Topics
سوال: انسانی زندگی میں رنگوں کی اہمیت
اور ان سے آگاہی کا طریقہ بیان فرما دیں؟
جواب: ہم جب زمین کے اوپر موجود نت نئی
تخلیقات پر غور اور تفکر کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے واضح طور پر آ جاتی ہے کہ
تخلیق کا عمل ظاہربین نظروں سے دیکھا جائے تو ایک نظر آتا ہے مثلاً ہم کسی درخت کی
پیدائش کے بارے میں غور کرتے ہیں تو ہمیں زمین کے اوپر موجود تمام درختوں کی
پیدائش کا لامتناہی سلسلہ ایک ہی طریقے پر قائم ملتا ہے۔ درخت چھوٹا ہو یا بڑا،
تناور ہو یا بیل کی شکل میں یا جڑی بوٹی کی شکل میں، پیدائش کا سلسلہ یہی ہے کہ
زمین کے اندر بیج بویا جاتا ہے۔ زمین اپنی کوکھ میں اس بیج کو نشوونما دیتی ہے اور
بیج کی نشوونما مکمل ہونے کے بعد درخت وجود میں آ جاتا ہے لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے
کہ باوجود پیدائش کا طریقہ ایک ہے، ہر درخت اپنی ایک انفرادیت رکھتا ہے اور درخت
کی یہ انفرادیت نامکمل نہیں ہوتی۔ مثلاً آم اور بادام کے درخت کو دیکھا جائے تو
درخت کی حیثیت میں وہ دونوں ایک ہیں۔ دونوں کی پیدائش کا طریقہ بھی ایک ہے، دونوں
کا قدو قامت بھی ایک سا ہے لیکن آم کے تنے میں اور بادام کے تنے میں، زمین آسمان
کا فرق ہے، آم کے درخت کا پھل اور بادام کے درخت کا پھل بالکل الگ الگ شکل و صورت
میں موجود ہیں اسی طرح جب ہم پھولوں کی طرف توجہ کرتے ہیں تو پھول کا ہر درخت اپنی
ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے اور اس انفرادی حیثیت میں اس کے پتے بھی الگ ہوتے ہیں،
اس کی شاخیں بھی الگ ہوتی ہیں اور اس کے اندر جو پھول نکلتا ہے وہ بھی الگ ہے۔
پھولوں کی بے شمار قسموں پر جب نظر جاتی ہے تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ پھول
میں اگر خوشبو ہے تو ہر پھول میں الگ خوشبو ہے۔
پھول اگر رنگین ہے تو ہر درخت کا پھول الگ
رنگ لئے ہوئے ہے۔ اس کی رنگ سازی کا عالم یہ ہے کہ کوئی پھول اس قدر سرخ ہوتا ہے
کہ نوع انسانی کا اس قدر سرخ رنگ بنانا آسان نہیں۔ پھول کے رنگوں میں کہیں سفید،
کہیں سبز اور کہیں اودا۔ مطلب یہ ہے کہ بے شمار رنگ زمین سے پھوٹتے رہتے ہیں، اللہ
تعالیٰ کی شان بھی کیسی عجیب شان ہے کہ زمین ایک ہے، ہوا بھی ایک ہے، سورج کی
روشنی بھی ایک ہے، پانی بھی ایک ہے، پیدائش کا طریقہ بھی ایک ہے لیکن ہر چیز ایک
دوسرے سے مختلف ہے اور دوسری بات جو بہت زیادہ توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ ہر پیدا
ہونے والی شئے میں کسی نہ کسی رنگ کا غلبہ ضروری رہتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی
چیز موجود نہیں ہے جو بے رنگ ہو۔ یہ بے رنگ اور رنگ دراصل خالق اور تخلیق کے
درمیان ایک پردہ ہے۔ خالق سے مخلوق کو جو چیز الگ اور ممتاز کرتی ہے وہ رنگ ہے۔
انسان کے اندر جب تخلیقی صفات کا مظاہرہ ہوتا ہے یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے
اس کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کا علم بیدار کر دیتے ہیں تو اس کے اوپر یہ بات منکشف
ہو جاتی ہے کہ تخلیق کا مطلب ہی یہ ہے کہ کوئی خیال سے بے رنگ خیال جب رنگین ہو
جاتا ہے تو تخلیق بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق کے جو کچھ بھی ہیں اس کا
الفاظ میں احاطہ ممکن نہیں ہے۔ جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق کے ظاہر ہو
گئے ان کا ارشاد بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا
سکتا۔ اللہ تعالیٰ ایسی ماوراء ہستی ہیں کہ جو تمام مخلوقات سے الگ اور ممتاز ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ’’لوح قلم‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو ورائے بے رنگ
فرمایا ہے یعنی رنگ، ورائے بے رنگ۔ اللہ تعالیٰ نے جب کائنات کو بنانے کا ارادہ
فرمایا تو جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھا اس کا ارادہ کیا اور فرمایا کن
اور وہ چیز وجود میں آ گئی یعنی ورائے بے رنگ سے نزول کر کے اللہ تعالیٰ کے خیال
نے ایک رنگ اختیار کیا۔ جس کو سمجھنے کے لئے تصوف نے بے رنگی کا نام دیا۔ یعنی
ایسا رنگ جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا اور جس کی الفاظ میں تشریح نہیں کی جا سکتی۔
پھر ا س بے رنگی میں حرکت پیدا ہوئی تو رنگین وجود تخلیق میں آ گیا اور یہی وجود
مختلف صورتوں میں اور مختلف رنگوں میں اور مختلف صلاحیتوں کے ساتھ مجسم اور منتقل
ہو گیا۔ اس بات سے یہ پتہ چلا کہ کائنات کی تخلیق میں بنیادی عنصر یا بنیادی مسالہ
رنگ ہے۔
اس سے پہلے یہ بات پوری طرح وضاحت سے بیان
کی جا چکی ہے کہ انسان گوشت پوست اور ہڈیوں کے ڈھانچے کا نام نہیں ہے۔
انسان کے اوپر ایک اور روشنیوں کا بنا ہوا
جسم ہوتا ہے جسے قلندر بابا اولیاءؒ نے ’’نسمہ‘‘ کا نام دیا ہے یہ جسم جو روشنیوں
کا بنا ہوا ہے، روح نہیں ہے، بلکہ جس طرح اس روشنیوں کے بنے ہوئے جسم نے اپنے گوشت
پوست کا لباس بنایا ہے اسی طرح روح نے یہ روشنیوں کا انسان تخلیق کیاہے۔ انسان کے
اندر روشنی کے چھ نقطے یا روشنی کے چھ قمقمے ہوتے ہیں، جن کو تصوف میں لطیفے کہا
جاتا ہے۔ ہر دو لطیفوں سے ایک روح بنتی ہے۔ لطیفہ نفسی اور لطیفہ قلبی سے روح
حیوانی کا جسم بنتا ہے، لطیفہ سری اور لطیفہ روحی سے روح انسانی وجود میں آتی ہے،
لطیفہ خفی اور لطیفہ اخفی سے روح اعظم کی تشکیل ہوتی ہے، لطیفہ نفسی اور لطیفہ
قلبی سے جو روح بنتی ہے یعنی روح حیوانی اس کے اوپر ہمیشہ زرد رنگ غالب رہتا ہے۔
لطیفہ روحی اور لطیفہ سری سے بننے والی روح انسانی پر سبز رنگ غالب رہتا ہے، اخفی
اور خفی سے مرکب روح اعظم پر نیلے رنگ کا غلبہ رہتا ہے۔ جس قدر زرد رنگ کا غلبہ
زیادہ ہو جائے گا اسی مناسبت سے آدمی دنیاوی لوازمات میں زیادہ گرفتار ہو جاتا ہے۔
روحانیت میں مراقبہ اس لئے کرایا جاتا ہے کہ آدمی کے اوپر سے زرد رنگ کی گرفت کم
ہو جائے۔ زرد رنگ کی گرفت کم ہونے سے آدمی کا ذہن سبز روشنیوں کی طرف منتقل ہو
جاتا ہے۔ یہ سبز روشنیاں اسے سکون دیتی ہیں اور ذہنی ارتکاز میں معاون ثابت ہوتی
ہیں۔ جب ذہنی ارتکاز سبز روشنیوں پر ہوتا ہے تو ذہن نیلی روشنیوں کی طرف منتقل ہو
جاتا ہے۔ نیلی روشنیوں کے بعد کوئی رنگ نہیں ہے۔ جب کوئی بندہ نیلی روشنیوں کی
گرفت سے آزاد ہو جاتا ہے تو اس کا ذہن بے رنگی میں منتقل ہو جاتا ہے۔ ذہن انسانی
کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح کی ہے کہ وہ کسی جگہ ٹھہرتا نہیں ہے۔ بے رنگی
سے نکل کر وہ ورائے بے رنگ کا مشاہدہ کر لیتا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کی ذات کا
عرفان ہے۔ تصوف میں سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے اپنے
اوپر ایسی کیفیات اور ورادات محیط کرے جو اس کو دنیاوی خیالات سے آزاد کر دیں۔
دنیاوی خیالات سے آزاد ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑ دے، کپڑے
نہ پہنے، گھر میں رہے، شادی نہ کرے۔ دنیاوی خیالات سے آزادی کا مطلب یہ ہے کہ
دنیاوی معاملات میں ذہن کا انہماک نہ ہو۔ دنیاوی معاملات کو روٹین کے طور پر پورا
کرے۔ مثلاً ایک آدمی کی ضرورت ہے کہ وہ پانی پیئے، اسے جب پیاس لگتی ہے پانی پی
لیتا ہے لیکن وہ تمام دن اپنے اوپر پیاس مسلط نہیں رکھتا۔ پانی کا تقاضا پیدا ہوا،
پانی پیا اور بھول گیا۔ اس طرح آدمی زندگی قائم رکھنے کے لئے کھانا کھاتا ہے لیکن
کوئی آدمی صبح سے شام اور شام سے صبح تک اس خیال میں غرق نہیں رہتا کہ کھانا کھاتا
ہے یا کھانا کھانے میں اتنی دیر باقی ہے، بھوک رفع کرنے کا ایک وقت مقرر ہے، بھوک
لگتی ہے اور آدمی کھانا کھا لیتا ہے۔ یہی صورت حال سونے اور جاگنے کی ہے۔ یہی صورت
حال رشتہ داروں اور دوستوں سے میل جول کی ہے۔ جب کوئی بندہ کسی ایک دو، دس، بیس،
پچاس خیالات میں اس طرح گھر جاتا ہے کہ اس کا ذہن کسی وقت یکسو نہیں ہوتا تو اس کا
مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بے رنگی سے دور ہو کر رنگوں کی دنیا میں مصروف ہو گیا ہے۔
اگر کوئی بندہ دنیاوی ضروریات کے تمام اعمال کو روٹین کے طور پر انجام دیتا ہے تو
اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ وہ رنگوں کی دنیا میں رہتے ہوئے بے رنگ دنیا کی طرف سفر
کر رہا ہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام دنیاوی
