Topics

مرید کا اعتقاد


                مرید کو اپنے شیخ سے کم سے کم جو اعتقاد رکھنا چاہئے جو کہ بہت ضروری ہے اور جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ مرشد یا شیخ کے ہر کام کو مرید من جانب اللہ سمجھے۔ مرید کو ہمیشہ سمجھنا چاہئے کہ مرشد کے قدم سے بڑھ کر کوئی قدم نہیں ہے۔ جب تک مرشد حیات ہیں مرید کو جاننا چاہئے کہ اس کے مرشد سے بڑھ کر کوئی شخص دنیا میں نہیں ہے اور اگر کسی طرح مرید کے دماغ میں یہ بات آ جائے کہ اس کے مرشد سے بھی اچھا کوئی شخص موجود ہے تو اس کی توجہ اور اعتقاد ختم ہو جائے گا۔ مثلاً مرشد کے مرشد ہیں تو مرید کو اتنا ضرور سمجھنا چاہئے کہ جو کچھ اس کو اپنے مرشد سے ملے گا دادا مرشد سے نہیں ملے گا کیونکہ وہ دادا مرشد تک اپنے مرشد کے ذریعے ہی پہنچ سکتا ہے اور اگر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گا تو منزل تک نہیں پہنچے گا۔ اپنے مرشد کی طرف متوجہ رہنے سے مرشد کے مرشد بھی اس پر شفقت اور لطف و کرم کی نظر رکھیں گے کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ یہ مرید صادق ہے، اعتقاد کی گرہ جو اس نے اپنے مرشد سے باندھی ہے وہ بہت مستحکم ہے۔ ایسا کرنے میں ذلت و خواری کا گمان نہیں ہے۔ مرید کو چاہئے کہ ہر روز اور ہر گھڑی مرشد سے قربت کی دعا کرتا رہے۔ اگر مرشد کا انتقال ہو چکا ہے تو اس کی روح پر کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کرنا اور اس کے نام پر خیرات کرنا اور تمام وقت اور ہر گھڑی اسے یاد کرتے رہنا چاہئے۔

                مرید کے لئے مرشد دودھ پلانے والی ماں کی طرح ہوا ہے اور مرید شیر خوار بچے کی طرح دودھ پینے والا بچہ۔ اگر ایام رضاعت میں دودھ پلانے والی ماں سے علیحدہ ہو جائے تو ہلاکت کا ڈر ہے۔ جب بچے ایام فطام میں یعنی دودھ چھوڑنے کی منزل میں پہنچتے ہیں تو اس وقت بھی اگر ان کی نگہداشت چھوڑ دی جائے تو وہ تباہ ہو جائیں گے یہاں تک کہ وہ اس دور میں داخل ہوتے ہیں جب کہ وہ خود سے اٹھ بیٹھ سکتے ہیں اور موذی اور مہلک کیڑے مکوڑوں سے اپنے آپ کو دور رکھ سکتے ہیں اور اس وقت بھی ان کو تربیت اور نگہداشت کی سخت حاجت رہتی ہے ورنہ وہ خراب ہو جائیں گے اور ان کی مکمل طور پر تربیت نہ ہو سکے گی۔ اس کے بعد ان کو ہنر سکھانے کا دور آتا ہے۔ اس میں بھی ان کو تربیت کی حاجت رہتی ہے۔ بالغ ہونے کے بعد ان کی دیوانگی اور مستی کا دور شروع ہوتا ہے اس میں احتمال رہتا ہے کہ وہ خواہشات اور ہوا ؤہوس کے دریا میں ایسا ڈوبیں جہاں سے ان کا نکلنا دشوار ہو جائے۔ اس وقت ان کو اس ہلاکت سے نکالنے والا کوئی عالم، حکیم اور دانشمند ہی ہو سکتا ہے اس کے بعد اس پر شباب کا دور آتا ہے جس میں وہ خود سحر ہو جاتا ہے۔ اس دور میں نہ تو اس کو دنیا کا تجربہ ہوتا ہے نہ اچھے برے کی تمیز ہوتی ہے، نہ حادثات سے اس کو پہلے واسطہ پڑا ہوتا ہے۔ ایام جوانی سے بڑھاپے تک کی ایک عمر ہوتی ہے اور بڑھاپے کے بعد ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ تجربہ کار آدمی ہر چیز کو جانتا اور سمجھتا بوجھتا ہے اور اچھے برے کی تمیز رکھتا ہے اور ہر کام کا موقع محل جانتا ہے۔

