Topics

مقصدِ تخلیق:


                جب کچھ نہیں تھا تو صرف اللہ تھا۔ اللہ نے چاہا کہ میں پہچانا جا ؤں۔ پہچان کے لئے ضروری تھا کہ کسی دوسری ہستی کا وجود ہو جو کہ پہچانے۔ اللہ تعالیٰ نے ‘‘کن’’ ارشاد فرمایا اور ساری کائنات تخلیق ہو گئی۔ گویا اللہ تعالیٰ کا حکم یعنی لفظ ‘‘کن’’ کائنات کی صورت میں وجود پذیر ہو گیا۔ اسی حکم کی بناء پر وسیع و عریض اور لامتناہی کائنات، کھربوں کہکشانی نظام، کھربوں سیارگان اور ستارے وجود میں آئے۔ جب ہم اس لفظ ‘‘کن’’ یعنی ‘‘ہوجا’’ پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کہنے والی ہستی کے ذہن میں ایسا پروگرام ہے جس کے تحت وہ کسی چیز کو نہ صرف وجود میں لانا چاہتی ہے بلکہ اسے قائم رکھنے کے لئے وسائل بھی فراہم کرتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کا ذہن اللہ تعالیٰ کا علم ہے اور یہ علم اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔

                ‘‘کن’’ کہنے کے ساتھ ہی جب عالم ارواح میں کائنات تخلیق پائی تو وہ تمام صفات بھی کائنات کے اندر موجود ہو گئیں جن کی بنیاد پر کائنات کو تخلیق کیا گیا۔

                اب تمام کائنات بشمول تمام نوعوں کے سکوت کی حالت میں تھی۔ کائنات کی حیثیت ایک گونگی بہری شئے کی تھی اس کو اپنا ادراک تو تھا مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ میں کیا ہوں؟ کیوں ہوں؟ کون ہوں؟ اور میرا بنانے والا کون ہے؟ اس لاعلمی کو علم سے بدلنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اقدس کو کائنات کے سامنے پیش کیا اور فرمایا:

                الست بربکم

                کیا نہیں ہوں میں تمہارا رب؟

                تمام نوعیں اس آواز کی طرف متوجہ ہوئیں اور ان کو سماعت عطا ہوئی۔ انہوں نے اللہ کی آواز کو سنا، دوسرے مرحلے میں ان کو صفت بصارت عطا ہوئی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ تیسرے مرحلے میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوال پر سوچا سمجھا پھر اپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیا اور جواب میں فرمایا:

                قالو بلیٰ

                بیشک آپ ہی ہیں ہمارے رب۔

                اس کے بعد انسان اور دوسری نوعوں کو کائناتی پراسیس (Process) میں ڈال دیا گیا اور انسان لوح محفوظ اوّل، لوح محفوظ دوئم سے ہوتا ہوا عالم ناسوت یعنی اس مادی دنیا تک آ پہنچا۔

                گویا تخلیق کائنات کا مقصد صرف اور صرف یہ نکلا کہ انسان اللہ تعالیٰ کو پہچانے۔ دوسرے الفاظ میں خالق نے ایک تصویر بنائی اس تصویر میں اللہ نے انسان، حیوان، درخت، پودے، پہاڑ، پانی، آسمان وغیرہ بنائے اور اب وہ یہ چاہتا ہے کہ میری بنائی ہوئی تصویر مجھے پہچانے، میری حمد بیان کرے۔ مگر اگر یہ تصویر اپنے ہی رنگوں میں الجھ رہے گی تو اپنے اصل مقصد یعنی اللہ کی پہچان سے دور ہو جائے گی اور مقصد تخلیق کی تکمیل ممکن نہیں ہو گی۔

            

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی