Topics
بعض صوفیاء نے کہا ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے ادب سکھایا ہے کہ فقراء کو وہی کھلانا چاہئے جو ہم خود کھاتے ہیں۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی کھانا شروع کرے تو بسم اللہ کہے اور پہلے
کہنا بھول جائے تو جب کبھی یاد آ جائے اول سے آخر تک کبھی بھی کہے۔ نبی کریمﷺ نے
کٹوروں کی طرف اشارہ کر کے یہ بھی فرمایا کہ اس کے اطراف سے کھا ؤ بیچ میں سے نہ
کھا ؤ کیونکہ برکت بیچ میں نازل ہوتی ہے۔
نبی کریمﷺ سے بہ صحبت یہ
ثابت ہے کہ وہ کل کے لئے کوئی چیز ذخیرہ کر کے نہیں رکھتے تھے اور کھانے کا ذکر
زیادہ نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ حرص پر دلالت کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے
کہ آنحضرتﷺ نے کبھی کسی کھانے کو برا نہیں کہا۔ آپﷺ نے فرمایا اپنے کھانے کو اللہ
کے ذکر سے اور نماز سے گلا ؤ اور کھا کر نہ سو جا ؤ اس سے دل سخت ہو جاتے ہیں۔
بعض مشائخ نے کہا ہے کہ
بادران دین کے ساتھ کھانا خوش طبعی کے ساتھ ہونا چاہئے اور اجنبیوں کے ساتھ ادب کے
ساتھ اور فقراء کے ساتھ ایثار ہے۔ جب ایک جماعت کے ساتھ کھانا کھائے تو کھانے سے
ہاتھ اس وقت تک نہ روکے جب تک کہ دوسرے ساتھی بھی کھانا ختم نہ کر لیں۔ کھانا بھوک
رکھ کر کھانا چاہئے۔
بعض مشائخ کا کہنا ہے کہ
میزبان پر تین چیزیں واجب ہیں یہ کہ مہمان کو حلال چیز کھلائے اور اس کے نماز کے
اوقات کا خیال رکھے اور جو کھانا وہ کھلا سکتا ہے اسے مہمان سے نہ روکے۔ لیکن
مہمان پر لازم ہے کہ وہاں بیٹھے جہاں میزبان بٹھائے اور جو کچھ اس کے سامنے لایا
جائے اس پر راضی رہے۔
امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ
‘‘جس شخص کی مصروفیت صرف اس
چیز میں ہو جو اس کے پیٹ میں داخل ہوتی ہے تو اس کی قیمت صرف وہ ہے جو پیٹ سے
نکلتا ہے۔’’
راہ حق کے طالب کے لئے
زیادہ کھانے سے بڑھ کر کوئی چیز نقصان دہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے بارے
میں فرمایا:
‘‘جو لوگ کافر ہیں وہ دنیا
میں فائدہ حاصل کرتے ہیں اور کھانے میں جس طرح جانور کھاتے ہیں اور ان کا ٹھکانہ
دوزخ ہے۔’’
کھانا کھانے کو بھی دوسرے
اعمال کی طرح اللہ کے ساتھ منسوب کرنا چاہئے اور طالب حق کو یہ ذہن میں رکھنا
چاہئے کہ میں نہیں کھا رہا اللہ کھلا رہا ہے۔
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ
مجھے حیرت ہے کہ لوگ کھاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ اتنے لوگ تلوار سے ہلاک نہیں ہوتے
جتنے کھانے سے ہلاک ہوئے ہیں یعنی وہ اتنا کھاتے ہیں کہ بیمار ہو جاتے ہیں اور مر
جاتے ہیں۔ انسان اپنی غذا کم بھی کر سکتا ہے اور اعتدال سے ہٹ کر زیادہ سے زیادہ
بھی کر سکتا ہے۔
حضرت شاہ دولہ دریائیؒ
فرماتے ہیں کہ
‘‘پختہ کار آدمی کو طمع خام
کا آرزومند ہونا فائدہ نہیں دیتا۔’’
آپ کا خیال ہے کہ مشغولی
کے لئے جنگل کو جا ؤ تو کچھ کھا کر جا ؤ یا کھانا ساتھ لے کر جا ؤ۔ اس میں دو
مصلحتیں ہیں ایک یہ کہ سالک کو بھوک سے بڑھ کر کوئی خطرہ نہیں۔ بھوک کے اگرچہ
فائدے بھی بہت ہیں لیکن اس کی وجہ سے دل کو بہت قلق اور اضطراب لاحق ہوتا ہے۔ یہ
بھوک کے فائدوں پر غالب آ سکتا ہے۔ اس لئے اگر کچھ کھا لیا جائے تو خطرات رفع ہو
جاتے ہیں اور دل کو قرار اور اطمینان میسر آ جاتا ہے۔ کیونکہ آنحضرتﷺ بھی اپنا
کھانا غار حرا میں لے جاتے تھے اور عبادت میں مشغول رہتے تھے اور جب آپﷺ کے کھانے
کا سامان ختم ہو جاتا تو پھر گھر تشریف لے آتے۔ یوں گھر والوں کی خیریت بھی دریافت
ہو جاتی اور دوسرے کھانا وغیرہ کا بھی از سر نو بندوبست کر لیتے اور واپس غار حرا
میں چلے جاتے۔
حضرت خواجہ شمس الدین
سیالویؒ کے ایک مرید نے آپ سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے صوفیائے کرام کو کھانے پینے کی
حاجت ہی نہیں رہتی۔ آپ نے فرمایا بھوک اور پیاس کا احساس ختم ہو جانے کی دو وجوہات
ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ اس امر پر قادر ہے کہ کھانے پینے کے بغیر بھی زندہ
رکھ سکتا ہے۔ دوسری یہ کہ کھانے پینے کی حاجت کا تعلق خاکی وجود سے ہے۔ جب خدا کے
بندے بشریت کی منزل سے گزر کر فنا کی حدود میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں کھانے پینے
کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
"ذہن کو آزاد کر کے کسی
بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور
طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس
کا فیض ہو گا۔"
اس کتاب کی تیاری میں
مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء
اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں
گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے
کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر
محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)
میاں مشتاق احمد عظیمی