                عرض یہ ہے کہ مرید اس راہ میں دودھ پینے والے بچے کی طرح ہے اگر مرشد یعنی ماں سے جدا ہو جائے تو تباہ ہو جائے گا اور اس سے کچھ نہ ہو پائے گا مرید پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ مرید کو غیب سے کچھ ظاہر ہونے لگتا ہے جیسے نور و نار کی تجلی، کوئی صورت دیکھنا یا آواز سننا یا کوئی خواب دیکھنا۔ اس دور میں بھی رشد و ہدایت کا نزول ہوتا ہے۔ کبھی خواب یا بیداری میں تنبیہہ ہوتی ہے۔

                مرید کے ایام بلوغ کا دور وہ ہوتا ہے جس میں اس پر کشف اور تجلی ہونے لگتی ہے۔ بعض اوقات اگر مرید کی طرز فکر مستحکم نہ ہو تو یہی تجلیات اور کشوفات اس کو غلط راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ اس وقت اس پر مزید شہود و غیب کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ تاریخ میں بے شمار عارفین اس کیچڑ میں ڈوب چکے ہیں جہاں سے وہ سر بھی نہیں نکال سکے۔

                مرید کے لئے ایام شباب کا دور وہ ہوتا ہے جس میں وہ تجربات سے آشنا ہو جاتا ہے۔ حقائق اور معارف کو صحیح طور پر پہچاننے لگتا ہے۔ اس وقت مرشد کی تربیت اس بات کو اس کے ذہن میں آنے سے روکتی ہے کہ وہ سب سے لائق فائق ہے اور ہر چیز سے واقف ہے۔ واقعتہً بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کہ اس سے پوشیدہ ہوتی ہیں۔ مرشد چونکہ پختہ ہوتا ہے بہت سے انقلابات اس کی نظر اور تجربہ سے گزر چکے ہوتے ہیں لہٰذا مرشد کی صحبت مرید کو بہت سی کمین گاہوں اور مکر و فریب سے نجات دلاتی ہے۔

                بیعت کے بعد بعض مرید شریعت کو راہ سلوک سے مختلف سمجھنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ حقیقت اور طریقت شریعت کے خلاف اور ضد نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کے خلاصہ اور روح ہیں جیسا کہ اخروٹ، کہ اس کا مغز اور چھلکا صورت اور ہیئت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن مغز کا جز چھلکے کے حصے میں موجود ہے اور اس سے روغن نکالا جاتا ہے۔ اس طرح یہ تینوں باہم ملے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاصہ ہیں۔

                مرید کو مرشد جو کہے وہ کرے جو مرشد کرے وہ مرید کو بلا اجازت نہیں کرنا چاہئے کیونکہ مرشد جو سنتا ہے، خدا سے سنتا ہے جو کرتا ہے، خدا کے حکم سے کرتا ہے۔

                مرید اگر پیر کو مقہور باری تعالیٰ دیکھے تو اس کو بدگمان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ دوستوں کے درمیان اکثر رنجش ہو جاتی ہے۔ ایسا بارہا ہوتا ہے کہ ایک دوست اپنے دوسرے دوست سے رنجیدہ ہو جاتا ہے۔ برا بھلا کہتا ہے، بیزاری کا اظہار کرتا ہے لیکن دل میں اس دوست کی ایسی محبت ہے کہ بیان نہیں کی جا سکتی۔

                

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی