Topics
طالب کو اس جسجتو میں
نہیں رہنا چاہئے کہ اسے خرق عادت اور کشف و کرامت جیسی کیفیتں حاصل ہو جائیں۔ عام
طور پر لوگ پس پردہ چیزوں کو اپنے لئے بہتر سمجھتے ہیں۔ پیغمبروں پر وہ اس لئے
ایمان لاتے ہیں کہ ان کی نبوت کی صداقت کا اندازہ خرق عادت سے ہوتا ہے۔
جن لوگوں نے کرامات
اولیاء کے متعلق کتابیں تالیف کی ہیں اگرچہ انہوں نے لوگوں کو اولیاء کی پہچان
بتانے کے لئے بہت مفید کام کیا ہے مگر اس سے لوگوں کے ذہنوں میں ایک بہت غلط بات
بیٹھ گئی ہے کہ اولیاء کا کام صرف کرامت دکھانا ہوتا ہے۔ ایک شخص دور دراز علاقہ
میں کسی ولی کے متعلق سنتا ہے اور اپنے دل میں اس کی ایسی تصویر بنا لیتا ہے جو ان
کرامات کے متعلق ہو جنہیں لوگ نقل کرتے ہیں لیکن جب وہ ان سے ملتا ہے اور انہیں
اپنی ذہنی تصویر کے متعلق نہیں پاتا تو اسے شک گزرتا ہے کہ آیا یہی ولی ہے یا کوئی
اور۔
بعض اولیاء سے لاشعوری
طور پر کرامت در کرامت، تصرف در تصرف اور کشف ظاہر ہوتا ہے۔ ایسے اولیاء سے جب
کوئی شخص ملتا ہے تو وہ یہ دیکھتا ہے کہ ولی سے جس چیز کا بھی مطالبہ کیا جائے وہ
اسے پورا کرنے سے عاجز نہیں ہوتا اور اس سے کوئی بھی مخالف شرع بات خواہ بظاہر ہی
کیوں نہ ہو واقع نہیں ہوتی۔ اس لئے وہ جہالت میں پڑ جاتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا
ہے:
خدا
کے بندے خدا نہیں ہوتے
مگر
خدا سے جدا بھی نہیں ہوتے
بے شک ولی اپنے اندر
ٹھاٹھیں مارتے ہوئے اللہ کی صفات کے سمندر کا عرفان رکھتا ہے اس کے اندر اللہ کے
اوصاف کا عکس نظر آتا ہے۔ مگر ذات الٰہی برحق ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ اپنے
پیارے محبوبﷺ سے فرماتا ہے:
ترجمہ: ‘‘اے محمدﷺ تمہارا
اس میں کچھ اختیار نہیں کہ خدا انہیں معاف کر دے یا عذاب دے اس لئے کہ وہ ظالم
ہیں۔’’
پھر ایک جگہ آتا ہے:
ترجمہ: ‘‘آپﷺ جسے چاہیں
ہدایت نہیں کر سکتے مگر اللہ جسے چاہے ہدایت کرے۔’’
آج لوگوں کا یہ حال ہے کہ
اگر دیکھیں کہ کسی ولی کی دعا قبول نہیں ہوئی یا دیکھیں کہ اس کا لڑکا کسی اور
طریق پر ہے یا متقی نہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ولی نہیں۔ یہ بات ذہن نشین کرنا بہت
ضروری ہے کہ ظاہر سے کبھی بھی باطن نہیں پہچاننا چاہئے۔ اولیاء کرام اللہ کے منتخب
لوگ ہوتے ہیں۔ اللہ جس کا چاہے انتخاب کرے لہٰذا اس کے لئے ذہن میں کوئی ضابطہ
مقرر نہیں کرنا چاہئے کہ ولی کو ایسا ہونا چاہئے یا ولی کو ایسا کرنا چاہئے، ایسا
سوچنے والے جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے رہتے ہیں اور بعض لوگ تو جہالت میں اتنی
دور نکل جاتے ہیں کہ وہ ولایت سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔
محض کرامات کے ظہور سے
کاملین کی درجہ بندی نہیں کرنی چاہئے۔ تمام اولیاء ہدایت اور حق پر ہوتے ہیں اور
لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت ہوتی ہے پھر بھی جو شخص مقامات اور احوال میں ان میں
فرق پیدا کرنا چاہے تو اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ:
‘‘پھول مختلف رنگوں کے ہوتے
ہیں اور کھجور کے درخت ایک ہی جڑ سے نکلے ہوتے ہیں اور بعض الگ الگ جڑوں سے۔ یہ
سیراب تو ایک ہی پانی سے ہوتے ہیں مگر ذائقہ میں ہم ایک کو دوسرے پر فضیلت دیتے
ہیں۔ ان میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔’’
(سورہ رعد۴)
شیخ پر مرید کا اعتقاد
ایسا مستحکم ہونا چاہئے کہ کسی کرامت کے دیکھنے کی ضرورت نہ رہے۔ شیخ کرامت دکھانے
کا مکمل اختیار رکھتا ہے مگر اس کو ظاہر نہیں کرتا اس لئے کہ وہ شہرت حاصل نہیں
کرنا چاہتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ کرامت دیکھنے سے جو شخص معتقد ہو اس کا اعتقاد
کامل نہیں ہوتا۔ پختہ اعتقاد اسی مرید کا ہوتا ہے جو بغیر کرامت کے شیخ پر یقین
کامل رکھے۔
اگر مرید اپنے شیخ کی
حیات میں یا ان کی وفات کے بعد کسی دوسرے بزرگ سے ملاقات کرے اور ان کے کشف و
کرامات دیکھے تو اپنے شیخ سے بدعقیدہ نہ ہو۔ کیا خبر کہ اس کے شیخ زیادہ کشف و
کرامات رکھتے ہوں اور اسے ظاہر نہ کریں۔
مرید کو اپنے مرشد سے
اصول سلوک سے غیر متعلق علم کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی مرید کو مرشد سے
خارق عادت دیکھنے کا منتظر رہنا چاہئے کیونکہ اس میں کئی احتمالات ہیں مثلاً مرشد خارق
رکھتا ہو لیکن اس خرق عادت کے ظاہر کرنے کی اس کو اجازت نہ ہو یا وہ خود نہیں ظاہر
کرنا چاہتا ہو کہ اس سے راز فاش ہو جائے گا اور لوگ اس کا وقت برباد کریں گے۔ ہر
وقت مجمع لگا رہے گا یا مرشد خود امتحان لینا چاہتا ہو کہ اس کے مریدوں کو سچا
اعتقاد ہے یا محض وہم اور تخیلی ہے کیونکہ جو لوگ خرق عادت دیکھنے کے بعد معتقد
ہوتے ہیں وہ متوہم اور متخیل ہیں۔ ان کے اعتقاد کا کوئی اعتبار نہیں البتہ جس کو
مرشد کے کشف کا یقین ہو معتقد شمار کئے جانے کے لائق ہے۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں
کہ اصل بزرگ وہ ہے جو مرید کو اللہ سے ملا دے۔ ان لوگوں کی کرامات پر نظر نہ رکھو
بلکہ ان سے بندگی کے آداب سیکھنا زیادہ اہم چیز ہے۔
حضرت بایزید بسطامیؒ نے
ایک دیگ کھانے کی پکائی صلاء عام دیا کہ جس کو جو کھانا مرغوب و مطلوب ہو اس میں
سے نکالے اور کھائے۔ چنانچہ تمام شہری اور مسافر لوگ ٹوٹ پڑے اور کھانے لگے لیکن
دیگ تمام نہ ہوتی تھی اتفاقاً اسی روز ایک مسافر سرائے میں وارد ہوا۔ حضرت نے مرید
کو بھیج کر اس کی دعوت کی ہر چند اصرار کیا مگر اس نے انکار کر دیا اور کہا میں یہ
کھانا ہرگز نہیں کھا ؤں گا۔ یہاں تک کہ حضرت خود تشریف لے گئے اور کھانے کی دعوت
دی۔ اس نے کہا۔ اچھا میں تو آدمی کا گوشت کھا ؤں گا۔ یہ بات سن کر حضرت بایزیدؒ
چکرائے اور فرمایا خیر میرا گوشت جہاں سے چاہے کوٹ لو اور نوش کرو۔ مسافر بولا کہ
واہ آپ بھی آدمی بن گئے ذرا اپنی جانب غور تو کیجئے۔ انہوں نے بنظر بطون اپنی شکل
کو ملاحظہ کیا تو دیکھا کہ بصورت طا ؤس ہیں اس وقت مسافر نے کہا کہ ابھی تو خدا
خدا کر کے مور کی صورت بنے ہو۔ جب آدمی کی صورت نصیب ہو گی اس وقت دعویٰ کرنا بھلا
ابھی سے کس برتے پر مخلوق خدا کو کھانا کھلاتے ہو۔ یہ بات کہہ کر غائب ہو گیا۔
حضرت بایزیدؒ روئے اور فوراً دیگ توڑ پھوڑ کر پھینک دی۔ غرض مردان خدا کے نزدیک
کرامت بھی غایت کمال نہیں ہے۔
حضرت محی الدینؒ کا قول
ہے کہ الکشف حیض الرجال و الکرامت نفاس الرجال یعنی کشف و کرامت مردوں کا حیض و
نفاس ہے اس کے معنی لوگوں نے یہ لگائے کہ کشف و کرامات نکمی چیز ہے بلکہ اس سے یہ
بات معلوم ہوتی ہے کہ کشف و کرامات اولیاء اللہ سے لازماً سرزد ہوتی ہیں۔ بعض
مرتبہ کسی کو تعلیم کرنے کے لئے اولیاء اللہ ارادتاً کرامت کا اظہار کرتے ہیں اور
بعض دفعہ غیر ارادی طور پر کرامات سرزد ہوتی ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس
سے بزرگ اپنی طاقت کا اظہار کرتے ہیں۔ روحانیت میں کشف و کرامات ثانوی چیزیں ہیں
اور بزرگ اس کو بھان متی کہتے ہیں۔
حضرت غوث علی شاہؒ صاحب
فرماتے ہیں کہ ہمارے دوست مولوی محبوب علی صاحب جب زیارت بیت اللہ شریف سے مشرف ہو
کر واپس آئے تو انہوں نے کہا کہ ہم بمبئی سے چل کر ایک بستی میں آئے وہاں چند روز
رہنے کا اتفاق ہوا۔ شب کو نماز تہجد کے لئے مسجد میں گئے تو دیکھا کہ مؤذن ذکر میں
مشغول ہے۔ جب دل کھینچتا ہے تو غائب ہو جاتا ہے اور الا اللہ کہتا ہے تو موجود یہ
دیکھ کر مجھ کو حیرت ہوئی۔ بعد نماز فجر مسجد سے باہر نکلا تو دیکھا کہ قریب مسجد
کے ایک کنچنی کا مکان ہے اور اس کے دروازہ پر ایک فقیر لنگوٹ بند بیٹھا ہے مجھ کو
دیکھتے ہی بولا کہ مولوی صاحب آپ کو تو بڑا ہی تعجب ہوا خیر کل ہم بھی تماشا
دکھائیں گے۔ دوسرے دن میں بوقت تہجد مسجد میں آیا تو وہ فقیر بھی آ موجود ہوا غسل
کیا اور میری چادر باندھ لی پھر نفی اثبات کرنے لگا۔ جب لا کو کھینچتا تو اس وقت
میں اور وہ فقیر اور مسجد سب نفی ہو جاتی تھی بلکہ میرا علم بھی مفقود ہو جاتا تھا
اسی طرح دس بارہ ضربیں لگائیں پھر لنگوٹ باندھی اور کہا کہ مولوی صاحب اس کو فقیری
نہیں کہتے۔ یہ تو ایک شعبدہ ہے۔ فقیری اور ہی چیز ہے جو زبان پر نہیں آ سکتی۔
ایک روز کسی شخص نے حکیم
محمد حسین پانی پتی سے استفسار کیا کہ تم کو جناب مولوی غوث علی شاہ صاحب کی خدمت
میں حاضر ہوئے عرصہ گزرا بھلا ان کی کوئی کشف و کرامت بھی دیکھی۔ حکیم صاحب نے کہا
کہ نہ اس غرض سے جاتے ہیں اور نہ ہم نے کبھی یہ خیال کیا۔ مگر اس وقت سے یہ خیال
ہو گیا کہ حضرت سے ہم نے کوئی بات نہیں دیکھی۔ دوسرے دن جب حسب عادت آئے تو حضرت
نے ان کو اپنے پاس بٹھایا اور مزاج پوچھا۔ اس کے بعد اور حاضرین کی طرف مخاطب ہو
کر ارشاد فرمایا کہ آج ہمیں ایک نقل یاد آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ابوبکر واسطی جو
بڑے عالم تھے حضرت جنیدؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سال بھر تک ساکت خاموش وہاں کی
صحبت کا رنگ ڈھنگ دیکھتے رہے۔ جب کوئی کشف و کرامت حضرت جنیدؒ کی جو پابند شرع تھے
نہ دیکھی تو دلبرداشتہ ہو کر حضرت سے رخصت چاہی۔ آپؒ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا
بھلا مولوی صاحب آپ برس دن تک رہے نہ اپنی کہی نہ ہماری سنی۔ یہ بات ہے تو کیا ہے۔
اس وقت مواقع پا کر ابوبکر واسطی نے عرض کیا کہ حقیقت میں بات تو یہ ہے کہ میں
بیعت کے ارادہ سے حاضر ہوا تھا۔ سال بھر رہ کر دیکھتا رہا مگر آپ سے کوئی کشف و
کرامت ظاہر نہیں ہوئی۔ وہی عالموں کا سا طور و طریق ہے۔ نماز روزہ تہجد و اشراق
چاشت درس و تدریس جب آپ میں اور عالموں سے کوئی فوقیت نہیں پائی ناچار اجازت چاہی۔
حضرت نے یہ سن کر فرمایا کہ بھلا اس سال بھر میں جنید سے کوئی امر خلاف سنت رسول
اللہﷺ بھی سرزد ہوا؟ ابوبکر نے جواب دیا کہ نہیں۔ اس وقت حضرت نے ہاتھ جھٹک کر
فرمایا کہ جا جنید کی ہی کرامت ہے۔ ہاتھ جھٹک کر یہ کہنا تھا کہ ابوبکر نے کپڑے
پھاڑ کر جنگل کی راہ لی اور بعد چھ مہینے کے پھر آئے تو حضرت نے مثل سابق وہی
ارشاد فرمایا اور جواب پا کر پھر ہاتھ جھٹکا۔ ابوبکر نے نعرہ مارا اور بیابان کا
رستہ لیا۔ غرض جب تیسری دفعہ چھ مہینے کے بعد آئے تو حضرت نے ہاتھ پکڑ کر وہی
ارشاد کیا تو ابو بکر نے کہا کہ میں آپ میں کوئی امر خلاف سنت رسول اللہﷺ نہیں
پاتا مگر یہ کہنا تھا کہ حضرت نے چھاتی سے لگا لیا اور اس حاضر جوابی سے خوش ہو کر
خرقہ خلافت عطا فرما کر رخصت کیا۔ حکیم صاحب کہتے ہیں کہ میں اس نقل کو سن کر مارے
شرم کے پانی پانی ہو گیا اور بہت منفعل ہو ااور پھر بھول کر بھی ایسا خیال دل میں
نہیں لایا۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
"ذہن کو آزاد کر کے کسی
بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور
طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس
کا فیض ہو گا۔"
اس کتاب کی تیاری میں
مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء
اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں
گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے
کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر
محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)
میاں مشتاق احمد عظیمی