معاملات سے علیحدگی اور ذہنی یکسوئی کے لئے غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ ساتھ
میں حسب ضرورت کھانا اور پانی بھی لے جاتے تھے۔ جو غار حرا میں قیام کے دوران خورد
و نوش کے کام آتا تھا۔ حضورﷺ کے اس رولین عمل یا سب سے پہلی سنت پر غور کرنے سے یہ
بات یقینی بن جاتی ہے کہ ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کے لئے یہ ضرورت نہیں ہے کہ بندہ
دنیاوی علائق اور بنیادی جسمانی ضروریات سے قطع تعلق کر کے گوشہ نشینی ہو جائے۔
سیدنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس اولین سنت سے یہ بات بھی امت کے سامنے
آتی ہے کہ حضورﷺ غار حرا میں مستقل طور پر قیام نہیں فرماتے تھے۔ کچھ مدت کے لئے
تشریف لے جاتے تھے اور پھر واپس آ کر دنیاوی معاملات میں مصروف ہو جاتے۔ حضور علیہ
الصلوۃ والسلام کی اولین سنت ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ جب حضورﷺ کو ذہنی یکسوئی
حاصل ہو گئی اور اس ذہنی یکسوئی کے نتیجے میں حضرت جبرائیلؑ تشریف لے آئے اور
حضورﷺ کے اوپر اللہ تعالیٰ کی خصوصی تعلیمات کی بارش ہو گئی اس کے بعد حضورﷺ غار
حرا میں تشریف نہیں لے گئے۔ بعثت نبوی کے بعد اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی
تعلیمات کے بعد جو اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو عطا فرمائیں۔ حضورﷺ کی طرز فکر صرف اور
صرف یہ تھی۔ ’’ہر چیز من جانب اللہ ہے۔‘‘ کوشش اور جدوجہد انسان کا کام ہے لیکن
نتیجہ دروبست اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ غار حرا کے عمل کے نتیجے میں امت کے اوپر یہ
بات آشکار ہو جاتی ہے کہ جب یکسوئی کے مسلسل عمل (مراقبے) سے ذہن اللہ کی ذات میں
مرکوز ہو جاتا ہے تو پھر مراقبہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ علوم نبوت پر غور کرنے
سے پتہ چلتا ہے کہ ذہن کو دنیاوی علائق اور دنیاوی معاملات سے یکسوئی کرنے کے لئے
ایسی مشقوں کی ضرورت ہے۔ جن مشقوں میں ذہن دنیا کو عارضی طور پر چھوڑ دے۔ ان
عبادات و ریاضیات اور مشقوں سے جب ذہن یکسو ہو جاتا ہے یعنی ذہن میں سے دنیا کی
اہمیت ختم ہو جاتی ہے یا یوں کہئے کہ دنیاوی معاملات روٹین کے طور پر عمل پذیر
ہوتے ہیں تو آدمی کے اندر روحانی صلاحیتیں بیدار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ جب ان
بیدار روحانی صلاحیتوں میں ذہن انسانی بہت زیادہ متوجہ ہوتا ہے تو شعور کے اوپر سے
زرد رنگ کا غلبہ ٹوٹنے لگتا ہے جس کسے نتیجے میں زمان و مکان کی حد بندیاں اس طرح
ختم ہو جاتی ہیں کہ آدمی بیدار رہتے ہوئے ایسے عمل کرنے لگتا ہے جس طرح کے عمل یا
جس طرح کے کام وہ خواب کی زندگی میں کرتا ہے۔ اسے مراقبے کے اندر آنکھیں بند کئے
