Topics
سوال: ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اپنی تمام تر ترقی کے باوجود بیماریوں اور پریشانیوں کا شکار رہتا ہے۔ انسان اس کی وجوہات جاننے سے قاصر نظر آتا ہے۔ آپ اس پر کچھ روشنی ڈالیں۔
جواب: ہم جب اللہ تعالیٰ کی تخلیق پر غور کرتے ہیں اور اس غور و فکر میں قرآن پاک سے رجوع کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آ کر یقین بن جاتی ہے کہ باوجود اس کے Matterایک ہے، تخلیقی قاعدے ضابطے اور طریقے ایک ہیں، مخلوق کے اندر طبعی تقاضے یکساں ہیں، عقل و شعور سب میں ہے یہ الگ بات ہے کسی میں شعور زیادہ ہے کسی میں کم ہے اور کسی میں بہت کم ہے باوجود ان تمام مشترک چیزوں کے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہر تخلیق کی انفرادیت اپنی جگہ قائم ہے۔ انفرادیت کے دو رخ ہیں۔
ایک رخ اجتماعی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرا رخ انفرادی شخصیت کے روپ میں موجود ہے۔ اجتماعی رخ کو ہم نوع کا نام دیتے ہیں اور انفرادی رخ کو ہم فرد کہتے ہیں۔ ہر نوع کا ہر فرد الگ اپنی ایک حیثیت، شکل و صورت، رنگ و روپ اور نقش و نگار رکھتا ہے۔
طوطے کی نوع کے تمام افراد کی شکل ایک ہے۔ کبوتر کی نوع کے افراد کی شکل و صورت ایک ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی مختلف مخلوقات ہیں وہ نوعی اعتبار سے جو شکل رکھتی ہیں وہی شکل و صورت انفرادی ہے یہ بات ایسی ہے کہ اس میں زیادہ تفکر اور تدبر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ انسانی مشاہدات ہر وقت اس صورت حال سے آشنا ہیں۔ نوعی تنوع پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نوع کا مختلف ہونا اس بات کی علامت ہے کہ نوع کے خدوخال میں معین مقداریں کام کر رہی ہیں۔ بکری کی نوع میں اللہ تعالیٰ نے جو معین مقداریں رکھ دی ہیں وہ معین مقداریں جب متحرک ہوتی ہیں تو اس کے نتیجے میں بکری ہی محترک ہوتی ہے ایسا نہیں ہوتا کہ بکری کے پیٹ سے کبوتر پیدا ہو جائے یا کبوتر کے پیٹ سے بکری پیدا ہو جائے ۔۔۔۔۔۔یہ متعین مقداریں نہ صرف زمین کے اوپر موجود مخلوق میں نظر آتی ہیں بلکہ کائنات کی ہر تخلیق کے ہر جزو میں یہ مقداریں کام کر رہی ہیں ان مقداروں کا اہم کام یہ ہے کہ جب یہ آپس میں رد و بدل ہوتی ہیں یا ان کا آپس میں ایک دوسرے کے اندر انجذاب ہوتا ہے تو مختلف رنگ اختیار کر لیتی ہیں اور یہ رنگ ہی دراصل کسی نوع کے خدوخال بن جاتے ہیں۔ اب تخلیقی فارمولا یہ بنا کہ Matterایک ہے ڈائیاں مختلف ہیں۔ ڈائی کی تخلیق اس طرح عمل میں آئی ہے کہ ڈائی Matterکو اپنے اندر محفوظ کر کے اس طرح متحرک کرتی ہے کہ Matterمختلف اور معین مقداروں میں تبدیل ہو جاتا ہے جب یہ معین مقداریں ایک دوسرے میں مل کر پیوست ہو کر ضرب کھاتی ہیں تو کوئی ایک رنگ بنتا ہے اور جب ایک رنگ دوسرے رنگ میں جذب ہوتا ہے تو تیسرا رنگ بنتا ہے، نتیجے میں بے شمار رنگ وجود میں آ جاتے ہیں اور یہ بے شمار رنگ ہی اللہ تعالیٰ کی کائنات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے پاک اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے تخلیق کیا برابر برابر اور معین مقداروں کے ساتھ اس کو ہدایت بخشی۔ اللہ تعالیٰ وہ باتیں فرما رہے ہیں کہ برابری کے ساتھ پیدا کیا اور الگ الگ مقداروں کے ساتھ اس کو شعور بخشا۔ برابری سے مراد وہی ایک مادہ یا Matterمعین مقداروں سے مراد رنگوں کی مختلف طرزیں ہیں۔ یہ بات ہم پھر عرض کرتے ہیں کہ ہم اس بات پر پوری طرح روشنی ڈال چکے ہیں کہ زندہ رہنے کے لئے جذبات و احساسات تمام زمینی اور آسمانی مخلوق میں موجود ہیں اور جو کچھ موجود ہے وہ یکساں کائنات کا ہر ذرہ با شعور ہے۔ کائنات کے ہر ذرے کے اندر زندگی قائم رکھنے کے لئے تمام جذبات و احساسات موجود ہیں کائنات کا ہر ذرہ اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ وہ مخلوق ہے، اس کو پیدا کرنے والی کوئی ہستی موجود ہے۔ کائنات میں موجود ہر شئے اس بات کا علم بھی رکھتی ہے کہ میں نوعی اعتبار سے اپنی ایک حیثیت رکھتی ہوں مثلاً یہ ہے کہ بکری یہ بات جانتی ہے کہ وہ بکری ہے اور بکری اس بات سے بھی واقف ہے کہ اس کی طرح چار پیروں پر چلنے والا جانور بھیڑیا ہے جس سے اس کو اپنی حفاظت کرنا ہے۔
بکری اس بات کا بھی شعور اور علم رکھتی ہے کہ ایک دوسرے نوع آدمی سے بالکل اسی طرح جس طرح آدمی اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ یہ بکری کی نوع ہے، یہ گھوڑے کی نوع ہے، یہ بھینس کی نوع ہے یا یہ درخت کی نوع ہے۔
روحانیت میں یہ بات نہ صرف یہ کہ علمی طور سے سمجھائی جاتی ہے بلکہ اس بات کا مشاہدہ کرا دیا جاتا ہے کہ درخت بھی اپنی نوع سے اس طرح واقف ہے جس طرح آدمی اپنی نوع سے اور خود سے واقف ہے جس طرح آدمی کا شعور علم یہ بات جانتا ہے کہ آدم نوع انسانی کا پہلا فرد ہے اسی طرح ایک درخت بھی ہی جانتا ہے کہ اس کا بھی کوئی پہلا فرد ہے۔ جس طرح نوع انسانی کو آدم سے ارتقائی منازل کے بعد شعور منتقل ہو رہا ہے اسی طرح درختوں میں بھی درختوں کے آدم سے شعور منتقل ہو رہا ہے یہاں ایک اعتراض ہو سکتا ہے کہ آدمی شعوری ارتقاء کے ساتھ ساتھ علمی حیثیت میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے، اپنا ایک تعارف رکھتا ہے اور علمی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس سے بہت ساری ایجادات اور بہت ساری ترقیات وابستہ ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ایک زمانہ ایسا تھا کہ انسان غاروں میں رہتا تھا پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ اس نے پتھر کا استعمال سیکھ لیا۔ پھر ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ وہ کسی طرح آگ کے استعمال سے واقف ہو گیا پھر دھات کا زمانہ آیا اور بتدریج ترقی کرتے کرتے انسان ایسے مقام پر پہنچ گیا کہ جس مقام پر بظاہر درخت اور دوسری نوعیں ہمیں نظر نہیں آتیں۔
بظاہر یہ بات سامنے ہے کہ آدمؑ کے زمانے میں درخت کی جو حیثیت تھی اب بھی درخت اسی حیثیت میں موجود ہے۔ اس نے کوئی ایسی ترقی نہیں کی جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ آدمؑ کی طرح درخت بھی ایک ترقی پذیر قوم یا نوع ہے۔ یہ بات بظاہر صحیح ہے لیکن یہ بات ہمیں ماننی پڑے گی کہ انسان نے جیسے جیسے ترقی کی ہے اور ترقی کی مناسبت سے جو جو مصائب، مشکلات، پریشانیاں اس کو پیش آتی رہیں وہ اس ترقی یافتہ دور سے پہلے کے دور میں نہیں تھیں۔ انسان نے علوم کی ترقی کے ساتھ ساتھ جب مصائب و آلام کا انبار اپنے گرد جمع کر لیا تو اس نے اس مسائل سے نکلنے کے لئے جدوجہد اور کوشش کی اور فضا میں جو گھٹن اور زہریلے مادے اس نے پیدا کر دیئے ہیں ان سے بچاؤ کے لئے بے شمار تدابیر اختیار کیں۔ جس کے نتیجے میں نئے نئے علاج وجود میں آئے اور نئی نئی ترکیبیں ایسی پیش کی گئیں جن ترکیبوں سے اور جن تدبیروں سے وہ ان مصیبتوں اور پریشانیوں کو دور کر سکے۔ یہ بات زیر بحث نہیں ہے کہ انسان نے تخلیق کردہ مصیبتوں، پریشانیوں اور عدم تحفظ کے احساس پر کس حدتک کنٹرول حاصل کیا ہے اور وہ کسی حد تک بے بس ہے۔ بتانا یہ ہے کہ انسان کی علمی ترقی نے فضا (Atmosphere) کو زہر آلود کر دیا ہے۔ جس طرح انسان فضا کے اند رزہریلے مادوں سے متاثر ہو کر بیمار ہوتا ہے اور ان بیماریوں کے تدارک کے لئے علاج کے سلسلے میں نئی نئی ایجادات کرتا ہے اس طرح درخت بیمار نہیں ہوتے اور نہ ہی درخت اپنے لئے نئے نئے طریقے اور نئی نئی اختراع کرتے ہیں لیکن یہ کہے بغیر چارہ نہیں ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جب فضا کی زہرناکیوں سے متاثر ہونے پر مجبور ہے تو لازمی طور پر درخت جو اشرف المخلوقات نہیں ہیں، وہ بھی اس زہر آلود فضا سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک انسان جب صاف ستھرا پانی نہیں پیتا تو اس کو طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ ایک انسان جب ہوا میں گھلی ہوئی اور بسی ہوئی دھوئیں کی مقدار کو سانس کے ذریعے اپنے پھیپھڑوں میں منتقل کرتا ہے تو اس ہوا سے پھیپھڑے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ جس طرح انسان کی زندگی کا انحصار آکسیجن پر ہے اسی طرح درخت یا کسی دوسری نوع کی زندگی کا انحصار بھی اسی آکسیجن پر ہے۔ فضا میں موجود آکسیجن انسان کی زندگی کا ایندھن بنتی ہے، وہی آکسیجن درخت کی زندگی کا بھی ایندھن بنتی ہے لیکن یہ ایندھن جب انسان کے خون میں گردش کرتا ہے کیونکہ اس میں کثافت ہے اس لئے انسان بے شمار بیماریوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ ان بیماریوں میں ایسی بیماریاں بھی ہیں جن کا علاج انسان دریافت نہیں کر سکا۔ پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ درخت جب وہی آکسیجن اپنی زندگی میں استعمال کرتا ہے جس آکسیجن کے استعمال کے بعد انسان بیمار ہو جاتا ہے تو درخت کیوں بیمار نہیں پڑ جاتا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ نوع انسانی جس طرح ارتقاء کی منازل طے کر رہی ہے قدرت نے درخت کو بھی اتنا علم، اتنا شعور اور اتنی عقل عطا فرمائی ہے کہ وہ اپنی نوع کا تحفظ کرتا رہے اور اشرف المخلوقات انسان کی پھیلائی ہوئی بربادیوں سے خود کو محفوظ رکھ سکے۔ اگر درختوں کے اندر اتنا علم موجود نہ ہوتا یا اپنے تحفظ کے لئے وہ عقل استعمال نہ کر سکتے تو فضا کی آلودگی سے وہ ختم ہو جاتے اور زمین پر کہیں درخت نظر نہیں آتا۔ ان شواہد سے اور اس حقیقت سے یہ بات واضح طور پر یقین بن جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ ہم نے معین مقداروں کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ ان معین مقداروں میں درخت بھی ہیں درخت کا تذکرہ بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے یہ سمجھا جاتا ہے کہ درخت ایک ایسی مخلوق ہے جو بات نہیں کرتی، کوئی احساس نہیں رکھتی جب کہ دوسری مخلوق مثلاً گائے بھینس بکری کے بارے میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ درختوں کی نسبت زیادہ باشعور ہیں، زیادہ با عقل ہیں۔ جو چیز انسانی نظر میں بالکل بے شعور، بے عقل اور بے اختیار ہے اس کے اندر بھی اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ معین مقداروں کی وجہ سے اتنی سمجھ بوجھ ہے کہ وہ اپنی نوع کا تحفظ کر سکے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