Topics
یونان کے حکماء بقراط Hippocratاور جالینوس Galenاور ان کے شاگردوں نے
علاج معالجے کی بابت جو نظریات پیش کئے اور پھر مسلمان دانشوروں نے ان میں جو
ترامیم اور اضافے کئے ان سے طب یونانی کو فروغ حاصل ہوا۔
ابو جابر مغربی اور اس کے
ہم خیال دانشوروں کی رائے میں طب ایک الہامی فن ہے اور اس کی بنیاد وحی ہے۔ حضرت
شعیب علیہ السلام، حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت دائود علیہ السلام، حضرت لقمان
علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ
علیہ السلام نہ صرف خود بہت بڑے حکیم اور معالج تھے بلکہ ان کے دور میں طب بطور فن
رائج تھا۔ علم طب حضورﷺ کے زمانے میں بھی موجود تھا اور آج بھی حضور نبی کریمﷺ کے
معین کردہ علاج موجود ہیں۔
طب یونانی کے مطابق انسان
چار خلطوں یعنی خون، صفرا، بلغم اور سودا کا مجموعہ ہے۔ اس کے مطابق جب خون اپنی
اصل سے پتلا ہو جائے تو اینمیا یا لو بلڈ پریشر ہو جاتا ہے۔ گاڑھا ہو جائے یا اس
میں معمول سے زیادہ گرمی پیدا ہو جائے تو ہائی بلڈ پریشر ہو جاتا ہے۔ یہ خون جب
کڑوا ہو جاتا ہے تو صفرا بن جاتا ہے اور جب اس میں ایسی خلط پیدا ہو جائے تو جلی
ہوئی ہو تو یہ سودایوت سے تعلق رکھتی ہے۔ مثلاً تلی کا خراب ہونا جس کے نتیجے میں
خون بننے کے نظام میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر جسم کے پانی میں لیس پیدا ہو جائے
تو بلغمی امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح غذائوں کے بھی
چار مزاج بتائے جاتے ہیں کہ جو کہ گرم، سرد، خشک اور تر ہیں۔ جسم انسانی میں حدت،
برودت، تری یا خشکی کا توازن بگڑنے سے خلطوں کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے۔ جسم کی
لطافت اور کثافتوں کا تعلق بھی انہی چار کے توازن کے قائم رہنے پر ہے۔ جسم کا
مدافعتی نظام فاضل اور کثیف مادوں کو خارج کر کے اس میں لطافت پیدا کرتا ہے اور
طبیعت میں بشاشت اور صحت و تندرستی کو برقرار رکھتا ہے۔ معالج اور حکیم انہی باتوں
پر غور کر کے ان خلطوں میں کمی یا زیادتی کا تعین کرتے ہیں اور اس کمی بیشی کی
درستگی کیلئے یا فاسد مادے جو کثافت پیدا کرتے ہوں ان کو جسم سے خارج کرنے کیلئے
مناسب غذائیں اور دوائیں تجویز کرتے ہیں۔
طب یونانی میں خلطوں کو
آپس میں ہم آہنگ کرنے، طبیعت کی حدت، پرودت، خشکی یا تری کو متوازن بنانے اور کثیف
مادوں کو جسم سے خارج کرنے کیلئے جڑی بوٹیوں کے پھل، بیج، پتے، جڑیں اور چھال
وغیرہ کے علاوہ معدنی دھاتوں، عناصر اور مرکبات کا استعمال مختلف طریقوں سے کروایا
جاتا ہے۔
خلطوں کے توازن میں بگاڑ
اور جسم کی گرمی سردی میں کمی بیشی کی جانچ کیلئے نبض شناسی کو طب یونانی نے ایک
نادر فن بنا دیا ہے۔ حاذق حکیموں کو اتنی مہارت اور تجربہ ہوتا ہے کہ وہ محض مریض
کی نبض کی دھڑکن سے اس کے جسم کی خلطوں اور مزاج میں عدم توازن کی وجوہات سے آگاہ
ہو جاتے ہیں اور اس کی درستگی کے لئے مناسب مزاج کے ادویاتی مرکبات اور غذائوں میں
رد و بدل تجویز کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی
روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔
(آمین)
خواجہ
شمس الدین عظیمی
مرکزی
مراقبہ ہال
کراچی