Topics
ہماری دنیاوی زندگی کا
آغاز سانس کی آمد و شد سے ہوتا ہے اور جب تک ہم زندہ رہتے ہیں یہ سلسلہ جاری رہتا
ہے۔ ہم پانی اور غذا کے بغیر تو کچھ دیر زندہ رہ سکتے ہیں لیکن سانس لئے بغیر کتنے
لمحے زندہ رہ سکتے ہیں؟ یہ بات کچھ ڈھکی چھپی بات نہیں۔
کائنات کی ہر شئے سانس
لیتی ہے۔ ہر شئے کے سانس لینے کا طریقہ، رفتار اور دورانیہ مختلف ہوتا ہے۔ نہ صرف
انسان، حیوانات اور نباتات بلکہ جمادات کی زندگی کے تار بھی سانس کی آمد و شد ہی
سے وابستہ ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ پہاڑ بھی سانس لیتے ہیں اور ہماری زمین میں بھی اور
اسی طرح اجرام سماوی بھی اپنی اپنی جگہ سانس لیتے ہیں۔ علمائے باطن کا کہنا ہے کہ
ایک پہاڑ پندرہ منٹ میں ایک بار سانس لیتا ہے۔ اگر اس کا موازنہ انسان کے سانس
لینے کی رفتار یعنی ایک منٹ میں اوسطاً اٹھارہ بیس سانس لینے سے کیا جائے تو یہ
راز منکشف ہو جاتا ہے کہ رفتار تنفس کا انسان اور پہاڑ کی عمر سے براہ راست ایک
تعلق ہے۔ باالفاظ دیگر ایک انسان جتنی دیر میں 270تا 300سانس لیتا ہے ایک پہاڑ
اتنی ہی دیر میں صرف ایک سانس لیتا ہے۔ یعنی انسانی زندگی اور پہاڑ کی عمر میں یہی
تناسب ہوتا ہے۔ اس فارمولے کے مطابق ایک انسان اوسطاً 60سال کی عمر میں جتنے سانس
لیتا ہے اتنے ہی سانس ایک پہاڑ سولہ تا اٹھارہ ہزار سال میں لیتا ہے۔ یعنی پہاڑ
بھی پیدائش کے عمل سے گزر کر فنا کے راستے پر گامزن رہتے ہیں اور اپنے سانسوں کی
مقدار کے مطابق اپنی عمر پوری کر کے ختم ہو جاتے ہیں۔
انسان اپنے جن اعضاء کی
مدد سے سانس لیتا ہے ان کا نام پھیپھڑے قرار دیتا ہے۔ دوسری مخلوقات میں بھی تنفس
کا اپنا اپنا ایک الگ نظام کام کرتا ہے۔ مچھلیوں میں یہ گلپھڑے کہلاتے ہیں اور
کیچوے وغیرہ میں ان کی جلد ہی ان کے تنفس کا ذریعہ ہوتی ہے۔
پرانے علوم میں یوگا اور
آیوروید میں سانس کی آمد و شد پہ قابو پانے اور درست انداز میں سانس لینے پر بہت
زور دیا جاتا ہے۔ ماہر یوگی اپنے تنفس پر قابو پانے میں اتنی مہارت حاصل کر لیتے
ہیں کہ وہ حبس دم کر کے کئی کئی روز تک سانس روکنے کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ سانس کی
رفتار پر قابو پا لینے والے افراد اپنے جسمانی نظام پر اس قدر کنٹرول حاصل کر لیتے
ہیں کہ وہ اپنے دل کے دھڑکنے کی رفتار تک کو اپنی مرضی سے کم یا زیادہ کر سکتے
ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ ہم
مجموعی طور پر سانس درست انداز میں نہیں لیتے اس کے باعث ہمیں درکار توانائی کی
پوری مقداریں حاصل نہیں ہوتیں اور خرچ ہونے والی توانائی کا تناسب مہیا ہونے والی
توانائی سے بڑھ جاتا ہے اس سے ہمارے اندر تھکن اور پژمردگی آ جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے قانون
تخلیق کے مطابق ہر شئے دو رخوں پر تخلیق کی گئی ہے۔ سانس کے بھی دو رخ معین ہیں۔
سانس اندر جانا سانس کا صعودی رخ کہلاتا ہے اور سانس کا باہر آنا سانس کا نزولی رخ
کہلاتا ہے۔ صعودی رخ میں ہمارا ربط باطن سے جڑ جاتا ہے اور نزولی رخ میں ہم اپنے
خارج سے ہم رشتہ ہو جاتے ہیں۔ چونکہ انسان کا وجود اس کے باطن کا مرہون منت ہے اس
لئے ہم جس قدر گہرا اور لمبا سانس لینے کے عادی ہونگے اسی قدر ہمارا تعلق اپنے
