Topics
جب جسم کے ایک یا ایک سے
زائد مراکز میں رنگوں کی معین مقداروں کا تناسب بگڑ جاتا ہے تو نت نئے امراض پیدا
ہو جاتے ہیں۔ بگڑے ہوئے توازن کو درست کر دیا جائے اور رنگوں میں فطری اعتدال بحال
ہو جائے تو مرض کا علاج ہو جاتا ہے اور مریض شفا پا کر صحت مند زندگی کی طرف پلٹ
آتے ہیں۔
کروموپیتھی طریقہ علاج کے
مطابق مریض میں مطلوبہ رنگ کو منتقل کرنے کے بنیادی طور پر چار طریقے ہیں۔
۱۔ ذہن کی طاقت اور یکسوئی کی صلاحیت کو بروئے کار لا کر
مطلوبہ رنگ جذب کر کے رنگوں کے توازن کو بحال کئے جانے کے طریقے کو اصطلاحاً رنگ
اور روشنی کا مراقبہ کا نام دیا جاتا ہے۔
۲۔ انسان کے اندر رنگوں کے انجذاب کا ایک طریقہ رنگوں کو
آنکھوں کے راستے اپنے اندر جذب کرنا ہے۔ اس طریقہ میں مریض کو مختلف رنگ دیکھنے کی
ترغیب دی جاتی ہے۔
۳۔ اگر کسی مرض میں جسم کے کسی ایک آدھ عضو کو ہی کوئی رنگ
فراہم کیا جانا ضروری ہو یا مریض مندرجہ بالا دونوں طریقوں میں سے کسی ایک پر بھی
عمل کرنے پر آمادہ نہ ہو تو اس صورت میں مریض کو مطلوبہ رنگ کی روشنی میں رکھا
جاتا ہے۔
۴۔ مطلوبہ رنگوں کی فراہمی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ رنگین
شعاعوں کو پہلے کسی مادی چیز پر مثلاً پانی، دودھ، تیل وغیرہ میں جذب کیا جاتا ہے
اور پھر اس کو مقررہ مقداروں میں مریض کو استعمال کروایا جاتا ہے۔
۱۔ ذہن
کی طاقت(مراقبہ) سے رنگ جذب کرنا:
انسانی ذہن میں قدرت نے
ایسی صلاحیت رکھ دی ہے جس کے تحت وہ خیال کی لہروں کو ہی رنگوں کی لہروں کے برابر
تموج اور طول موج کا حامل بنا کر انہیں اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔ رنگوں کو یوں
تو ہم غیر اختیاری اور لا شعوری طور پر ہمہ وقت جذب کرتے رہتے ہیں اور انہی جذب
شدہ رنگوں سے حاصل ہونے والی توانائی کو اپنے استعمال میں لاتے ہیں لیکن جب ہم اپنے
ارد گرد سے کٹ کر اپنی ذات سے متعلق مسائل میں ہی الجھے رہتے ہیں اور ہماری سوچیں
ہماری ذات کی حدود میں ہی مقید ہو جاتی ہیں تو فضا سے ملنے والی رنگین لہروں کا
انجذاب رک جاتا ہے لیکن خرچ برقرار رہتا ہے۔ اس سے بالآخر ہمارے جسم میں رنگوں کا
توازن بگڑ جاتا ہے اور ہماری صحت متاثر ہو جاتی ہے۔
جس طرح ورزش اور دیگر
عملی مشقوں سے جسمانی خطوط میں تبدیلی پیدا کی جا سکتی ہے اسی طرح مراقبہ کے ذریعے
ذہنی حرکات پر قابو پا کر اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ بات ہمارے
سامنے ہے کہ خیالات یا ذہنی کیفیات ہمارے اوپر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اگر کسی
خیال میں خوف و دہشت کا عنصر شامل ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ہاتھ پیروں میں
سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ جسم بے جان محسوس ہوتا ہے۔ ذہنی پراگندگی میں مبتلا رہنے سے
کوئی شخص اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو مجتمع نہیں کر پاتا۔
آرام کرنے کا مطلب صرف یہ
سمجھا جاتا ہے کہ آدمی لیٹا رہے یا کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے جسمانی توانائی
ضائع ہو۔ لیکن آرام کی یہ تعریف نامکمل ہے۔ بہت سے افراد بظاہر پر سکون دکھائی
دیتے ہیں لیکن اندرونی طور پر پریشان خیالی میں مبتلا رہتے ہیں۔ خیالات کے تانوں
بانوں میں الجھے رہنے سے دماغ تھک جاتا ہے اور توانائی کا ذخیرہ تیزی سے خرچ ہوتا
ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ذہنی یکسوئی تندرستی کیلئے ضروری ہے اور مسلسل پریشان
رہنے سے بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ توانائی زیادہ مقدار میں خرچ ہونے سے قوت
مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے اور امراض حملہ کر دیتے ہیں۔
اعصابی قوت مضمحل ہو جائے
تو دماغی افعال سست پڑ جاتے ہیں۔ قویٰ میں کمزوری آ جاتی ہے اور قوت حافظہ متاثر
ہوتی ہے۔ قوت فیصلہ کم ہونے کی بناء پر زندگی کے مراحل میں خاطر خواہ کامیابی حاصل
نہیں ہوتی۔ تجربات نے بھی یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ذہنی الجھائو کا نتیجہ بالآخر
جسمانی بیماری کی صورت میں نکلتا ہے۔ ذہن کی پیچیدگی براہ راست اور بالواسطہ دل کے
امراض، پتہ اور گردوں میں پتھری کا باعث بنتی ہے۔ متواتر ذہنی دبائو سے اعصابی
نظام میں ناقابل علاج شکست و ریخت بھی ہو سکتی ہے۔ منفی خیالات سے معدے کا السر،
تیزابیت اور قبض لاحق ہو جاتا ہے۔
طبی اور جسمانی لحاظ سے
ہر رنگ اور روشنی کے الگ الگ خواص ہیں۔ جب کسی روشنی کا مراقبہ کیا جاتا ہے تو ذہن
میں کیمیاوی تبدیلیاں پیدا ہونے لگتی ہیں اور دماغ میں مطلوبہ روشنی کو جذب کرنے
کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ جو امراض ذہنی خلیوں میں ٹوٹ پھوٹ سے پیدا ہوتے ہیں ان کے
تدارک کے لئے رنگوں اور روشنیوں کے مراقبے تجویز کئے جاتے ہیں۔
نوٹ: کسی رنگ یا روشنی کا
مراقبہ کیا جائے۔ اس کے لئے کسی استاد یا کروموپیتھ کی رہنمائی اشد ضروری ہے۔ خود
اپنے طور پر کسی رنگ کا تعین کر لینے میں غلطی ہونے کی صورت میں جسم میں اس رنگ کی
زیادتی بھی ہو سکتی ہے۔
نیلی روشنیوں سے دماغی
امراض، گردن اور کمر میں درد، ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کی خرابی، ڈپریشن، احساس
محرومی، کمزور قوت ارادی سے نجات مل جاتی ہے۔
مراقبہ کا طریقہ یہ ہے:
یہ تصور کیا جائے کہ میں
آسمان کے نیچے ہوں اور آسمان سے مطلوبہ یا تجویز کردہ رنگ کی روشنی اتر کر میرے
دماغ میں جمع ہو رہی ہے اور پورے جسم سے گزر کر پیروں کے ذریعے زمین میں ارتھ ہو
رہی ہے۔ رنگ و روشنی کا مراقبہ مرض کی شدت کے مطابق دن میں ایک، دو یا تین بار ۵۱ سے ۰۲ منٹ کیا جانا چاہئے۔
نظام ہضم، حبس ریاح،
آنتوں کی دق، پیچش، قبض، بواسیر، معدہ کا السر وغیرہ کیلئے نہایت ہی موثر علاج ہے۔
زرد رنگ کے مراقبہ میں یہ
تصور کیا جاتا ہے کہ زرد رنگ و روشنی آسمان سے اتر کر دماغ میں جذب ہوتے ہوئے پیٹ
میں معدے اور آلات انہضام میں جمع ہو رہی ہے۔
سینے کے امراض مثلاً دق،
سل، پرانی کھانسی، دمہ وغیرہ کیلئے مفید علاج ہے۔ ایک صاحبہ کو سل کا مرض تھا۔ دو
سال سے ان کے پھیپھڑے اس قدر متاثر تھے کہ انہیں خون کی الٹیاں ہو جاتی تھیں۔
انہیں نارنجی روشنیوں کے مراقبہ کے ساتھ نارنجی شعاعوں کا تیل مالش کیلئے بتایا
گیا۔ دو ماہ کے علاج سے ان کے اندر یہ تبدیلی آئی کہ خون کی الٹیاں پہلے کی نسبت
بہت کم ہو گئیں۔ چھ ماہ کے بعد اللہ کے فضل و کرم سے انہیں اس موذی مرض سے نجات مل
گئی۔
ہائی بلڈ پریشر اور خون
میں حدت سے پیدا ہونے والے امراض، جلدی امراض، خارش، آتشک، سوزاک، چھیپ وغیرہ کا
علاج ہے۔ سبز روشنی کا مراقبہ کرنے سے پورے جسمانی نظام میں ایک توازن اور ہم
آہنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ جذبات میں شدت اور غیر صحتمندانہ رجحانات سے نجات کے لئے اس
رنگ کا مراقبہ نہایت مفید نتائج مرتب کرتا ہے۔
لو بلڈ پریشر، اینمیا،
گٹھیا، دل کا گھٹنا، دل کا ڈوبنا، توانائی کا کم محسوس کرنا، بزدلی، نروس بریک
ڈائون، دماغ میں مایوس کن خیالات آنا، موت کا خوف، اونچی آواز سے دماغ میں چوٹ
محسوس ہونا وغیرہ کیلئے سرخ روشنی کا مراقبہ کرایا جاتا ہے۔
مردوں کے جنسی امراض اور
خواتین کے اندر رحم سے متعلق امراض کا علاج ہے۔ ذہنی یکسوئی اور غدودوں کی
کارکردگی میں بہتری کے لئے جامنی روشنی کا مراقبہ بہت مفید نتائج مرتب کرتا ہے۔
مرگی، دماغی دورے، ذہن
اور حافظہ کا مائوف ہونا، ڈر اور خوف، عدم تحفظ کا احساس، زندگی سے متعلق منفی
خیالات آنا، دنیا بیزاری سے نجات پانے کیلئے مئوثر علاج ہے۔
۲۔ دیکھ
کر رنگ جذب کرنا:
اللہ تعالیٰ نے ذہن
انسانی میں ایسی صلاحیت رکھ دی ہے کہ وہ ماحول سے اپنی ضرورت کے رنگ خود ہی جذب
کرتا رہتا ہے لیکن جب کبھی انسان طرز فکر میں پیچیدگی یا الجھائو کے سبب ذہن کی اس
کارکردگی میں رکاوٹ پیدا کر لیتا ہے جس کے تحت وہ اپنے ماحول سے منعکس ہونے والے
رنگوں کو جذب کرنے کا خوگر ہوتا ہے تو معالج مریض کو اس کی ضرورت کے رنگوں کی طرف
متوجہ کرنے کیلئے یہ طریقہ اختیار کرتا ہے کہ وہ مریض کو ایک خاص سائز کا مطلوبہ
رنگ کیا ہوا شیشہ دیکھنے کی ہدایت کرتا ہے۔ عموماً اس شیشہ کا سائز 9x12انچ
مناسب رہتا ہے۔ رنگ کئے ہوئے شیشے کی بجائے کپڑے کا ٹکڑا یا کوئی اور رنگین چیز
بھی دیکھنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔
مثلاً قوت ارادی میں
کمزوری کو دور کرنے کے لئے مریض کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ایک ٹوکری میں نارنگیاں
بھر کر اپنے کمرے میں رکھ لے اور دن میں تین چار مرتبہ ۰۱ تا ۵۱ منٹ لگاتار ان کو ٹکٹکی
باندھ کر دیکھا کرے۔ اس عمل سے مریض میں نارنجی رنگ کی کمی دور کرنے میں مدد ملتی
ہے۔
۳۔ مریض
پر رنگین روشنیاں ڈالنا:
جب کسی مریض کا ذہن اس
بات پر آمادہ نہیں ہوتا کہ وہ خود اپنے ذہن کی قوت کو بروئے کار لا کر اپنی ضرورت
کے رنگ جذب کر لے تو اس صورت میں معالج اس پر مطلوبہ رنگ کو مریض پر شعاعوں کی
صورت ڈالنا تجویز کرتا ہے۔ اس کے عموماً دو ہی طریقے مستعمل ہیں۔ پہلا یہ کہ کمرے
میں اس کھڑکی پر جہاں سے دھوپ کمرے میں آتی ہو، رنگین شیشے لگا دیئے جائیں اور
مریض کو اس وقت اس رنگ کی روشنی میں بٹھا یا لٹا دیا جاتا ہے جب دھوپ مطلوبہ رنگ
کی شعاعوں میں ڈھل کر کمرے میں آ رہی ہو۔
دوسرا طریقہ مطلوبہ رنگ
کی برقی رو روشنی کا استعمال کرنا ہے۔ اس صورت میں مطلوبہ رنگ کا بجلی کا رنگین
بلب لیمپ کے شیڈ میں لگا کر اس کی روشنی مریض کے متعلقہ اعضاء پر ڈالی جاتی ہے۔
پندرہ سے بیس منٹ کے اس عمل سے بھی مریض کے اندر مطلوبہ رنگ کی مقداریں منتقل ہو
کر اس کی صحت اور تندرستی کی بحالی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
۴۔ مطلوبہ
رنگ کسی واسطے سے جسم میں داخل کرنا:
اس طریقہ کے مطابق رنگین
لہروں کی فریکوئنسی کو پہلے کسی مادی شئے مثلاً پانی، عرقیات، دودھ، شربت یا تیل
وغیرہ میں جذب کر لیا جاتا ہے۔ روشنی کی رنگین لہروں کو پانی وغیرہ میں جذب کرنے
کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ مطلوبہ رنگ کی ایک بوتل میں ۴؍۳ حصہ تک ابلے ہوئے پانی
سے بھر کر اس کو دو سے چھ گھنٹے تک دھوپ میں کسی غیر موصل سطح ترجیحاً لکڑی پر رکھ
دیا جاتا ہے۔ اس بوتل کو دھوپ سے ہٹا لینے کے بعد بھی لکڑی پر ہی رکھنا چاہئے تا
کہ لہروں کی فریکوئنسی ارتھ نہ ہونے پائے۔ مادی اشیاء میں اس طرح رنگ جذب کرنے کا
یہ عمل کروموٹائزیشن Chromotizationکہلاتا
ہے۔ یہ پانی روز کے روز تیار کر کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح تیل کو بھی
کروموٹائز (Chromotize) کیا
جاتا ہے لیکن اس کیلئے تیل کو کم از کم چالیس دن تک دھوپ میں رکھا جاتا ہے یا پھر
لگاتار ۰۰۲
گھنٹے تک روشنی کی رنگین شعاعوں کو تیل میں جذب کیا جاتا ہے۔ جہاں کہیں رنگوں کی
کمی کو کسی ایک آدھ عضو میں پورا کرنا مقصود ہو تو اس تیل کی مالش کی جاتی ہے۔ بعض
حالتوں میں دودھ کو بھی مختلف رنگوں سے کروموٹائز کر کے مریض کیا پلایا جاتا ہے۔
خصوصاً چھوٹے بچوں کے لئے دودھ کو رنگین لہروں میں ایک دو گھنٹے رکھنے سے اس دودھ
میں شفا بخشی کی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے اور الگ سے دوائیں وغیرہ نہیں دینا پڑتیں۔
اسی طرح سے ملک آف شوگر
کی گولیاں اور ڈسٹلڈ واٹر کے امپیول وغیرہ بھی کروموٹائز کر کے استعمال کئے جاتے
ہیں۔ اس کے لئے ان کو کم از کم ۰۰۲
گھنٹے تک رنگین روشنیوں کی شعاعوں یا روشنی کی رنگین لہروں میں رکھا جاتا ہے۔
رنگین لہروں کو مریض کو
فوری طور پر مہیا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ مطلوبہ رنگ کی
کھلے منہ کی ایک خالی بوتل لے کر اس کو ڈھکن سے اچھی طرح بند کر کے دھوپ میں کسی
لکڑی پر پانچ سے دس منٹ تک رکھ دیں۔ اس سے بوتل کے اندر کی ہوا کروموٹائز ہو جائے
گی۔ مریض اس ہوا کو زور سے سونگھنے کے انداز میں سانس کے ذریعے اپنے اندر سمیٹ
سکتا ہے۔
رنگین شعاعوں سے مختلف
اشیاء کو کروموٹائز کرنے کا تفصیلی طریقہ الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی
مندرجہ ذیل کتابوں میں وضاحت سے درج کیا گیا ہے۔
۱۔
رنگ اور روشنی سے علاج
۲۔
کلر تھراپی
ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی
روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔
(آمین)
خواجہ
شمس الدین عظیمی
مرکزی
مراقبہ ہال
کراچی