Topics

مستقل مزاجی


                سالک پر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ احوال و واردات کی بندس ہو جاتی ہے ایسے وقت میں پر امید رہنا چاہئے رنجیدہ و مایوس نہیں ہونا چاہئے۔

                جو شخص ایک جگہ تعلق رکھتا ہے وہ ہر جگہ سے فیض حاصل کر لیتا ہے اور جو شخص ہر جگہ تعلق رکھتا ہے وہ کسی جگہ سے بھی فیض یاب نہیں ہوتا۔

                حضرت خواجہ محبوب عالم نقشبندی توکلیؒ اپنی کتاب محبوب السلوک میں لکھتے ہیں:

                ‘‘اگر تم سے نسبت باطنی کی کوئی کیفیت مثل انکشاف وغیرہ کے کچھ ظاہر نہ ہو یا انوارات کے رنگ وغیرہ معلوم نہ ہوں تو طریقہ کی تعلیم سے ہمت نہ ہار بیٹھو۔ کیونکہ یہ تمام امور اصل مقصود نہیں۔ مقصود حقیقی اسی راستہ کی رضائے الٰہی جل شانہ ہے۔ اس کے واسطے تم اپنے دل میں غور و فکر مت کرو کہ بیعت سے پہلے میرے اندر اس قدر فضائل موجوب ناراضگی حق تعالیٰ موجود تھے اور اب اس عرصہ کے اندر ان میں کس قدر جاتے رہے اور آئندہ کتنی عادتوں سے مجھ کو نفرت ہو چلی ہے۔ جب یہ فرق تم کو معلوم ہو جائے تو سمجھو کہ ایک نہ ایک دن ضرور یہ تمام بری خصلتیں میرے اندر سے بطفیل اس مرد کامل کے نیست و نابود ہوں کہ خدائے تعالیٰ کی رضا مجھ پر وارد ہو جائے گی۔ بہ نسبت ان توہمات یہ غور و فکر تم کو جلد منزل مقصود پر پہنچا دے گا۔

                حضرت میاں شیر محمد شرقپوریؒ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ آپ پر اچانک وجدانی کیفیت طاری ہو گئی اور آپ با آواز بلند فرمانے لگے ‘‘یہی کہتی رہو، یہی کہتی رہو، یہی کہتی رہو۔’’

                یہ بات تین مرتبہ دہرانے کے بعد میاں صاحب سجدے میں گر گئے اور زار و قطار رونے لگ گئے۔ کافی دیر بعد سجدے سے اٹھے اور دعا فرما کر خدا کا شکر ادا کیا۔ آپ کے مرید بہت زیادہ پریشان تھے اور جلد از جلد اس حیرت انگیز کیفیت کی وجہ جاننا چاہتے تھے مگر کسی کو ہمت نہ تھی کہ وہ پوچھنے کی جسارت کرتا۔ آخر ایک مرید نے میاں صاحب سے ہمت کر کے آپ کی کیفیت کے بارے میں دریافت کیا۔ میاں صاحب قدرے توقف کے بعد فرمانے لگے:

                ‘‘دراصل ہمارے گھر کی مہترانی وفات پا گئی ہے اور اس وقت قبر میں اس سے جب حساب کتاب ہونے لگا تو وہ کہنے لگی کہ میں کچھ بھی نہیں جانتی۔ میں تو بس میاں شیر محمد کی مہترانی ہوں۔’’

                میاں صاحبؒ نے مزید فرمایا کہ میں نے جب قبر میں سے اس کی یہ آواز سنی تو اس کو یہاں سے جواب دیا کہ یہی کہتی رہو، یہی کہتی رہو۔ اس کے بعد میں خدا سے سربسجود ہو کر گڑگڑایا ہوں کہ خداوند کریم اس عورت نے بخشش کے لئے میرا وسیلہ بنایا ہے تو اپنے حبیب کے طفیل میری لاج رکھ لے اور اس کو بخش دے اور جب تک مجھے یقین نہیں دلایا گیا کہ اس کی بخشش ہو گئی ہے میں نے سجدے سے سر نہیں اٹھایا۔

                بیعت کے بعد مرید کا مستقل مزاجی کے ساتھ ٹھہرا رہنا نہایت ضروری ہے۔ ہر کام میں وقت لازمی درکار ہوتا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ سب کچھ فوراً ہی حاصل ہو جائے۔ سولہ سال کا کورس آٹھ ماہ میں کمل ہو جائے۔ آٹھ ماہ کی مدت میں بچہ الف ب لکھنا بھی نہیں سیکھتا۔ کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کا اختیار خود انسان کے ذوق و شوق پر منحصر ہے۔ ایک شخص تیس سال کی عمر میں کسی سلسلے میں داخل ہوتا ہے۔ گذشتہ تیس سال کے عرصے میں وہ اپنے اندر شکوک و شبہات، حرص و ہوس کی کثافتیں جمع کرتا ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہئے کہ تیس سال ہی کثافت کی صفائی میں لگیں۔ اگر تیس سال صفائی میں لگیں تو عمر ساٹھ سال ہو گئی۔ ساٹھ سالہ شخص وہ سب کچھ نہیں کر سکتا جو تیس سالہ شخص عبادت و ریاضت کر سکتا ہے۔ ساٹھ سال کی عمر تک اعصاب بھی کمزور پڑ جاتے ہیں۔ اگر محض تین ماہ کسی سلسلے میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص کہے کہ کچھ حاصل نہیں ہوا تو کچھ مناسب نہیں کیونکہ اتنے عرصہ میں تو ABCنہیں سیکھی جا سکتی۔ اگر تین مہینوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سلسلے کی طرف سے ملنے والے اسباق پابندی سے نہیں کئے گئے ناغہ ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ناغہ کرنے پر تو ملازمت سے بھی برطرف کر دیا جاتا ہے۔

                خواجہ محبوب عالم قدس سرہ اپنی کتاب محبوب السلوک میں لکھتے ہیں:

                ’‘جب تم نے اس راستے کو اختیار کر لیا تو واجب ہے کہ ہمت عالی رکھو۔ پست ہمتی اور کم ظرفی نہ اختیار کرو تا کہ اللہ تعالیٰ اور مرشد کامل تم کو تمہاری اعلیٰ ہمتی کے طفیل اعلیٰ مدارج سے فیض یاب کرے۔’’

                مرید کے لئے لازم ہے کہ مرشد کی خدمت میں صبر کرتا رہے۔ سچے مرید کی علامت یہ ہے کہ وہ اطاعت و فرمانبرداری کرے نہ کہ مرشد سے دلیل محبت طلب کرے اور صبر کو ترک کر دے۔ شیخ کی خدمت بجا لانا اور صبر کے ساتھ اس کے احکام کی تعمیل کرنا اور اس کی مخالفت کو ظاہر اور باطن میں ترک کرنا واجب ہے۔

                طالب کو ہرگز یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ اس کی شہرت ہو یا وہ پوشیدہ رہے کیونکہ شہرت کا طالب کافر ہے اور جو شہرت کے خوف سے عبادت ترک کرے وہ منافق ہے۔ مرید کو چاہئے کہ ہر حال میں خوش رہے اور صبر سے کام لے۔ اگر مرشد عزت دے تو عزت اختیار کرے اور اگر ذلت دے تو صبر کر لے۔ اگر مرید مشہور ہو جائے تو یہ نہ سمجھے کہ میں کچھ بن گیا ہوں۔ شہرت کو اپنے اعمال کا نتیجہ نہ جانے بلکہ ایک امتحان سمجھے۔ اگر اس کا نفس شہرت کے ساتھ مطمئن ہو گیا تو وہ آئندہ ترقی سے محروم رہا۔ شہرت کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ مطلوب کی طرف سے کہیں یہ جواب نہ مل جائے کہ تونے اگر ہمارے واسطے محنت و مشقت اٹھائی تو کیا ہوا ہم نے بھی اپنے بندوں کو تیری طرف متوجہ کر دیا تھا جو تیری تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ جو لوگ سلاسل میں خدمت کرتے ہیں ان کے لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ غیر ارادی طور پر ان میں بعض اوقات شہرت کی طلب پیدا ہو جاتی ہے اس لئے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ذمہ داریوں کو شیخ کا احسان سمجھیں اور جب بھی شیخ کے پاس آئیں تو یہ تصور کریں کہ میں پہلے دن شیخ کے پاس جا رہا ہوں۔ اس سے گذشتہ خدمت کا خیال جاتا رہے گا اور اپنے اندر عجز و انکساری پیدا کرے۔

