Topics
مولانا رومؒ فرماتے ہیں
کہ خلوت اختیار کرنا طریقت کا ایک جزو ہے، یہ اولیاء اللہ سے ہی سیکھی جاتی ہے۔
کسی کی خلوت میں فضیلت نہیں۔ اغیار سے خلوت مفید اور مرشد کے ساتھ صحبت مفید ہے۔
شیخ کی صحبت نور افزا ہے اس سے خلوت کرنا اچھا نہیں۔ صحبت میں بڑی تاثیر ہے۔ بیج
جب مٹی اور پانی کی صحبت اختیار کرتا ہے تو انگور بن کر ابھرتا ہے۔ دانا مٹی میں
مل کر اپنا رنگ و بو جب تک ختم نہیں کرتا اس وقت تک وہ درخت نہیں بن سکتا۔ جب اس
کی اپنی صورت ختم ہوتی ہے تو اس کے باطن کا جلوہ نمودار ہوتا ہے۔ اپنی ہستی کو کھو
دینے سے ہی سالک کو ایک نئی زندگی کا آغاز نصیب ہوتا ہے اس کے لئے صحبت ضروری ہے۔
ان لوگوں کے پاس بیٹھنے سے عقل دگنی ہو جاتی ہے۔ اولیاء کرام کی صحبت میں سالک اس
طرح اللہ سے وابستہ ہو جاتا ہے کہ وہاں دوئی نہیں رہتی، فنائے کامل حاصل ہو جاتی
ہے۔ انسان عبادت کے اعتبار سے اگر ندی ہے تو مرشد کی صحبت میں دریا سے ہمکنار ہو
جاتا ہے۔
حضرت رابعہ بصریؒ ایک
مرتبہ دریائے دجلہ عبور کر رہی تھیں۔ جب کشتی دریا کے درمیان پہنچی تو اسے سخت
طوفان نے گھیر لیا۔ آپ نے دیکھا کہ مسافروں کی چیخ و پکار میں ایک بوڑھا شخص کشتی
کے ایک طرف نہایت اطمینان سے بیٹھا ہے۔ آپؒ نے ان بزرگ سے پوچھا کہ کیا آپ کو
طوفان کے آنے کا علم نہیں۔ انہوں نے جواب دیا۔ ‘‘میرا اللہ ہم سب کو دیکھ رہا ہے۔
اگر اس کی مرضی کشتی کو ڈبونے کی ہے تو میں کون ہوں جو اس کی مرضی کے خلاف کچھ کر
سکوں۔’’ حضرت رابعہ بصریؒ نے ان بزرگ سے کشتی کی سلامتی کے لئے دعا کی درخواست کی
تو اس شخص نے اپنی چادر طوفان کی سمت کر دی اور تھوڑی ہی دیر میں طوفان تھم گیا۔
حضرت رابعہ بصریؒ نے ان بزرگ سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو کوئی انہونی
بات نہیں یہ تم بھی کر سکتی ہو۔ جب آپؒ نے مزید دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا:
‘‘ہم نے اپنے ارادے اور
مرضی کو اللہ کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ پس اس نے اپنی مرضی کو ہماری مرضی کے لئے ترک
کر دیا۔’’
ایسے سبق کتابوں سے نہیں
بلکہ بزرگوں کی صحبتوں سے ہی سیکھے جاتے ہیں۔ اس لئے شیخ کے ساتھ مضبوط ربط کی
ضرورت ہے۔
فقیر کی صحبت بہت ضروری
ہے اس سے فقیر کی طرز فکر بندے کو منتقل ہوتی ہے۔ مرشد کی صحبت میں شب و روز
گزارنے سے مرید کی خوب اصلاح ہوتی ہے اور مرشد کے علوم اسے منتقل ہوتے رہتے ہیں۔
روحانیت میں تعلیم کا طریقہ بتدریج ہے۔ جس طرح لوہار لوہے کو گرم کر کے چوٹ لگاتا
ہے یا سنار آہستہ آہستہ کوٹ پیٹ کر سونے کو درست کرتا ہے اسی طرح مرشد مرید کو
آہستہ آہستہ شعور پر ضربات لگا کر لاشعور کی طرف لے جاتا ہے۔
حضرت غوث علی شاہؒ صاحب
اپنی کتاب تذکرہ غوثیہ میں فرماتے ہیں کہ راجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں کشمیر کے
اندر ایک مجذوب تھے۔ کباب دہی نہایت رغبت سے کھایا کرتے تھے۔ ایک شخص ان کے واسطے
