Topics

مراد اور مرید کا فرق


                بزرگان سلف میں سے کسی بزرگ کا ارشاد ہے کہ مرید کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کو اسے مرید بنانا مقصود نہ ہوتا تو وہ ہرگز مرید نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اس لئے جب وہ کسی کو بھی خصوصیت عطا کرنا چاہتا ہے تو اسے ارادت کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔ بعض دوسرے بزرگوں کا ارشاد ہے کہ مرید ابتدا کرنے والا ہوتا ہے اور مراد مقصود منتہیٰ ہے۔

                سالک یعنی مرید وہ ہے جو مصائب اور مشقتوں میں پھینک دیا جاتا ہے اور مراد وہ ہے جو منزل مقصود تک پہنچ گیا ہو اور رنج و مشقت سے آزاد ہو چکا ہو۔ مرید کو رنج دیا جاتا ہے اور سنت الٰہی یہی ہے کہ وہ سالکین حق کو مجاہدات کی تکلیف دیتا ہے۔ پھر ان کو خود تک پہنچا دیتا ہے اور انہیں حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے دلوں کی حفاظت کریں۔ حدود الٰہی کی محافظت میں مشغول ہوں۔ اس وقت تو ان لوگوں کا ظاہر مخلوق خدا کے ساتھ ہوتا ہے لیکن ان کا باطن اللہ کے ساتھ مشغول ہوتا ہے۔ ان کی زبانیں اللہ کے حکم اور ان کے دل علم خداوندی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کی زبانیں بندگان الٰہی کو نصیحت کرنے کے لئے مخصوص ہو جاتی ہیں اور ان کے باطن الٰہی امانتوں کی حفاظت کے لئے وقف ہو جاتے ہیں۔ پس جب تک یہ بندے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف و مشغول ہیں اور اس کے حقوق اور حدود کی حفاظت پر قائم ہیں ان سب بندوں پر اللہ تعالیٰ کا سلام اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔

                سالک یا مرید اور مراد کے سلسلے میں حضرت جنیدؒ سے دریافت کیا گیا کہ مرید اور مراد میں کیا فرق ہے۔ آپؒ نے فرمایا:

٭           مرید وہ ہے جس کی سرپرست تدبیر علمی ہوتی ہے اور مراد کی سرپرست رعایت خداوندی ہوتی ہے۔

٭           مرید تو چلتا ہے لیکن مراد اڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ چلنے والا اور اڑنے والا برابر نہیں ہو سکتے۔ بس مرید طالب ہے اور مراد مطلوب ہے۔

٭           مرید کی عبادت مجاہدہ ہے اور مراد کی عبادت بخشش اور موہیت ہے۔

٭           مرید موجود ہے اور مراد فانی بالحق ہے۔

٭           مرید جزا کے لئے عمل کرتا ہے لیکن مراد عمل کی طرف توجہ نہیں کرتا بلکہ توفیق اور احسان خداوندی کی طرف اس کی نظر ہوتی ہے۔

٭           مرید سلوک کی منزل طے کرتا ہے اور مراد سلوک کے تمام راستوں کے مقام اتصال پر کھڑا ہے۔

٭           مرید تو نظر خداوندی کے نور سے دیکھتا ہے اور مراد خود اللہ کے ذریعے دیکھتا ہے۔

٭           مرید اپنی خواہشات کی مخالفت کرتا ہے اور مراد اپنے ارادے اور خواہش نفس سے بیزار ہوتا ہے یعنی اس کے اندر اپنا ارادہ اور اپنی خواہش جنم نہیں لیتی۔

٭           مرید تقرب حاصل کرتا ہے اور مراد کو تقرب دیا جاتا ہے۔

٭           مرید کو پرہیز کروایا جاتا ہے اور مراد کی رہنمائی کی جاتی ہے اسے ناز و نعم سے نوازا جاتا ہے اور کھلایا جاتا ہے۔

٭           مرید محفوظ ہوتا ہے اور مراد کے ذریعے دوسروں کی حفاظت کروائی جاتی ہے۔ مرید حالت صعود میں ہوتا ہے اور مراد اپنے اس رب تک پہنچ چکا ہوتا ہے، جس کے پاس ہر عمدہ اور نفیس نعمت موجود ہے، اسی لئے مراد ہر عابد متقرب، پرہیز گار اور نیکو کار سے بڑھ جاتا ہے۔

                ایک دفعہ ایک چیونٹی نے خانہ کعبہ کی زیارت کا ارادہ کیا۔ سفر کا سلسلہ شروع ہوا۔ تھکا دینے والے سفر میں اس کا کوئی ساتھی نہیں تھا۔ راستے میں اس کی ملاقات اپنے ایک پرانے دوست کبوتر سے ہوئی۔ کبوتر نے پوچھا کہ بی چیونٹی کہاں کا ارادہ ہے؟ چیونٹی نے اپنے سفر کا مقصد بیان کیا۔ کبوتر اس ننھی سی جان کی بات سن کر بڑا حیران ہوا۔ اس نے کہا کہ کیا تو جانتی ہے کہ راستے میں دریا، سمندر، ندی، نالے، اونچی پہاریاں اور گہری کھائیاں ہیں۔ اس کے علاوہ ان ریگستانوں میں ایسے ایسے طوفان ہر وقت چلتے ہیں جس میں کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکتا۔ چیونٹی بولی کہ بھئی کبوتر اب تو چاہے جان چلی جائے لیکن میں اپنا مقصد پورا کر کے چھوڑوں گی۔ کبوتر نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو میں تیرا مسئلہ حل کر سکتا ہوں۔ چیونٹی نے پوچھا وہ کیسے؟ کبوتر بولا کہ آ تو میرے قدموں سے چمٹ جا میں تیرا سالوں کا فاصلہ دنوں میں بغیر کسی مشکل کے طے کرا دوں گا۔ چیونٹی اس کے پاؤں  سے لپٹ گئی۔ کبوتر اڑا اور دنوں میں چیونٹی کو خانہ کعبہ پہنچا دیا۔ چیونٹی کو اس کی منزل مل گئی۔ مولانا رومؒ مرید کو یا سالک کو چیونٹی سے اور کبوتر کو مرشد یا روحانی استاد سے تشبیہہ دیتے ہیں کہ مرشد یا روحانی استاد کس طرح خود تکلیف برداشت کر کے مرید کو اس کی منزل پر پہنچا دیتا ہے۔ اس کے برعکس مرید خود اکیلا بالکل اس چیونٹی کی طرح ہے جو کہ اکیلی منزل پر نہیں پہنچ سکتی۔

                جب مرید خود کو مرشد کے حوالے کر دیتا ہے تو مرشد مرید کو اس کی منزل پر پہنچا دیتا ہے۔

 

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی