Topics

ارادت کی اہلیت


اگر نہ خواستے داد        نہ دادے خواست

                اولیائے کرام کا قول ہے کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کچھ نہ دینا چاہے تو وہ اس چیز کی چاہت اور طلب ہی اس کے دل کو عطا نہیں فرماتا۔

                حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ دولت طلب کے حصول کو نعمت عظمیٰ خیال کرنا چاہئے اور جو کچھ اس کے خلاف ہے اس سے پرہیز کرنا چاہئے تا کہ اس طلب کی راہ میں سستی آنے نہ پائے اور اس حرارت میں ٹھنڈک اثر نہ کرے۔ اس دولت کے ملنے پر شکر کرے اور اپنی طلب پر قائم رہے۔ شوق و درد کی یہ حفاظت شیخ کامل کی خدمت میں پہنچنے کے وقت تک ہے۔ مرشد سے بیعت ہونے کے بعد اپنی تمام مرادیں ان کے حوالے کر دینی چاہئیں جیسے میت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

                مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ مرشد دیکھتا ہے کہ اگر کوئی مرید استعداد رکھتا ہے تو وہ پاک بیج، پاک زمین میں بو دیتا ہے۔ مرشد کی توجہ سے مرید پر اسرار کھلنا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ غیب کی چیزوں کا ملاحظہ کرنے لگتا ہے۔

                انسان خود یہ معلوم کر سکتا ہے کہ وہ ارادت (مرید) بننے کے قابل ہے یا نہیں۔ وہ اس طرح کہ وہ دیکھے کہ اس کے خیالات بالعموم کس قسم کے ہوتے ہیں لہٰذا جس قسم کے خیالات بالعموم اس کے دل میں آئیں گے اسی طرف اس کا رجحان ہو گا۔ جس شخص کے خیال میں اللہ کی محبت اور اس کی بارگاہ کی طرف میلان غالب ہو اور اسے اللہ کی عظمت کا خیال رہتا ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس کے لئے خیر کا ہے خواہ اس کی ذات اپنے خیالات کے مطابق عمل کر رہی ہو خواہ مخالف، اس لئے کہ اگر وہ مخالف اعمال میں پھنسا بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اسے بھلائی، نجات اور ہدایت کی طرف لے آئیں گے۔

                اس کے بعد قوت و ضعف کے اعتبار سے اس قابلیت کے مختلف مراتب ہیں اگر بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ان میں کون چست رفتار اور سست رفتار اور کون متوسط رفتار والا ہے۔ یہی حال ارادت کی اہلیت رکھنے والوں کا ہے چنانچہ بعض اعلیٰ درجہ کی اہلیت کے مالک ہوتے ہیں کہ خداوند کریم کا خیال ہر وقت انہیں لگا رہتا ہے اور بعض ایسے ہیں جنہیں یہ خیال کبھی کبھی آتا ہے۔ اور بعض کی حالت متوسط درجے کی ہوتی ہے۔ اس میں راز یہ ہے کہ انسان کے باطن میں فکر و تخیل، عقل کا ایک نور ہے جس کا فیضان تقدیر الٰہی کے مطابق ذات انسانی پر ہوتا ہے اگر ذات کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا گیا ہو تو عقل اس میں اس کی فکر اور اس کے اسباب کا خیال دل میں ڈال دیتی ہے۔ قابلیت کا اصول خیر و شر کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ یہ ہر اس عمل سے تعلق رکھتا ہے جس کے متعلق تقدیر میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ ذات اسے پا لے گی کیونکہ ان تمام امور میں قابلیت و اہلیت ظاہر ہوتی ہے ۔ ہر شخص کے لئے وہ کام جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہوتا ہے آسان کر دیا جاتا ہے۔ ہر چیز کی قابلیت کا مدار اس کی فکر پر ہے اور ہر شخص کو معلوم ہے کہ اس کے خیالات کس طرف لگے رہتے ہیں، توفیق عطا کرنے والا تو اللہ ہی ہے۔

            

Topics


Adab e Mureeden

میاں مشتاق احمد عظیمی

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

"ذہن کو آزاد کر کے کسی بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس کا فیض ہو گا۔"
                اس کتاب کی تیاری میں مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔                اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)


میاں مشتاق احمد عظیمی