۔ شیخ کے باطن سے فیوض و برکات حاصل کرنے کے لئے محض محبت اور باطنی رابطے کا ہونا کافی ہے۔ اگر محبت اور رابطہ نہ ہو تو وہ صلاحیت پیدا نہیں ہوتی جو کہ شیخ کی توجہ کو قبول کرنے کے لئے ضروری ہے۔ شیخ سے باطنی رابطے کا طریقہ طالب کے لئے ذکر سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ اگرچہ ذکر کی اپنی فضیلت ہے مگر مرید چونکہ دنیا و مافیہا میں گرفتار ہوتا ہے اور وہ عالم بالا سے تعلق نہیں رکھتا کہ وہ وہاں سے بغیر وسیلے کے فیض حاصل کر سکے اس لئے اس کو ایک واسطہ چاہئے جو عالم بالا سے رابطہ رکھتا ہو اور جو عالم بالا کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے عالم غیب سے فیوض و برکات عالم ناسوت میں ان کی استعداد رکھنے والوں کو پہنچائے۔ لہٰذا جس قدر طالب کا مطلوب کے ساتھ ربط زیادہ ہو گا اس کے باطن سے اسی قدر فیض اخذ کرے گا۔

            

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی