Topics
سوال: تصوف میں اس بات پر بہت زیادہ زور
دیا جاتا ہے کہ پیر و مرشد کے حکم پر بلا چون و چرا سر تسلیم خم کر دینا چاہئے اور
اس کے ہر حکم کی تعمیل ہر حال میں مرید پر ضروری ہے۔ یہاں یہ اعتراض بھی وارد ہوتا
ہے کہ شیخ اگر کوئی ایسا حکم دے جو عقل و شعور کے منافی ہو تو کیا اس کی بھی تعمیل
کرنا ضروری ہے؟
جواب: جب کوئی بچہ استاد کی شاگردی میں
آتا ہے تو استاد کہتا ہے ’’کہو الف۔بے۔ج ۔ وغیرہ‘‘اور شاگرد بلا چون و چرا استاد
کی بات مان کر الف۔ب۔ج۔پڑھ دیتا ہے۔ اگرچہ وہ الف۔ب۔ج۔کہہ دیتا ہے لیکن اس کو یہ
پتہ نہیں ہوتا کہ الف۔ب۔ج۔کیا ہے۔ استاد جو کچھ کہتا ہے وہ اسے مانتا چلا جاتا ہے
دوسرے الفاظ میں استاد کے حکم کی تعمیل اسے علم کی منازل طے کراتی ہے۔ اگر کوئی
شاگرد اپنا شعوری فہم بیچ میں لا کے الف۔ب۔ج، کو قبول کرنے سے انکار کر دے تو وہ
کوئی علم نہیں سیکھ سکتا۔
یہی حال مادری زبان کا ہے۔ بچہ جب ماحول
میں چیزوں کے نام اور الفاظ اپنے والدین اور دوسرے افراد سے سنتا ہے۔ تو ان میں
معانی پہنائے بغیر انہیں قبول کر لیتا ہے۔ پانی کے لئے جب پانی کا لفظ سنتا ہے تو
پانی کہہ دیتا ہے اور آگ کے لئے آگ سنتا ہے تو آگ کہہ دیتا ہے۔ اسی طرح پیدائش کے
بعد انسان کا کوئی نہ کوئی نام ضرور رکھا جاتا ہے نہ صرف یہ کہ بچہ اس نام پر یقین
رکھتا ہے اور قبول کر لیتا ہے بلکہ اس کے اطراف کا پورا ماحول اس بات پر بغیر سوچے
سمجھے یقین رکھتا ہے۔
جب کوئی شخص روحانیت کا سفر اختیار کرتا ہے
اور کسی روحانی استاد(مراد) کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے تو اس کی حیثیت روحانیت میں
ایک بچے سے زیادہ نہیں ہوتی کیونکہ وہ روحانیت کی الف۔ب سے بھی واقف نہیں ہوتا۔
روحانی استاد کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ
اپنے شاگرد(مرید) کی ذہنی صلاحیتوں اور شعوری سکت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو قدم
بہ قدم چلا کر اس پر غیب منکشف کر دے۔ اس راستے میں مرید کی انا‘شعوری واردات و
کیفیات،ماحول اور آباؤ اجداد سے ملی ہوئی پابندی،روایتی ربط و ضبط وغیرہ رکاوٹ
بنتے ہیں اور روحانی سفر میں شدت سے مزاحم ہوتے ہیں۔ جب تک ان کو ذہن سے کھرچ کر
پھینک نہ دیا جائے۔ کوئی شخص روحانیت کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا۔ اب یہ رکاوٹیں
کیسے دور کی جائیں؟ ذاتی طور پر یہ صفائی کبھی نہیں ہو سکتی۔ مرید کے لئے مراد یہ
بات جانتا ہے کہ اس کے ذہن کی صفائی کس طرح کی جائے۔
ان ہی وجوہات کی بنا پر مرید کے لئے لازم
ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک بچے کی طرح سمجھے اور جس طرح بچہ استاد کی بات مان کر الف
کو الف اور ب کو ب کہہ دیتا ہے اسی طرح مراد کا ہر حکم اس بات کا متقاضی ہے کہ اس
کو بلاحیل و حجت تسلیم کر لیا جائے۔ اگر اس کے بتائے ہوئے احکامات پر ذہن استعمال
کیا جائے گا تو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ذہنی صلاحیت بھی ضائع ہو گی اور ذہن آگے کے
سفر پر ہرگز تیار نہیں ہو گا۔ جس طرح ایک بچہ استاد کی کہی ہوئی بات کو عقل و شعور
بیچ میں لائے بغیر قبول کر لیتا ہے تب کہیں جا کر اگلے علوم حاصل کرتا ہے۔ روحانیت
میں بھی ایک مرید کے لئے ضروری ہے کہ وہی طرز عمل اختیار کرے۔
اس سلسلے میں حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ
کا ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے۔ حضرت کے ایک خاص مرید تھے،انہیں جب بھی موقع
ملتا درخواست کرتے:
’’حضور! بہت لوگوں نے آپ سے فیض پایا ہے
لیکن صاحبزادے(شیخ کے بیٹے) ابھی تک محروم ہیں۔ انہیں بھی نواز دیجئے۔‘‘
وہ ایک عرصے سے درخواست کرتے رہے لیکن شیخ
ان کی بات کو ٹالتے رہے۔ ایک روز انہوں نے ایسے وقت درخواست کی جب شیخ عالم
استغراق میں تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ شیخ راضی نظر آ رہے ہیں تو دوڑ کر صاحبزادے کو
بلایا اور کہا۔ ’’خاموشی سے بیٹھ کر ابا جی کے پیر دباؤ۔‘‘
بیٹے نے ایک طرف بیٹھ کر پیر دبانا شروع
کیا۔ اس دوران حضرت شیخ نے اپنا ایک پیر ان کے سینے پر پھیرنا شروع کر دیا۔
صاحبزادے کسمسائے اور کہا۔ ’’ابا جی! اس سینے میں علم شریعت ہے۔‘‘
شاہ صاحب نے فرمایا۔ ’’بیٹے! اسی کو مٹا
رہا ہوں۔‘‘ اور مسلسل اپنا پیر ان کے سینے پر پھیرتے رہے۔ صاحبزادے نے دوبارہ عرض
کیا۔ ’’ابا! اس میں قرآن ہے( وہ حافظ قرآن تھے۔)‘‘
حضرت شیخ نے کہا۔ ’’ہاں بیٹے! اس کو بھی
مٹا رہا ہوں۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