باطن سے گہرا ہو گا۔ اور چونکہ ہمارا جسمانی نظام بھی ہمارے اندر ہی سے یعنی باطنی
طور پر ہی کنٹرول ہوتا ہے اس لئے جب ہم اپنے باطن سے ہم رشتہ ہوتے ہیں تو ہمارے
پورے جسمانی نظام پر بھی مفید اثرات مرتب ہونا لازم آتا ہے۔
گہرے سانس لینے سے ہمارے
جسم میں موجود رنگوں کے تمام مراکز توانائی کی مناسب مقداروں سے سیراب ہوتے ہیں۔
جلدی جلدی سانس لینے سے ایک قسم کی توانائی حاصل ہوتی ہے اور اتھلے اور سطحی اور
ناہموار سانس لینے سے توانائی کی پوری مقررہ مقداریں حاصل نہیں ہو سکتیں۔ گہرا اور
ہموار سانس لینے سے نہ صرف ایک بہتر قسم کی توانائی حاصل ہوتی ہے بلکہ ہمارے اندر
کی کثافتیں بھی تحلیل ہوتی رہتی ہیں۔
اگر کسی کا پیٹ باہر کو
نکلا ہوا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے سانس لینے کا طریقہ درست نہیں ہے۔
اس کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ باہر نکالتے وقت سانس اتھلا اور سطحی رہنے سے پیٹ اور
سینے کے عضلات ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کا سب سے بہتر طریقہ
یہ ہے کہ سانس کو باہر نکالنے کا وقفہ دو گنا کر دیا جائے۔ محض چند ہفتے اس طرح
سانس لینے کے طریقہ پر باقاعدگی سے عمل کرنے سے پیٹ کے ڈھیلے اور ڈھلکے ہوئے عضلات
واپس اپنی اصلی حالت میں آ جاتے ہیں۔
ہمارا سانس ہمارے دونوں
نتھنوں سے باری باری، وقفوں سے چلتا ہے۔ کسی وقت سانس دائیں نتھنے سے زیادہ آ جا
رہا ہوتا ہے اور کسی وقت یہ بائیں نتھنے سے جاری ہوتا ہے۔ سانس کے ساتھ ہمارے
نتھنوں سے مختلف رنگ خارج اور جذب ہوتے ہیں۔ سیدھے نتھنے کا تعلق سورج سے اور
بائیں نتھنے کا چاند سے تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح ہمارا ایک نتھنا ہم کو سرخ اور
نارنجی رنگوں سے گرمی فراہم کوتا ہے تو دوسرا ہمیں نیلا اور بنفشی رنگ فراہم کرنے
کا فریضہ ادا کرتا ہے۔ جس وقت سانس ہمارے دونوں نتھنوں سے جاری ہوتا ہے اس وقت ہم
زرد اور سبز رنگ زیادہ جذب کر رہے ہوتے ہیں۔
دائیں بائیں نتھنوں سے
باری باری سانس لینے سے نہ صرف سانس کی نالیاں صاف ہوتی رہتی ہیں بلکہ خرچ ہونے
والے رنگ بھی باری باری جسمانی نظام میں داخل ہو کر ہمارے اعضاء، جلد اور اعصاب کو
تقویت فراہم کرتے رہتے ہیں۔
حضورﷺ نے دائیں کروٹ سونے
کی جو ہدایت فرمائی ہے اس کی حکمت پر غور کرنے سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ اس طرح سونے
سے ہمارا سانس بائیں نتھنے سے چلتا ہے جس کے نتیجے میں نیلا رنگ زیادہ جذب ہوتا ہے
اور اس کی وجہ سے نہ صرف نیند گہری آتی ہے بلکہ ذہن کو سکون بھی زیادہ میسر آتا
ہے۔
جو لوگ سانس لینے کے درست
طریقے پر کاربند رہتے ہیں۔ ان کو صحت اور تندرستی کے مسائل شاذ ہی پریشان کرتے
ہیں۔ جو لوگ اپنے سانس لینے کے طریقے کو درست کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ
سانس کی کسی ایک آدھ مشق سے آغاز کر کے اس پر کاربند ہو جائیں۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا
ہے کہ صرف ٹیلی پیتھی اور اس قسم کے دیگر مابعد الطبعیاتی علوم میں ہی سانس کی
مشقیں کسی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہر وہ شخص جو تندرست
اور توانا رہنا چاہتا ہے صرف سانس لینے کا درست طریقہ اپنا کر اپنی صحت اور
تندرستی کو یقینی بنا سکتا ہے۔
سانس کی مشقوں کی بنیادی
طور پر تین قسمیں ہیں۔ ایک قسم کی مشقوں میں جلدی جلدی تیز سانس لئے جاتے ہیں
مثلاً ایک یا دو سیکنڈ میں ایک سانس لیا جاتا ہے۔ ان مشقوں کا بنیادی مقصد جسم کو
توانائی کی مقداروں کی وافر فراہمی اور ان کو اپنے اندر ذخیرہ کرنا ہوتا ہے۔
دوسری قسم کی مشقوں میں
ناک سے گہرا سانس لے کر روکا اور منہ کے راستے آہستہ آہستہ خارج کیا جاتا ہے۔ اس
میں سانس کو اندر لینے، سینے میں روکنے اور خارج کرنے کے وقفوں میں رفتہ رفتہ
اضافہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً سانس اندر لینے کا وقفہ پانچ سیکنڈ…………سانس روکنے کا وقفہ…………پانچ
سیکنڈ اور منہ سے باہر نکالنے کا وقفہ بھی پانچ سیکنڈ مقرر کر کے ایک وقت میں دس
گیارہ سانس لئے جاتے ہیں۔ پھر جوں جوں سانس پر قابو حاصل ہوتا چلا جاتا ہے یعنی
سانس کو روکنے اور نکالنے میں دشواری محسوس نہیں ہوتی تو سانس کو باہر نکالنے کا
وقفہ رفتہ رفتہ بڑھایا جاتا ہے اور اس دورانیہ کو ۰۱ تا ۵۱ سیکنڈ پر لے جاتے ہیں۔
جب اس عمل کی مشق ہو جاتی ہے اور مہارت بڑھتی ہے تو سانس اندر لینے کا وقفہ بڑھایا
جاتا ہے اور اس کو بھی ۰۱
یا ۵۱
سیکنڈ تک لے جاتے ہیں۔
اس کے بعد سانس کو سینے
میں روکنے کا وقفہ ایک ایک سیکنڈ کر کے بڑھایا جاتا ہے۔ اس مشق میں سانس باہر
نکالتے وقت منہ کو سیٹی بجانے کے انداز میں گول کر لینے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اس
قسم کی مشقوں سے جسم میں موجود رنگوں کے مراکز بھرپور سیراب ہوتے ہیں ان میں درکار
رنگوں کا ذخیرہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جسم سے کثافتیں تحلیل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
اعصاب کو توانائی مہیا ہوتی ہے اور کئی قسم کی بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے جسمانی
اور روحانی صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے۔
ایک اور قسم کی مشقوں میں
سانس کو بائیں نتھنے سے لے کر کچھ دیر تک روکنے کے بعد دائیں نتھنے سے خارج کیا
جاتا ہے اور پھر دائیں سے لے کر کچھ دیر روکنے کے بعد بائیں نتھنے سے خارج کر کے
اس کو ایک چکر تصور کرتے ہوئے اس طرح کے ایک وقت میں گیارہ بارہ چکر کی مشق کی
جاتی ہے۔ اس قسم کی مشق کرنے سے جسم میں تمام رنگ وافر مقداروں میں جذب ہوتے ہیں۔
باطنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور ضائع شدہ توانائی بحال ہو جاتی ہے۔
صبح سویرے طلوع آفتاب سے
قبل سانس کی مشقوں کے فوائد دو چند ہو جاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ
اگر صبح سویرے مشق نہ کی جا سکے یا یہ کہ وقت نکل جائے تو مشق ہی چھوڑ دی جائے
بلکہ جب بھی موقع ملے تو اپنی سہولت کے ساتھ مشق کر لی جائے اس سے سو فیصد نہ سہی
تو پچاس ساٹھ فیصد فوائد تو حاصل ہو ہی جائیں گے جو کہ کچھ نہ ہونے سے تو بہرحال
بہتر ہی ہیں۔
صبح سویرے فضا میں نیلے
اور پھر نارنجی رنگ کی فراوانی ہوتی ہے۔ اس لئے اس وقت گہرے گہرے سانس لینے سے یہ
رنگ نبستاً زیادہ جذب ہوتے ہیں اور جسم میں ذخیرہ ہو کر دن بھر کیلئے درکار
توانائی فراہم کرتے ہیں۔
ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی
روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔
(آمین)
خواجہ
شمس الدین عظیمی
مرکزی
مراقبہ ہال
کراچی