ہوئے پوری طرح یہ احساس رہتا ہے کہ میں جسمانی طور پر موجود ہوں۔ جسمانی طور پر
زمین پر بیٹھا ہوا ہوں، آنکھیں بند ہیں اس کے باوجود چل پھر رہا ہوں، اڑ رہا ہوں
اور دور دراز فاصلوں کو حذف کر کے چیزوں کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ دیکھنا دراصل بیداری
میں خواب دیکھنا ہے۔ جس طرح آدمی سوتے ہوئے خواب دیکھتا ہے اور اسے اس حالت میں یہ
پتہ نہیں ہوتا کہ میرا جسم موجود ہے یا نہیں، میں لیٹا ہوا ہوں یا بیٹھا ہوا ہوں،
مطلب یہ ہے کہ خواب کی زندگی میں آدمی مکان و زمان کے فاصلے معدوم کر کے دوسری دنیا
کی سیر کرتا ہے، عزیز رشتہ داروں سے ملتاہے۔ اگر خواب کی حالت میں کوئی چیز کھاتا
ہے تو اس کی لذت محسوس کرتا ہے۔ کوئی آدمی اسے مارے تو چوٹ کا احساس ہوتا ہے۔ کوئی
دہشتناک منظر اس کی نظروں کے سامنے آ جائے تو ڈر اور خوف سے اس کی چیخ نکل جاتی
ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسے یہ ڈراؤنا منظر یاد رہتا ہے بلکہ وہ بیدار ہونے کے بعد ان
تمام کیفیات سے گزرتا ہے۔ جن کیفیات سے بیداری میں ایک دہشت زدہ انسان گزرتا ہے۔
خواب سے بیدار ہونے کے بعد اس کے دل کی حرکت تیز ہوتی ہے اور اس کے جسم پر پسینہ
ہوتا ہے۔ چہرے پر دہشت کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور آنکھوں میں خوف کی جھلک ہوتی
ہے۔ اس کے برعکس جب وہ خواب میں ایسی کیفیات سے گزرتا ہے، جن کیفیات میں شادمانی
ہے، مسرت ہے، سکون ہے، اطمینان ہے، خوشی ہے، بیدار ہونے کے بعد اس کے اوپر سکون
اطمینان کی تمام کیفیات موجود ہوتی ہیں۔ تو بیدار ہونے کے بعد۔۔۔۔۔۔وہ یہ محسوس
کرتا ہے کہ میں کسی باغ سے گزر کر آیا ہوں۔ اگر اس نے خواب میں رنگ برنگ حسین
پھولوں کی خوشبو سونگھی ہے تو بیدار ہونے کے بعد بھی اس کے ماحول میں خوشبو بسی
ہوئی ہوتی ہے۔ خواب کی حالت میں اگر وہ کوئی پھل کھاتا ہے تو اس کا ذائقہ اور
خوشبو بھی اسے محسوس ہوتی ہے۔ یہ خواب کی ایسی حالت ہے کہ جس میں انسان کے حواس
جسمانی وجود سے بے خبر ہوتے ہیں۔ لیکن روح حیوانی کے اوپر زرد رنگ کا غلبہ، عام
طور سے جتنا غلبہ ہوتا ہے اس سے کم ہو جاتا ہے۔ مراقبے میں جو کوئی بندہ خواب
دیکھتا ہے یا باالفاظ دیگر دو بند آنکھوں سے کام نہ لے کر تیسری آنکھ سے دیکھتا ہے
تب بھی اس کے اوپر یہی کیفیات مرتب ہوتی ہے۔ خواب اور مراقبے میں فرق یہ ہے کہ
خواب میں ذہنی، جسمانی اعضاء کو نظر انداز نہیں کرتا۔ کوئی مراقبے کرنے والا بندہ
جس کی آنکھ کھلی ہوئی ہے، آنکھ سے مراد اندر کی آنکھ ہے یا روح کی آنکھ ہے تو Time and Spaceیا زمان و مکان کو
حذف کرتے ہوئے بھی جسمانی کیفیات سے آشنا رہتا ہے۔ مراقبے کو ہم خواب کا پہلا درجہ
قرار دے سکتے ہیں۔ یعنی ایسا خواب جس خواب میں آدمی کے اوپر نیند غالب نہ ہو اور
بیداری مکمل طور پر حاوی ہو۔ اس کے باوجود آدمی زمان و مکاں سے گزر کر کوئی سفر
کرے، کوئی چیز دیکھے یہ مراقبہ ہے۔ یہ صورت حال روح حیوانی کے اعمال و حرکات پر
قائم ہے۔ روح حیوانی دو نقطوں سے مرکب ہے۔ ایک نقطے کا نام نفس ہے اور دوسرے نقطے
کا نام قلب ہے۔ شعور انسانی جب تک نفس کے اندر دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے یا دنیا کو دیکھتا
ہے تو یہ زمان و مکاں میں پابند رہتے ہوئے بیداری میں دیکھنا ہے۔ اس سے ترقی کر کے
جب آدمی روح حیوانی سے اوپر قلب میں دیکھتا ہے تو Time and Spaceحذف ہو جاتا ہے اور
یہ دیکھنا خواب ہے۔ دو سیڑھیوں سے گزر کر جب آدمی تیسری سیڑھی پر قدم رکھتا ہے
یعنی لطیفہ روحی میں دیکھتا ہے، تو یہ دیکھنا مراقبے میں دیکھنا ہے۔ مراقبے میں
بیدار رہتے ہوئے شعور و حواس کے ساتھ ٹائم اسپیس کی پابندی کے خلاف چلنا، پھرنا،
دوڑنا، کھانا، پینا اور اللہ تعالیٰ کی دنیا کی بے شمار چیزوں کا دیکھنا ہے۔
مراقبہ کی بھی کئی صورتیں ہیں۔ مراقبے کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی آنکھیں بند کر کے
بیٹھ جاتا ہے۔ اسے ذہنی یکسوئی نصیب ہو جاتی ہے۔ کوئی چیز اس کی نظروں کے سامنے
آتی ہے لیکن بندہ دیکھی ہوئی چیز میں معانی اور مفہوم نہیں پہنا سکتا۔ دوسری بات
یہ ہوتی ہے کہ جس وقت کوئی چیز نظر آتی ہے اس وقت شعور اور حواس معطل ہو جاتے ہیں
اور جب اس کیفیت سے وہ نکلتا ہے تو اس کے ذہن میں صرف یہ تاثر قائم رہتا ہے کہ میں
نے کوئی چیز دیکھی ہے۔ کیا دیکھی ہے؟ کس طرح دیکھی ہے؟ ایسی کوئی بات اس کے حافظے
میں نہیں رہتی۔ تصوف میں اس صورت کو بیداری میں خواب دیکھنا کہتے ہیں اور بیداری میں
خواب دیکھنے کو اصطلاحی طور پر ’’غنود‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے بعد دوسری اسٹیج یہ آتی
ہے کہ آدمی نے بیٹھے ہوئے، ہوش و حواس کو قائم رکھتے ہوئے کوئی چیز دیکھی، اس کو
ایک جھٹکا سا لگا اور یہ بات ذہن میں آئی کہ میرا وجود موجود ہے، وجود کی موجودگی
کے ساتھ ساتھ دیکھی ہوئی چیز کچھ یاد رہ گئی کچھ بھول میں پڑ گئی۔ اس کیفیت کا
اصطلاحی نام ’’ورود‘‘ ہے اور جیسا کہ ابھی میں نے عرض کیا ہے کہ بیداری کے حواس
میں اس طرح کسی چیز کو دیکھنا کہ وہ یاد بھی ہے، اس کے معانی اور مفہوم بھی ذہن
نشین ہو جائیں، وجود جسمانی کا احساس بھی باقی رہے اور Time and Spaceکی پابندی بھی نہ
ہو، اس کیفیت کا نام مراقبہ ہے۔ روحانی طرزوں میں اندرونی دنیا کو دیکھنے کا عمل
ابتدائی درجوں میں چار طریقوں پر قائم ہے۔ پہلا طریقہ خواب، دوسرا طریقہ غنود،
تیسرا طریقہ ورود اور چوتھا طریقہ مراقبہ ہے۔ یہ کیفیات سب کی سب دراصل خواب کی
دنیا کا بیداری میں منتقل ہو جانا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