کباب دہی لایا۔ انہوں نے کھایا اور کہنے لگے کہ کیا خوب کباب اور کیا خوب دہی ہے۔
یہی کہتے کہتے دہی لانے والے کا قلب مثل آئینہ ہو گیا کہ سات سو کوس کا حال اس کو
نظر آنے لگا پھر وہ شخص مرغزار کشمیر میں جا بیٹھا۔ بیس برس تک یہی کیفیت رہی مگر
ایک دن مثل شمع گل ہو گئی اور جیسا تھا ویسا ہی رہ گیا اس کے غم و الم میں وہ شخص
جابجا پھرتا رہا۔ سبحان اللہ کے پاس بھی آیا تھا۔ انہوں نے سن کر فرمایا کہ بھائی
یہ بات تو ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں تم سلیمان شاہ صاحب کی خدمت میں جا ؤ۔
اس زمانے کے مشہور و معروف بزرگ ہیں غرض ان کے پاس گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میاں
جو بات تو بیان کرتا ہے خود ہم پر بھی نہیں گزری، بھلا ہم کیا تعلیم کریں۔ ہمارا
طریقہ تو یہ ذکر و اوراد کا ہے۔ وہ شخص شاہ صاحب کا مرید ہو گیا۔ ایک بار ہم سے
بھی ملاقات ہوئی کہنے لگا کہ سلیمان شاہ صاحب کا میں مرید ہو گیا ہوں لیکن جو بات
پہلے تھی وہ اب خواب میں بھی نہیں اور وہ مجذوب پھر کہیں نہ ملے۔ شاید ان کا
انتقال ہو گیا۔ کسی مرید نے عرض کیا کہ حضرت بیس سال کے بعد یہ بات جاتی کیوں رہی
جناب و قبلہ نے فرمایا کہ بغیر جدوجہد اس کو مل گئی تھی اگر چند روز ان بزرگ کی
خدمت میں رہتا تو قیام و ثبات اسی حالت کو یہ ہو جاتا اور وہ شخص کامل اور مکمل
تھا جس کی ایک نظر میں یہ بات پیدا ہو گئی تھی لیکن یہ اپنے خیال میں کامل ہو گیا
تھا کہ خدمت میں رہنا اختیار نہ کیا اور وہ بات قائم نہ رہی چراغ کے گل ہوتے ہی
اندھیرا ہو گیا۔
اس واقعہ میں دو باتوں کی
طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ ایک یہ کہ فقیروں کی خدمت کرنا چاہئے۔ اس سے اللہ بھی خوش
ہوتے ہیں۔
دوسرا اس واقعہ میں یہ
بتایا گیا ہے کہ اس مجذوب نے خوش ہو کر خدمت گزار کو انعام دیا اور اس میں
صلاحیتیں بیدار ہو گئیں مگر وہ ان کی صحبت میں نہیں رہا اور مجذوب کے پردہ فرمانے
کے بعد اس کی صلاحیتیں جاتی رہیں۔
صحبت مرشد بہت لازمی ہے
اس کے بغیر مرید میں اگر کوئی وصف پیدا ہو جائے تو وہ عارضی ہوتا ہے۔ ہاں اگر مرشد
کی صحبت میں رہا جائے تو آہستہ آہستہ اس کے اندر مرشد کے اوصاف منتقل ہوتے رہتے
ہیں اور اس کو مرشد کی پوری طرز فکر منتقل ہو جاتی ہے اور پھر وہ چیز عارضی نہیں
ہوتی۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
"ذہن کو آزاد کر کے کسی
بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور
طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس
کا فیض ہو گا۔"
اس کتاب کی تیاری میں
مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء
اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں
گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے
کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر
محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)
میاں مشتاق احمد عظیمی