Topics
سوال: تصوف کا مقصد و منشا یہ ہے کہ آدمی
اللہ تعالیٰ کو پہچان لے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ سڑی ہوئی مٹی سے بنا ہوا آدمی،اللہ
رب العزت جیسی پر عظمت ہستی کو دیکھ لے۔ کیونکہ دیکھے بغیر پہچاننا ممکن نہیں؟ اس
کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: تخلیق کائنات کی ابتداء کو جس طرح
اہل روحانیت بتاتے ہیں اگر قلم بند کیا جائے تو وہ اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے
ماسوا کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں ایسی مخلوق پیدا کروں
جو مجھے جانے اور پہچانے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے فارمولے اپنے ذہن میں کیا بنائے
وہ خود جانتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہ بات چاہی او رپسند کی کہ کائنات کو
تخلیق کیا جائے۔ چنانچہ کائنات کو پورے خدوخال اور عمل و حرکت کے ساتھ جو اللہ
تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ’’کن‘‘ کہہ کر وجود کا لباس پہنا
دیا۔ کائنات (بشمول انسان اور جنات) وجود میں تو آ گئی لیکن کسی کو یہ علم نہیں
تھا کہ وہ کون ہے؟ کیوں ہے؟ اور کیا ہے؟
اور کس لئے ہے؟ اس مرحلے پر اللہ تعالیٰ
نے انسانوں،جنات،فرشتوں اور پوری کائنات کو ان کی حیثیت سے آگاہ کیا۔ یعنی انہیں
یہ علم بخشا کہ تمہارا ایک وجود ہے۔ چنانچہ فرمایا الست بربکم (میں ہوں تمہارا رب)
مخلوق کے دماغ کے پردے پر دو باتیں وارد ہوئیں۔ ایک یہ کہ اسے اپنی موجودگی کا
احساس ہوا۔ دوسرے یہ کہ اسے یہ علم حاصل ہو کہ مجھے پیدا کرنے والی میرے علاوہ
کوئی ہستی ہے۔ مخلوق نے جب اللہ تعالیٰ کی آواز سنی تو اس کے اندر فہم و ادراک اور
نظر پیدا ہو گئی اور دریائے حیرت سے نکل کر اس نے آواز کی جانب دیکھا۔ جیسے ہی اسے
نظر ملی۔ نظر کی مرکزیت اللہ تعالیٰ قرار پائے۔ دیکھنے کے بعد مخلوق نے کہا۔ قالو
بلیٰ جی ہاں! ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔
تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ
تخلیق کے پروگرام سے اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ اسے جانا پہچانا جائے۔ چنانچہ
اللہ تعالیٰ نے پہچاننے کے بے شمار راستے متعین کئے ہیں اور مختلف نوعوں کو
پہچاننے کی مختلف صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ حاملان عرش ملائکہ سماوی، کروی اور ملائکہ
عنصری سب ہی اللہ تعالیٰ کا عرفان رکھتے ہیں۔ جنات کو بھی اللہ تعالیٰ کے عرفان کی
صلاحیت دی گئی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کرداروں میں سب سے زیادہ باصلاحیت
انسان کو بنایا ہے۔ یعنی انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیتیں ودیعت کر دی
ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو کائنات کی تمام مخلوقات سے زیادہ قریب سے پہچان سکتا ہے
اللہ تعالیٰ نے کائنات میں ایک کردار جس کو آدم کہا گیا ہے کو اپنے خصوصی عرفان کے
لئے منتخب کیا اور اسے اپنی صفات کا براہ راست علم بخشا اور یہ علم عطا فرمانے کے
بعد اس بات کو بھی ظاہر فرما دیا کہ صفات کا یہ خصوصی علم صرف انسان کو حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور ہم نے آدم کو اسماء(صفات) کا علم
سکھایا، پھر ان اسماء کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا اگر تم اس علم کو جانتے
ہو تو بیان کرو۔‘‘
فرشتوں نے جواب دیا کہ ’’ہم آپ کی پاکی
بیان کرتے ہیں اور اس علم سے بے خبر ہیں۔‘‘
بات بالکل واضح ہے کہ آدم بشمول کائنات
اللہ تعالیٰ کا ذہن ہے اور اس کو کائنات سے ہٹا کر اللہ کو پہچاننے کا خصوصی علم
عطا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں:
’’تم ہماری سماعت سے سنتے ہو، ہماری بصارت
سے دیکھتے ہو، ہمارے دماغ سے سوچتے ہو۔‘‘
’’جہاں تم ایک ہو وہاں دوسرا اللہ ہے،
جہاں تم دو ہو وہاں تیسرا اللہ ہے۔ اللہ وہی وہ ذات ہے جس نے تمہارا احاطہ کیا ہوا
ہے۔‘‘
آدم کی کتنی حرمان نصیبی ہے کہ باوجود اس
کے کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہ اپنے اختیاری عمل سے
اللہ سے دور ہے۔ اللہ کے عرفان کا خصوصی علم اس کے اندر موجود ہے اور وہ پوری پوری
صلاحیتوں سے مالا مال ہے لیکن پھر بھی اللہ کے عرفان سے محروم ہے۔ یہی بات بتانے
کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے اور سب نے یہی بات
بتائی کہ تمہارا رشتہ اللہ تعالیٰ سے قریب ترین ہے۔ اس کے برعکس کتنی ستم ظریفی ہے
کہ نوع انسانی نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی بات نہیں مانی اور ایک شیطان کی
بات پر برابر لبیک کہہ رہی ہے۔ پیغمبروں کے وارث اولیاء اللہ نے اس مشن کو آگے
بڑھانے کی کوشش کی مگر آدمی اتنا بدنصیب اور محروم ہے کہ اس نے یہاں بھی شیطان کی
بات کو زیادہ اہمیت دی۔
جس چیز کو ہم شعور کا نام دیتے ہیں اس کی
عادت ہے کہ وہ ایک قدم کو بھول کر دوسرا قدم اٹھاتا ہے اور اسی طرح ساری زندگی گزر
جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر شعور ایک ایسا Patternہے جس کا دارومدار نیسان اور بھول پر ہے
اس کے برعکس جب ہمارا کوئی قدم لا شعور میں داخل ہو جاتا ہے تو ہم اس کو اپنے
ارادے کے تحت شعور میں لے آتے ہیں۔ شعور کی زندگی انسان کو مفروضہ حواس میں گرفتار
کرتی ہے۔ اس کے برعکس لاشعور انسان کو مفروضہ حواس سے دور کر کے حقیقت کی طرف لے
جاتا ہے۔ لاشعور کا دوسرا نام روح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہ کائنات بنائی تو الست
بربکم فرما کر اس بات کا اقرار کرایا کہ تم مخلوق ہو اور میں خالق۔ لیکن جب انسان
اپنی نادانی سے شعوری حواس کو اپنے اوپر مسلط کر بیٹھا تو وہ اس وعدے کو بھول گیا
اور اس نے اپنی ساری زندگی کو شعور کے اندر مقید کر دیا۔ مخلوق بشمول انسان کا یہ
جواب دینا کہ ’’جی ہاں! آپ ہمارے رب ہیں۔‘‘اس بات کی ضمانت ہے کہ انسان نے اللہ
تعالیٰ کو دیکھا، سمجھا اور پھر اقرار کیا۔ اب اگر کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کو دیکھے
بغیر اور سمجھے بغیر اس کی ربوبیت کا تذکرہ کر رہا ہے تو یہ تذکرہ شعوری کہلائے
گا۔ اقرار بذات خود اس بات کی شہادت ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو دیکھ اور سمجھ کر
یہ بات کہی کہ آپ ہمارے رب ہیں۔
جب کوئی بندہ کسی روحانی استاد کی شاگردی
میں آتا ہے تو استاد اسے یہ بتاتا ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ سے جو وعدہ کیا ہے اسے
بھول گئے ہو اور وہ اپنے شاگرد کو شعور کی بھول بھلیوں سے آزاد کرنے کے لئے ایسی
طرزیں اس کے ذہن میں منتقل کرتا ہے جو اسے لاشعور کے قریب کر دیں اور ایفائے عہد
میں جدوجہد کر کے بالآخر اپنے ازلی وعدہ کو پورا کر دے۔ جب کوئی بندہ ایسی زندگی
میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی آواز بھی سنتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی
تجلیات کا مشاہدہ بھی کرتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