                جب انسان اندر سے پاکیزہ ہو جاتا ہے اور شہرت اور عزت کی طلب اس میں سے ختم ہو جاتی ہے اور بندہ خدا سے محبت کی وجہ سے اس کی مخلوق کی خدمت کرتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس بندے سے محبت کرتا ہے اور مخلوق کو اس کی طرف جھکا دیتا ہے۔ محبت کا پہلا امتحان یہی ہے کہ مخلوق اس کی طرف مائل ہو۔ لہٰزا راحت اور مرتبہ و منزلت کی انا نہیں کرنی چاہئے، اہل دنیا کی صحبت سے پرہیز کرنا چاہئے۔ طالب کو چاہئے کہ امیر و غریب کا امتیاز اپنے اندر سے ختم کرے اگر کوئی امیر اور عزت دار ملے تو مخلوق خدا ہونے کے ناطے اس کی عزت کرے نہ کہ اس کے رتبہ کے باعث۔

                میر پنجہ کش صاحب دہلوی بہت بڑے خطاط تھے۔ میر صاحب کا دستور تھا کہ جب کوئی لڑکا ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تو اول روز اس کے ہاتھ سے ایک تختی لکھواتے اور اپنے پاس رکھ لیتے۔ جب کوئی شاگرد شکایت کرتا کہ حضرت اتنی مدت گزری لیکن میرا خط درست نہیں ہوا تو اس کی پہلی لکھی ہوئی تختی نکال کر سامنے رکھ دیتے کہ اس سے مقابلہ کرو کتنا فرق ہوا ہے۔ جب پہلی تحریر دیکھتا تو فرق معلوم ہوتا اور شاگرد کی تسکین ہو جاتی۔ ایسا ہی حال طالبان طریق کا ہے کہ جب تعلیم بتدریج حاصل ہوتی ہے تو امتیاز معلوم نہیں ہوتا اور طالب کو تشنگی طلب بدستور رہتی ہے اور خیال کرتا ہے کہ ابھی کچھ حاصل نہیں ہوا حالانکہ مرد کامل کی صحبت اپنا کام کرتی رہتی ہے۔

                جب بیجو باورہ فن مویسقی میں مشہور ہوا تو اکبر بادشاہ نے اپنی مجلس میں اس کو طلب کیا۔ اس نے بہ تعمیل حکم شاہی اپنا راگ شروع کیا چونکہ اہل محفل کی طبائع اس کی متحمل نہ ہو سکیں ایسی حالت ہوئی کہ کچھ خط و لطف اور حسن و قح راگ کا محسوس نہ ہوا اور کسی نے اس کے کمال کی تعریف و توصیف نہ کی جبکہ اسی طور سے ایک ہفتہ تک اس کا راگ سنتے رہے تو سامعین کو ان کے نغمات کی برداشت ہو گئی اسی وقت سب نے کیفیت سماع اٹھائی اور کہا کہ اب خوب گاتا ہے۔ یہی حال دربار قلندری کا ہے کہ جب طبیعت متحمل ہو جائے تو کیفیت منکشف ہو جاتی ہے مگر اس کے لئے صبر و استقامت اول شرط ہے۔

                حضرت خواجہ فریدالدین عطارؒ فرماتے ہیں کہ ایک کامل کا قول ہے کہ بولنے اور تقریر کرنے کے لئے بہت عقل اور حکمت درکار ہے لیکن چپ رہنے کے لئے اس سے بھی زیادہ عقل درکار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان انتہائی درجہ کمال پر پہنچتا ہے تو سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ نہیں سمجھا اور اسی بنا پر چپ ہو جاتا ہے تو یہ کیفیت اس کے اہل علم ہونے کی دلیل ہے کیونکہ انسان کی تکمیل اس میں نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں کمکل ہو گیا بلکہ وہ اپنے اندر عجز و انکساری پیدا کرنے اور مکمل ہونے کی جستجو کر لینے یا مکمل ہو جانے کا دعویٰ تکبر اور سرکشی کو ظاہر کرتا ہے جب کہ خدا تعالیٰ کو تکبر اور سرکشی بالکل پسند نہیں ہے اور انکساری و عجز وہ منازل ہیں جن کو سر کر لینا انسان کو اوج کمال تک پہنچا دیتا ہے۔ آپ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قربت کا راستہ عاجزی ہے۔

