Topics
انسان محض مادی اجزاء میں
ظہور ترتیب ہی کا نام نہیں بلکہ انسان کے اندر ایک ایسی ایجنسی کام کر رہی ہے جو
اس کے مادی جسم کو سنبھالے ہوئے ہے۔ روحانی علوم جاننے والے اس مادی جسم کو محض
ایک لباس قرار دیتے ہیں جس کو روح اپنے لئے خود بناتی، استعمال کرتی اور ایک معین
مدت کے بعد اتار کر پھینک دیتی ہے۔ علمائے باطن اس روح کو ہی اصل انسان قرار دیتے
ہیں اور بتاتے ہیں کہ روح اپنے لئے روشنیوں کا ایک وجود بناتی ہے اس کے اوپر وہ
رنگوں سے بنا ہوا ایک جسم اوڑھ لیتی ہے اور آخر میں وہ اس مادی وجود کو اپنا کر اس
عالم ناسوت میں اپنا وقت گزار کر اس جسم کو چھوڑ کر ایک اور نئے عالم میں داخل ہو
جاتی ہے۔
روحانی عالموں کے نزدیک
انسان کی بنا وہم اور یقین پر ہے۔ مذاہب اسی کو شک اور ایمان کہتے ہیں اور بتاتے
ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسی لئے شک کو دماغ میں جگہ دینے سے منع فرماتے ہیں اور ذہن
میں یقین کو پختہ کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ انسان کے دماغ کا محور یقین اور شک کی دو
طاقتوں پر ہے۔ یہ یقین اور شک ہی کی طاقت ہے جو دماغی خلیوں میں ہمہ وقت عمل کرتی
رہتی ہے۔ جس قدر شک کی زیادتی ہوتی ہے اسی قدر خلیوں میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہوتی ہے۔
چونکہ جسم کے تمام اعصاب اور رگ پٹھے انہی خلیوں کے زیر اثر کام کرتے ہیں اس لئے
ان خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ سے اعصاب کی تحریکات میں خلل پڑتا ہے جو بڑھ کر باقاعدہ کسی
بیماری یا مرض کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
دراصل آدمی کا دماغ خود
اس کے اپنے اختیار میں ہے اور وہ یقین کی طاقت سے خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ میں کمی لا
سکتا ہے۔ دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ میں کمی سے اعصاب کو پہنچنے والا نقصان اور ضرر
بھی کم ہو جاتا ہے۔
روح کی تعریف جو الہامی
اور آسمانی کتب میں بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ روح رب کا امر ہے اور اس امر کی شان
یہ ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے کسی بات کا تو کہتا ہے ‘‘ہو جا’’ اور وہ ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی اصل معنویت اور حقیقی مفہوم سے ناواقفیت وہم اور شک کو
بڑھاتی ہے اور نتیجہ میں یقین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ شک اور یقین
انفرادی بھی ہوتا ہے اور اجتماعی بھی، اگر کسی قوم میں یقین کی نسبت بے یقینی اور
تواہمات زیادہ ہو جائیں تو اس کی دو ممکنہ صورتیں بنتی ہیں۔ جب اس بے یقینی اور شک
کا رخ اوپر کی طرف ہوتا ہے تو آفات سماوی نازل ہوتی ہیں اور جب نیچے کی سمت ہوتا
ہے تو آفات ارضی آتی ہیں۔ جب آفات آسمان سے نازل ہوتی ہیں تو بکھر کر پوری قوم کے
ذہن اور اعصاب کو متاثر کرتی ہیں۔ جب قوم گروہوں میں منتشر ہو جاتی ہے اور گروہوں
کا یقین مختلف ہوتا ہے تو شک زمین کی سطح پر پھیل جاتا ہے اس انتشار سے آفات ارضی
حرکت میں آ جاتی ہیں اور پھیل جاتی ہیں چنانچہ زلزلے، سیلاب اور وبائیں وغیرہ ظہور
میں آتی ہیں۔ کبھی کبھی خانہ جنگی بھی ہوتی ہے جس سے قوم اور اس کے افراد کا
اعصابی نظام تباہ ہو جاتا ہے اور طرح طرح کی نت نئی بیماریاں وجود میں آتی اور
پھیلتی ہیں۔
وہ لوگ جو یقین کی راہوں
پر چل نکلتے ہیں وہ کسی عمل کی تکرار سے اپنے ذہن کو بار بر حرکت دیتے ہیں۔ یہاں
تک کہ وہ اپنے اندر ارادے کی وہ قوت جگا لیتے ہیں جس کے زیر اثر بگڑے کام سنور
جاتے ہیں۔ مشق کے ذریعہ ان کی مہارت جتنی بڑھتی ہے اسی قدر ان کو قوت ارادی کے
ذریعے کام لینے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو عامل کہا جاتا ہے۔ اصل عامل
بہت ہی شاذ ہوتے ہیں۔ دنیا کے ہر علاقے اور خطے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں اور ہر
علاقے میں وہاں کی اپنی زبان کے مطابق لوگ ان کا نام رکھ دیتے ہیں۔ اللہ والے،
پیر، فقیر، پہنچے ہوئے، عامل، سادھو، سنیاسی، وچ ڈاکٹر اور جپسی وغیرہ سب اسی
صلاحیت کے حامل افراد کے مختلف نام ہیں۔
یہ لوگ اپنے یقین کی
روشنیاں مریض کو منتقل کر کے اس کو بیماری اور تکلیف سے نجات دینے کی کوشش کرتے
ہیں۔ روحانی معالجین مریض کے اندر یقین کا پیٹرن بنانے کیلئے الہامی کتابوں کے الفاظ
پڑھ کر پھونکنے، الفاظ، ہندسوں یا کچھ مخصوص اشکال سے تعویذ بنا کر دینے یا مریض
کو کچھ مخصوص الفاظ و کلمات پڑھنے، ان کا ورد کرنے یا جاپ کرنے کا طریقہ تعلیم
کرتے ہیں۔ جب کوئی روحانی معالج اپنے یقین کی طاقت کے بل پر کسی مریض کی حالت میں
تبدیلی لاتا ہے تو اس کو اس کا تصرف مانا جاتا ہے۔ ان کا یہ تصرف براہ راست مادی
اجسام میں نہیں بلکہ ان روشنیوں یا لہروں میں تبدیلیاں لاتا ہے جو مادی اجسام کو
سنبھالنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں اور پھر وہاں سے وہ اثرات مادی اجسام میں منتقل ہو
جاتے ہیں۔
اس طریقہ علاج پر جو
مستند کتابیں دستیاب ہیں ان میں الشیخ خواجہ شمس الدین عظیی صاحب کی کتاب ‘‘روحانی
علاج’’ اپنی گوناگوں خوبیوں کے سبب بہت مقبول ہوئی ہے اور اس میں دیئے گئے طریقے
کے مطابق مریض نہ صرف اپنا علاج خود کر سکتے ہیں بلکہ وہ دوسرے لوگوں کیلئے بھی
شفا کے حصول میں معاونت کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی
روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔
(آمین)
خواجہ
شمس الدین عظیمی
مرکزی
مراقبہ ہال
کراچی