Topics
انسان کے اندر تلاش،
جستجو، تفکر، ایقان، وجدان اور مشاہدے کی صفات کام کر رہی ہیں جب کوئی انسان ان
تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کے استعمال کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تو
آفاقی قوانین اس کے اوپر منکشف ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ انسان
نے اپنے اوپر عصبیت، جہالت اور خود غرضی کی چادر اوڑھ رکھی ہے اور وہ روز بروز
روشنی سے دور ہو کر اندھیروں کا شکار بنتا چلا جا رہا ہے۔
روشنی کے مناسب اور درست
استعمال سے عدم واقفیت کے سبب اکثر لوگ بے شمار جسمانی اور اعصابی امراض کا شکار
ہو رہے ہیں۔ ان امراض میں ذہنی اور جذباتی بیماریاں، بے راہ روی سے پیدا ہونے والے
امراض مثلاً ایڈز، کینسر، بے خوابی اور بلڈ پریشر کے علاوہ پیچیدہ اور لا علاج
امراض شامل ہیں۔ جہاں روشنی ایک طرف جمادات، نباتات اور حیوانات کو زندگی فراہم
کرتی ہے وہاں دوسری طرف یہی روشنی ان کی زندگی کو برقرار رکھنے کی بھی ضامن ہے۔
زندگی کے قیام کیلئے روشنی مختلف رنگوں میں منقسم ہو کر وسائل فراہم کرتی ہے۔
مختلف رنگ نہ صرف دیکھنے میں دیدہ زیب نظر آتے ہیں بلکہ یہ ہمارے ذہن، احساسات اور
جسم کی نشوونما، صحت اور تندرستی کے بھی ضامن ہیں۔
کروموپیتھی یعنی رنگ و
روشنی سے علاج کا تصور یوں تو صدیوں سے موجود رہا اور رنگوں کے ا ثرات اور افادیت
کے لوگ ہمیشہ سے قائل بھی رہے لیکن اس علم کو پیچیدہ اور لاعلاج بیماریوں کیلئے
باقاعدہ طور پر استعمال کرانے کا سہرا پاکستان کے معروف روحانی سکالر جناب الشیخ
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے سر جاتا ہے جنہوں نے 1960ء سے ملک کے اخبارات،
جرائد اور رسائل میں اپنے کالموں میں اس طریقہ علاج کو متعارف کروایا۔ تقریباً
18لاکھ سے زائد افراد کو مشوروں سے نوازنے اور انکا علاج کرنے کے بعد انہوں نے اس
علم کو عام کرنے کیلئے 1978ء میں ‘‘رنگ و روشنی سے علاج’’ نامی کتاب لکھی جو کہ ان
کے سال ہا سال کے تجربات پر مبنی علم کا ایک خزینہ ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اس
طریقہ علاج کو عام فہم، سہل و آسان اور مقبول بنانے اور اس سے عملی طور پر استفادہ
حاصل کرنے کیلئے حال ہی میں ایک اور کتاب ‘‘کلر تھراپی’’ کے نام سے لکھی ہے۔ اس
کتاب میں انہوں نے رنگوں سے علاج کے اصول، قوائد و ضوابط بیان کرنے کے علاوہ رنگوں
کے خواص اور ان سے مختلف بیماریوں سے شافی علاج تجویز کرکے عوام اور خواص کو دعوت
دی ہے کہ وہ اس طریقہ علاج کو آزمائیں اور اس کے مفید اثرات سے مستفیض ہوں۔
اب تک لاکھوں افراد اس
طریقہ علاج سے مستفید ہو کر اس کی افادیت کے قائل ہو چکے ہیں۔ ملک کے طول و عرض
میں ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں دنیا بھر میں ان کے شاگردان رشید موجود ہیں۔ اس طریقہ
علاج پر عمل کرتے ہوئے لاکھوں بندگان خدا بیماریوں سے شفا پا رہے ہیں اور صحت مند
زندگی سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ ان کی کاوشوں سے پشاور انسٹیٹیوٹ آف کروموپیتھی کا
آغاز ہوا ہے۔ اس انسٹیٹیوٹ میں رنگ و روشنی سے علاج پر تحقیق کے علاوہ اس علم کی
باقاعدہ تدریس و تعلیم کا اہتمام کیا گیا ہے۔
زیر نظر کتاب میں ان کے
واضح کردہ نظام علاج سے استفادہ کرتے ہوئے کروموپیتھی۔ رنگ و روشنی سے علاج کے علم
کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے حواس طریقہ علاج کو عوام
میں رائج اور مقبول کرنے میں ممد معاون ہونگی۔
ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی
روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔
(آمین)
خواجہ
شمس الدین عظیمی
مرکزی
مراقبہ ہال
کراچی