                حضرت شیخ ابوالحسن شازلیؒ فرماتے تھے کہ اگر شیخ بغیر کسی ظاہری وجہ کے اپنے مرید پر سختی کرے تو بھی مرید صبر کرے اگر پختہ ارادہ اور عاجزی لے کر آئے گا تو قبولیت پائے گا۔

                ایک جوہری تھا جب مرنے لگا تو اپنے فرزند کو وصیت کی کہ میں تیرے واسطے ایک صندوق چھوڑتا ہوں اس میں ایک تو جوہر بیش بہا ہے اور ایک پتھر ہے تو کسی جوہر شناس کو دکھا لینا وہ بتلا دے گا۔ جب باپ کا انتقال ہو گیا تو جوہری بچہ ایک جوہری کے پاس اپنا جوہر اور پتھر لے گیا اور شناخت کی درخواست کی اس نے کہا کہ تو پانچ برس تک میری ملازمت اختیار کر تب بتلا ؤں گا۔ وہ راضی ہو گیا اور پانچ سال تک جوہری کی دکان پر کام کرتا رہا اس عرصہ میں اقسام و انواع کے جواہرات اس کی نظر سے گزرے یہاں تک کہ اس کو ایک بصیرت اور ملکہ شناخت جواہرات کا حاصل ہو گیا۔ بعد مدت موعود کے سوال کیا کہ صاحب اب وعدہ پورا کیجئے۔ اس نے کہا کہ اب اپنے جواہر لا ؤ لایا تو پوچھا کہ اب تو خود بتلا کہ ان میں جوہر کون سا ہے۔ اس نے فوراً پہچان لیا۔ اس وقت جوہری نے کہا کہ میری غرض اس تامل سے یہی تھی کہ تو خود عارف جوہر ہو جائے۔ اگر اول روز میں بتلا دیتا تو نہیں معلوم تجھ کو یقین آتا یا نہ آتا اور تو کس قیمت پر اس کو دے ڈالتا۔ اب کہ تجھ کو عرفان حاصل ہو گیا اور تو خود واقف و شناسا ہو گیا اختیار ہے جو چاہے سو کر کسی کا دھوکہ نہیں کھا سکتا۔

                اکثر مریدین کا تو یہ حال ہے کہ آج مرید ہوئے وظیفہ پوچھ گئے۔ دوسرے دن شکایت کرتے ہیں کہ کچھ اثر نہیں ہوا۔ یہ نہیں سوچتے کہ عمر بھر کی کثافت کو ایک دن کا وظیفہ کیا دور کر سکتا ہے اور مرشد کو ایسی کیا غرض پڑی ہے کہ اپنی مصروفیات کو چھوڑ کر دوسروں کے حال پر متوجہ ہو بالفرض ایسا بھی کرے تو مرید کا تمام عمر کا علم مٹانا اور اس کی بجائے اپنے علم کو جمانا کوئی ہتھیلی کی سرسوں نہیں ہے۔ ہاں رفتہ رفتہ عرصہ دراز کی صحبت میں اصلاح حال خوب ہوتی ہے۔

                لوہار لوہے کو گرم کرتا ہے پھر چوٹ لگا کر بڑھاتا ہے یا سنار آہستہ آہستہ کُوٹ پیٹ کر تار کو بار بار جنتری میں نکالتے ہیں تب وہ تیار ہوتا ہے۔ اگر بے ڈھنگے طور پر زور آور ہوں تو کیا ہو گا فوراً چیز ٹوٹ پھوٹ کر خراب ہو ضائع ہو جائے گی۔ پس ہر کام میں صبر ضرور ہے۔

٭           بزرگوں کا یہ فرمان ہے کہ اگر مال دینے سے جان بچے تو مال کو فدا کر دو اور مال و جان کے دینے سے عزت قائم رہے تو جان و مال کو فدا کر دینا چاہئے اور اگر مال و جان و عزت تینوں کے قربان کرنے سے دین ہاتھ آوے تو ان سب کو دین پر قربان کر دینا چاہئے اور اگر سب کے عوض میں خدا ہاتھ آوے تو دین کو نثار کر دینا واجب ہے۔ مال و جان و عزت و دین سب دے دے مگر خدا کو حاصل کرے۔

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی