Topics
سوال: روحانی علوم کے حصول میں طرز فکر کو کیا اہمیت حاصل ہے؟
جواب: کائنات کی تخلیق اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر جب ہم غور کرتے ہیں جس ارشاد کی بنا پر کائنات اپنے تمام تخلیقی اجزاء اور عناصر کے ساتھ موجود ہو گئی تو ہم اس کے علاوہ دوسری کوئی بات نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم کائنات کی صورت میں وجود پذیر ہو گیا۔ جس حکم کی بنا پر وسیع و عریض اور لامتناہی کائنات، کھربوں کہکشانی نظام، سنکھوں کی تعداد میں سیارگان اور کروڑوں کی تعداد میں ستارے یا (Stars) وجود میں آنے کا سبب صرف اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے اور وہ حکم کیا ہے، ’’کن‘‘ کن کا مطلب ہے ’’ہو جا‘‘ جب ہم اس ’’ہو جا‘‘ کے اوپر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہو جا کہنے والی ہستی کے ذہن میں کوئی ایسا پروگرام ہے جس پروگرام کے تحت وہ کسی چیز کو نہ صرف یہ کہ وجود میں لانا چاہتا ہے بلکہ اسے قائم رکھنے کے لئے وسائل بھی فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کیا ہو جا، صرف یہ فرمایا ’’کن‘‘ یعنی ہو جا۔ کیا ہو جا؟ یہ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذہن اللہ تعالیٰ کا علم ہے اور اللہ تعالیٰ کا تمام کا تمام علم اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب کن فرمایا تو کائنات موجود ہونے کے ساتھ ساتھ کائنات کے اندر وہ تمام صفات بھی موجود ہو گئیں۔ جن صفات کے اوپر اللہ تعالیٰ نے کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ پھر اس تخلیق میں ایک نئی بات پیدا ہوئی۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بنائی ہوئی تخلیق کو نظر عطا کی اور نظر فعال اور متحرک بنانے کے لئے ارشاد فرمایا۔ الست بربکم میں ہوں، میں تمہارا رب۔بہت زیادہ تفکر طلب ہے۔ اس کی تشریح کو آئندہ کے لئے محفوظ کر کے ہم اصل معاملے کی طرف آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ میں تمہارا رب ہوں تو کائنات میں موجود تمام تخلیقات، بشمول فرشتے، انسان اور جنات، سب نے برملا یہ کہا۔ ’’جی ہاں! ہم یہ بات جانتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے یہ فرمانے سے پہلے کہ میں تمہارا رب ہوں کائنات کی حیثیت ایک گونگی، بہری شے کی تھی۔ اس کو اپنا ادراک تو تھا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ میں کیا ہوں، کیوں ہوں، کون ہوں اور میرا بنانے والا کون ہے۔ یہ نہ جانا کہ میں کون ہوں، کیوں ہوں اور میرا بنانے والا کون ہے۔ اس بات کی علامت ہے کہ کائنات کو ابھی نظر نہیں ملی تھی اس کائنات میں چونکہ بنیادی حیثیت انسان کی ہے اس لئے ہم کائنات کی بجائے انسان کا تذکرہ کرینگے۔ کسی جگہ بے شمار انسان موجود ہیں لیکن وہ یہ جانتے کہ ہم کون ہیں؟ کیا ہیں، کیوں ہیں اور ہمارا بنانے والا کون ہے؟ اس لا علمی کو علم سے بدلنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اقدس کو کائنات کے سامنے پیش کیا اور باآواز بلند فرمایا۔ ’’میں تمہارا رب ہوں۔‘‘ کائنات یا انسان اس آواز کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور اللہ تعالیٰ کی خالقیت کا اعتراف کیا۔ اب اس بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ نظر کا پہلا ٹارگٹ یا مرکزیت اللہ ہوا۔ اللہ کو دیکھنے کے بعد اللہ کا عکس دماغ کے اوپر منتقل ہوا۔ یہی نظر کا قانون ہے یعنی آنکھ کسی عکس کو قبول کر کے دماغ کی سکرین پر منتقل کرتی ہے۔ یہ منتقلی 15سیکنڈ ہلکی گہری قائم رہ کر تبدیل ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے پیش نظر ہم یہ جانتے ہیں کہ نظر اس وقت کام کرتی ہے۔ جب نظر کے لئے کوئی مرکزیت ہو، انسان کے نظر کی پہلی مرکزیت اللہ ہے۔ اس دنیا میں آنے کے بعد مرکزیت میں تبدیلی واقع ہوئی۔ ہم علم حضوری سے ہٹ کر ہم علم حصولی کے جال میں بند ہو گئے۔ نتیجے میں ہماری نگاہ کی مرکزیت مفروضہ اور فکشن حواس بن گئے۔ لیکن قانون اپنی جگہ بحال رہا جس طرح حقیقت دماغ کی سکرین پر منتقل ہوتی ہے اسی طرح فکشن حواس بھی دماغ کی سکرین پر منتقل ہوتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے ہ فکشن حواس کی منتقلی ہمیں پابند حواس میں قید رکھتی ہے اور غیر فکشن حواس کی منتقلی ہمیں آزاد شنیا سے روشناس کراتی ہے۔ روحانی سلسلوں، اسباق، قواعد و ضوابط، اعمال و اشغال، تفکر، مراقبہ، تصور شیخ ان تمام باتوں کو بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ کسی ہستی کو مرکزیت بنا کر بار بار دماغ کی سکرین پر منتقل کیا جائے۔ جتنا زیادہ ایک خیال یا ایک مرکزیت دماغ کی سکرین پر منعکس ہوتی ہے اسی مناسبت سے دماغ ایک پیٹرن (Pattern) بن جاتا ہے اور یہی پیٹرن تصوف کی اصطلاح میں طرز فکر ہے۔ ہم جب استاد، پیرو مرشد یا شیخ کا تصور کرتے ہیں تو ازلی قانون کے مطابق شیخ کے اندر کام کرنے والی اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم بار بار ہمارے دماغ کے اوپر وارد ہوتا ہے اور جیسے جیسے شیخ کے اندر کام کرنے والی روشنیاں سالک کے اندر منتقل ہوتی ہیں۔ اسی مناسبت سے سالک کا ذہن شیخ کی روشنیوں کو قبول کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ شیخ اور مرید کا ذہن ایک نقطہ پر قائم ہو جاتا ہے۔
اسی کو تصوف کی اصطلاح میں نسبت قرار دیا گیا ہے۔ روحانیت میں نسبت حاصل کرنے کا اہم ذریعہ اپنے مرشد سے قربت کا حاصل ہونا ہے۔جوں جوں اس قربت میں اضافہ ہوتا ہے مرید میں محبت و عشق کی لہریں موجزن ہوتی ہیں اسی مناسبت سے شیخ کا ذہن منتقل ہوتا رہتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ شیخ کے اندر کام کرنے والی روشنیاں اور انوار بلکہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات بھی سالک کو حاصل ہو جاتی ہیں یا سالک ان انوار اور تجلیات سے متعارف ہو جاتا ہے۔
اس صورت کا نام تصوف میں ’’فنا فی الشیخ‘‘ ہے۔ شیخ کی روشنیاں اور شیخ کے اندر کام کرنے والے انوار اور تجلیات بھی شیخ کا اپنا ذاتی وصف نہیں ہیں۔ جس طرح ایک سالک نے اپنی تمام تر توجہ اور ذہنی ارتکاز کے ساتھ شیخ کے علم اور شیخ کی صفات کو اپنے اندر منتقل کیا ہے اسی طرح شیخ نے اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ سیدنا حضورﷺ کے علم اور صفات کو اپنے اندر منتقل کیا ہے۔ فنا فی الشیخ کے بعد شیخ کے اندر کام کرنے والی وہ صلاحیتیں سالک کے اندر بیدار اور متحرک ہو جاتی ہیں جن صلاحیتوں کی بنیاد پر شیخ نے سیدنا حضورﷺ کی نسبت حاصل کی ہے۔ اس مقام کو تصوف میں۔۔۔۔۔۔فنا فی الرسول کہا جاتا ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں۔ اتنی بات ضرور ہے کہ میرے اوپر وحی آتی ہے۔ بشیرت کے دائرے سے باہر ہو کر دیکھا جائے تو حضور ختم المرسلینﷺ کی فضیلت یہ ہے کہ ان کے اوپر وحی نازل ہوتی ہے اور وحی خدا کی طرف سے نازل ہوتی ہے یعنی سیدنا حضورﷺ کے ذہن مبارک پر اللہ تعالیٰ کے علوم، اللہ تعالیٰ کے انوار اور اللہ تعالیٰ کی تجلیات منعکس ہوتی ہیں۔ فنا فی الرسول کے بعد کوئی سالک قدم بقدم محبت و عشق اور گداز کے ساتھ حضورﷺ کے علوم کا عارف ہوتا رہتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ حضورﷺ کے علوم سالک کو اس کی استطاعت کے مطابق حاصل ہو جاتے ہیں۔ جتنی استطاعت کسی سالک کے اندر موجود ہے اور جس مناسبت سے حضورﷺ کے علوم اسے منتقل ہوئے اسی مناسبت سے وہ حضورﷺ کی نسبت سے فائز ہوا۔ تصوف میں اس نسبت کو نسبت محمدیﷺ کہا جاتا ہے۔ نسبت محمدیﷺ حاصل ہونے کے بعد سالک کا ذہن اللہ تعالیٰ کی صفات کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور بالآخر وہ حضورﷺ کی نسبت اور ہمت کے وسیلے سے اس مقام پہ جا ٹھہرتا ہے جس مقام پہ رہتے ہوئے اس نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ جی ہاں! آپ ہمارے رب ہیں۔ اس نسبت کو تصوف میں نسبت وحدت کہا جاتا ہے اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ فضل فرمائیں تو وہ مقامات کھلتے ہیں جن کے بارے میں لکھنا یا بتانا، شعوری سکت سے باہر ہے۔ مقصد اس تمام گفتگو کا یہ ہے کہ انسان کے اندر دماغ ایک ایسی سکرین ہے جس پہ عکس مسلسل اور متواتر بغیر وقفہ کے منتقل ہوتا رہتا ہے یہ الگ بات ہے کہ عکس کی معنویت جدا جدا ہے اگر عکس کی یہ منتقلی علم حصولی کے دائرہ کار میں ہے تو اس علم کی تمام معنویت مفروضہ اور فکشن ہے اور اگر اس عکس کی منتقلی علم حضوری کے دائرہ کار میں ہے تو عکس کے اندر موجود تمام علوم حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں لیکن قانون تو اپنی جگہ قانون ہے۔ جب تک ذہن انسانی پر کوئی عکس منتقل نہیں ہوتا۔ انسان کی نظر کام نہیں کرتی۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ آدمی اندھا ہے، اس کی آنکھیں نہیں ہیں۔ وہ بھی دوسری چیزوں کو محسوس کرتا ہے سمجھتا ہے، ان کی علمی حیثیت کو جانتا ہے۔ ہم یہ بتا چکے ہیں کہ دیکھنے کا عمل ڈیلوں کی حرکت اور پلک جھپکنے پر قائم ہے۔
اس ساری گفتگو کا لب لباب یہ ہوا کہ روحانی علوم حاصل کرنے کے لئے نسبت حاصل ہونا ضروری ہے۔ نسبت سے مراد دراصل اس استاد یا پیرو مرشد کی طرز فکر ہے جس سے روحانی علوم منتقل ہوتے ہیں۔ روحانی علوم منتقل ہونے سے مراد ہے کہ یہ ایک قسم کا ایسا ورثہ ہے جو شیخ کی روحانی اولاد کو منتقل ہوتا ہے۔ جس طرح ایک باپ کی دنیاوی دولت اولاد میں تقسیم ہوتی ہے۔ نسبت یا طرز فکر کے دو رخ ہیں ایک رخ یہ کہ ایسے بندے کی طرز فکر منتقل ہو جس کے ذہن میں دنیاوی جاہ و جال، عزت و شہرت کی اہمیت ہو۔
دوسری نسبت یہ ہے کہ استاد کی طرز فکر منتقل ہو جس کی طرز فکر میں اور جس کے ذہن میں دنیاوی جاہ و جلال کی کوئی خاص وقعت نہ ہو۔ اس حد تک وہ دنیا سے متعلق ہو کہ اس کی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ ضروریات کے سلسلے میں بھی اس کی طرز فکر میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بنیادی طور پر دنیاوی ضروریات کم سے کم ہونی چاہئیں وہ طرز فکر جس میں دنیا کی محبت ہے اور دنیاوی آرام و آسائش کی اس کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت ہے، میں بھی روحانی قدریں موجود ہیں۔ اس طرز فکر سے بندے کے اندر بھی روحانی استعداد موجود ہوتی ہے اور ایسے استاد یا گرو سے جو علم منتقل ہوتا ہے اس کو بھی روحانی علوم سے باہر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسے علوم جو روحانیت کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور طرز فکر بنیادی طور پر دنیاوی ہو تصوف کی اصطلاح میں استدراج کہلاتے ہیں۔ استدراج سے مراد یہ ہے کہ ایسے علوم جن کے ڈانڈے شیطان سے ملتے ہوں یعنی بنیادی طور پر شیطنت اس کے اندر موجود ہو۔ ہم اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ ابلیس جن علوم سے فیض یاب ہے اور جو علوم اسے حاصل ہیں یا اس کی ذریات کو حاصل ہیں وہ بھی ایک درجہ میں روحانی علوم ہیں۔ اس کے برعکس وہ روحانی علوم جو ایسے استاد سے منتقل ہوتے ہیں جن کی طرز فکر میں دنیا محض ایک فریب ہے اور فکشن ہے ان کو علم حضوری کہا جاتا ہے۔ روحانی علوم کی دو طرزیں ہیں ایک استدراج اور ایک علم حضوری۔ استدراج سے مراد وہ تمام شیطانی علوم ہیں جو آدمی اپنی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے حاصل کر لیتا ہے۔ یہ بات بہت زیادہ غور طلب ہے کہ استدراجی علوم بھی بطور ورثہ کے منتقل ہوتے ہیں اس بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ استاد کی شیطانی طرز فکر مرید کے ا ندر منتقل ہو گئی۔ استدراج کو حاصل کرنے کے لئے بھی ذکر و اشغال موجود ہیں۔ اس علم کو حاصل کرنے کے لئے بھی محنت و مشقت اٹھانی پڑتی ہے اور بڑی بڑی ریاضتیں کرنی پڑتی ہیں۔ اسی طرح علم حضوری حاصل کرنے کے لئے بھی بڑی بڑے مجاہدے اور ریاضتیں کرنی پڑتی ہیں۔ جس طرح ایک روحانی آدمی سے کوئی کرامت صادر ہوتی ہے اسی طرح ایک ایسے آدمی سے بھی خرق عادت صادر ہوتی ہے جو استدراج کا یا شیطانی علوم کا وارث ہے۔ یہ بات کہ استدراج اور شیطانی علوم سے خرق عادت کا صادر ہونا یا علم حضوری یا انبیاء کے علوم کے تحت کسی کرامت یا خرق عادت کا صادر ہونا قرآن پاک سے ثابت ہے۔ حضرت موسیٰ کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بالوضاحت بیان فرمایا ہے۔ فرعون نے اپنے ملک کے تمام ماہر جادوگروں کو طلب کیا اور ایک مقررہ دن جو حضرت موسیٰ سے مقابلے کے لئے مقرر ہوا۔ ایک بڑے میدان میں وہ تمام ماہرین علم استدراج اور جادوگر جمع ہوگئے۔ اس میدان میں حضرت موسیٰ بھی موجود ہیں سوال کیا گیا کہ اے موسیٰ! پہل آپ کی طرف سے ہو گی یا ہماری طرف سے؟ جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ نے ارشاد فرمایا۔ اے جادوگر! پہل تم کرو۔ جادوگروں نے رسیاں پھینکیں جو سانپ بن گئیں اور بانس پھینکے جو اژدھے بن گئے۔ حضرت موسیٰ اس ہیت کو دیکھ کر گھبرا گئے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ ’’اے موسیٰ ڈرو مت اپنے عصا کو پھینک دو۔‘‘ حضرت موسیٰ کا عصاء یا لاٹھی ایک بڑا اژدھا بن گیا اور اس نے میدان میں موجود تمام سانپوں اور اژدھوں کو نگل لیااور اس طرح علم استدراج یا جادو کے علوم پر علم حضوری کو فتح حاصل ہوئی لیکن یہ بات محل نظر رہے کہ جادوگروں نے رسی پھینکی تو سانپ بن گئی اور بانس پھینکے تو اژدھے بنے اور موسیٰ نے لاٹھی پھینکی تو وہ بھی ایک اژدھا بن گئی۔ فرق اگر کچھ ہے تو یہ کہ موسیٰ کی ایک لاٹھی اتنا بڑا اژدھا بن گئی کہ اس نے میدان میں موجود بے شمار سانپوں اور اژدھوں کو نگل لیالیکن جہاں تک جادوگروں کی خرق عادت یا جادو کا تعلق ہے ان کی رسیاں بھی سانپ بنتی ہیں اور جہاں تک موسیٰ کے معجزہ کا تعلق ہے ان کی لاٹھی بھی اژدھے کی صورت اختیار کرتی ہے البتہ ایک بات ہمیں نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ موسیٰ کا بنایا ہوا اژدھا بہت زیادہ طاقتور تھا۔ یعنی جادو اور علم حق دونوں علوم کا وجود تو ہے مگر علم حق ہمیشہ شیطانی علوم یا استدراج پر غالب آتا ہے اس بات کو ذرا آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس طرح کہا جائے گا کہ علم کا تعین دو درجوں میں ہوتا ہے۔ ایک درجہ یہ ہے کہ اس علم کی بنیاد زر پرستی، جاہ طلبی اور دنیاوی عزت و وقار ہوتا ہے اور علم حق کی تعریف یہ ہے کہ علم حق میں ماسوا اللہ کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ علم حق والا بندہ جو کچھ کرتا ہے، جو کچھ دیکھتا ہے، جو کچھ سنتا ہے وہ حق کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے پیش نظر کوئی ناموری نہیں ہوتی۔ اس کے پیش نظر زر پرستی نہیں ہوتی۔ اس کے پیش نظر کوئی دنیاوی لالچ نہیں ہوتا۔ اس کے ذہن میں کبھی یہ بات نہیں آتی کہ مجھ سے کوئی ایسی خرق عادت صادر ہو جس کی وجہ سے لوگ مرعوب ہوں اور میری عزت کریں۔ اس کے برخلاف علم استدراج والوں کا ذہن ہوتا ہے کہ وہ اپنے کارنامے دکھا کر دنیا حاصل کریں اور دنیا کی نظر میں سرخرو ہوں اس کی سند بھی قرآن پاک سے ملتی ہے۔ فرعون مصر نے جادوگروں کو طلب کر کے کہا کہ اگر تم نے موسیٰ کو زیر کر دیاتو میں تم کو مالا مال کر دوں گا اور تمہیں اپنا مصاحب بنا لوں گا۔۔۔۔۔۔اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ جادوگروں نے اپنے جادو کے زور پر جو کارنامے انجام دیئے اس کے پیچھے ان کے خیالات اغراض و مقاصد اور دنیا پرستی تھی۔ جب کہ موسیٰ نے میدان میں آنے سے پہلے اس قسم کی کسی بات کا خیال تک نہیں کیا۔ محض حق کے غلبہ کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت کو ظاہر کرنے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ شیطانی علوم علم حق کے سامنے باطل ہیں، کمزور ہیں، جھوٹے ہیں، میدان میں تشریف لے آئے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ’’ڈر مت اپنی لاٹھی پھینک دے‘‘ یہ ثابت کرتا ہے کہ موسیٰ کے ساتھ میدان میں جو کچھ پیش آیا وہ اس کے لئے تیار نہیں تھے۔ محض اللہ کے بھروسہ پر ان بڑے بڑے طاقت ور جادوگروں کے سامنے اللہ کے لئے کھڑے ہو گئے۔ اس واقعہ میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جادوگروں نے جو رسیاں پھینکی تھیں اور ان کے سانپ بن گئے تھے اور جو بانس پھینکے تھے ان کے اژدھے بن گئے تھے یہ سب فریب دھوکا اور فکشن تھا اس لئے کہ جب موسیٰ کے عصا نے ان کو نگل لیا تو ان کا کوئی وجود قائم نہیں رہا جب کہ موسیٰ نے اپنی لاٹھی پر دوبارہ ہاتھ ڈالا تو ان کی لاٹھی موجود تھی۔ معجزہ اور جادو میں یہ فرق بہت نمایاں ہے جادو کے زور سے کوئی چیز قائم کی جائے یا کسی کے اندر تصرف کیا جائے چونکہ وہ اس ذہن کی پیداوار نہیں ہے جو ذہن حقیقت سے آشنا ہے اس لئے جادو کی تخلیق یا جادو کا یہ مظاہرہ عارضی ہوتا ہے۔ قانون یہ ہے کہ حقیقت ادلتی بدلتی نہیں ہے حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے اور حقیقت رہتی ہے جادو کے زور سے بنے ہوئے سانپ اور جادو کے زور سے بنے ہوئے اژدھے سب نیست و نابود ہو گئے اور موسیٰ کی لاٹھی اپنی جگہ موجود رہی۔ اس واقعہ سے روحانیت میں چلنے والے شاگردوں کے لئے یہ راز ظاہر ہوتا ہے کہ طرز فکر اگر غیر حقیقی ہو تو وہ عارضی ہوتی ہے اور اس سے آدمی ذہنی طور پر فرار حاصل کر لیتا ہے طرز فکر اگر حقیقی ہو تو حقیقت آشنا، طرز فکر جہاں بھی منتقل ہو جائے۔ حقیقت آشنا رہتی ہے اور حقیقت میں رد و بدل نہیں ہوتا۔ ایک استاد یا گرو اپنے چیلے کو جب استدراجی علوم سکھاتا ہے اور یہ علوم سکھانے کے لئے چیلے کے اندر اپنی طرز فکر منتقل کرتا ہے تو وہ چیلا گرو تو بن جاتا ہے لیکن یہ گرو کسی بھی وقت اس طرز فکر سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے یا کر سکتا ہے اور ایک ایسا بندہ جو سیدنا حضورﷺ یا پیغمبران اکرام کی طرز فکر سے آشنا ہے یا اولیاء اللہ کی طرز فکراسے فی الواقع منتقل ہو گئی ہے تو یہ بندہ اس طرز فکر سے کبھی آزاد نہیں ہوتا اور اس طرز فکر میں برابر اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ حقیقت، حقیقت سے گلے مل لیتی ہے۔ تاریخ میں ایسی ایک مثال موجود نہیں ہے کہ کسی ایسے بندے نے جو حقیقی طرز فکر کا حامل تھا۔ علم استدراج کی طرف رجوع کیا ہو اور ایسی ہزار ہا مثالیں موجود ہیں کہ علم استدراج کے بڑے بڑے ماہر اور دانش وروں نے اسلام کی حقانیت کو قبول کر کے شیطانی علوم سے اپنا دامن صاف کر لیا۔ پیر و مرشد دراصل ایک استاد یا گرو کی طرح ہے بات صرف اتنی سی ہے کہ استاد کے اندر طرز فکر کون سی کام کر رہی ہے؟ اس طرز فکر کا تعلق شیطنت سے ہے یا اس طرز فکر کی رسائی حق تک ہے۔ جس طرز فکر کی رسائی حق تک ہے۔ وہی طرز فکر بندے کو اللہ سے متعارف کراتی ہے اور ایسا ہی بندہ راہ سلوک میں قدم قدم چل کر اللہ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔
طرز فکر کے بارے میں جو کچھ عرض کیا گیا اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ دراصل انسان کا کردار اس کی طرز فکر سے تعمیر ہوتا ہے۔ طرز فکر میں اگر پیچ ہے تو کسی بندے کا کردار بھی پر پیچ بن جاتا ہے۔ طرز فکر سادہ ہے تو بندے کی زندگی میں سادگی کارفرما ہوتی ہے۔ طرز فکر اگر سطحی ہے تو ایسا بندہ ہر چیز کو بالکل سطحی طریقہ پر سوچتا ہے طرز فکر میں اگر گہرائی ہے تو بندہ ہر چیز کے اندر گہرائی تلاش کرنے کے لئے تفکر کرتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے اسی طرز فکر کی نشاندہی کی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے سورج کو دیکھا تو سمجھا کہ یہی خدا ہے لیکن جب اسے زوال پذیر ہوتے دیکھا تو طرز فکر کی گہرائی نے ان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ گھٹنے والی چیز کبھی خدا نہیں ہو سکتی۔ حضرت ابراہیمؑ کے ماحول میں جتنے اور لوگ تھے ان کی سمجھ میں کبھی یہ بات نہیں آئی کہ بدلنے والی اور گھٹنے والی چیز کبھی خدا نہیں ہو سکتی۔ ہزاروں لاکھوں آدمیوں کی موجودگی میں فرد واحد کی سوچ الگ ہے اور اس سوچ میں حقیقت پسندی اور گہرائی ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ بہت بڑے ماحول میں ایک خاص طرز فکر کے لوگوں میں رہتے ہوئے بھی طرز فکر الگ ہو سکتی ہے۔ یہ حقیقت پسندانہ طرز فکر کہاں سے منتقل ہوئی۔ جب کہ پورے ماحول میں یہ کہیں نظر نہیں آتی، اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ حقیقت پسندانہ طرز فکر ہر آدمی کے اندر موجود ہے لیکن ہر آدمی اسے استعمال نہیں کرتا۔ حضرت ابراہیمؑ نے بتوں کو توڑ ڈالا۔ لوگوں کے اندر اشتعال پیدا ہو گیا اور حضرت ابراہیمؑ سے پوچھا کہ ان خداؤں کو کسی نے توڑا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اپنے ان خداؤں سے پوچھ لو۔ باوجود اس کے کہ ان لوگوں کے سامنے یہ بات آ گئی کہ بت اپنی مرضی اور منشاء کو استعمال نہیں کر سکتے اور انہیں توڑا پھوڑا جا سکتا ہے ان کے اندر حقیقت پسندی نے حرکت نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی غیر حقیقی باتوں کو اصل اور حقیقی سمجھتا ہے۔ تصوف میں سالک جب راہ سلوک اختیار کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کی طرز فکر میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور اس طرز فکر کی داغ بیل اس طرح پڑتی ہے کہ روحانی استاد یا پیر و مرشد بتدریج اپنے شاگرد سے اس قسم کی باتیں کرتا ہے جو اس کے ماحول میں موجود نہیں ہوتیں یا ماحول میں بسنے والے لوگ ان کی طرف اپنے اختیار سے توجہ نہیں دیتے۔ مثلاً اگر یہ کہ فی الواقع کوئی روحانی شخصیت ہے اس کی مجلس میں بیٹھ کر ایسی باتیں سننے میں آتی ہیں جو عام طور پر دوسری مجلسوں میں نہیں کہی جاتیں۔ بعض اوقات یہ باتیں اتنی دلچسپ اور عجیب ہوتی ہیں کہ ایسے لوگ بھی جن کی طرز فکر ناقص ہے اور یہ ناقص طرز فکر ان کے اندر مستحکم ہے وہ بھی ان باتوں کو سننے کے لئے اس مجلس میں شریک ہوتے ہیں سب سے پہلے پیر و مرشد جو کام سر انجام دیتا ہے وہ یہ ہے کہ مرید کے اندر اس بات کو راسخ کر دیتا ہے کہ اس دنیا کی زندگی مفروضہ فکشن اور عارضی ہے جو چیز مفروضہ فکشن اور عارضی ہے اس کو حقیقت نہیں کہا جا سکتا۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ باوجود یہ کہ آدمی خود کو بااختیار سمجھتا ہے زندگی کے شب و روز میں کہیں بھی اس کا اختیار زیر بحث نہیں آتا، وہ پیدائش کے بعد بالکل غیر اختیاری طور پر بڑھتا رہتا ہے۔ جوانی کے بعد یہ نہ چاہنے کے باوجود کہ وہ بوڑھا ہو بالآخر وہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ دنیا کا ایک فرد بھی یہ نہیں چاہتا کہ وہ مر جائے لیکن جو آدمی پیدا ہوتا ہے وہ ضرور مرتا ہے۔ آدمی کو اس بات پر تو اختیار حاصل ہے جیسا کہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ غذائی ضروریات کو کم یا زیادہ کر لے لیکن اس بات پر اس کو بالکل دسترس حاصل نہیں کہ وہ ساری زندگی کھانا نہ کھائے یا ساری زندگی پانی نہ پیئے یا ہفتوں مہینوں بیدار رہے۔ یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو ہر شخص کے ساتھ نہ صرف یہ کہ پیش آتی ہیں بلکہ اس کے ہر ہر لمحہ کے ساتھ چپکی ہوئی ہیں۔ لمحات، وقت، گھنٹے، دن، مہینے اور سالوں کا یہ تغیر ایک ایسا تغیر ہے جس سے کوئی باہوش آدمی انکار نہیں کر سکتا۔ ان تمام تغیرات کی نشاندہی کر کے پیر و مرشد یہ بات بتاتا ہے کہ اس تغیر کے پیچھے یہ حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ کوئی ذات ایسی ہے جس کے ہاتھ میں اس تغیر و تبدل کی ڈوریاں ہیں اور وہ ہاتھ سے ان ڈوریوں کو جس طرح حرکت دے رہا ہے زندگی تغیر پذیر ہو رہی ہے۔ جب سالک کے ذہن میں یہ دن رات کا ایسا مشاہدہ جس کے اوپر عوام الناس نے پردہ ڈالا ہوا ہے سامنے آتا ہے تو اس کا ذہن خود بخود اس ہستی مطلق کی طرف رجوع کر جاتا ہے جس ہستی کے ہاتھ میں تغیر و تبدل کی ڈوریاں حرکت کر رہی ہیں یہ طرز فکر کا پہلا بیج ہے جو کسی مرید یا سالک کے دماغ میں بو دیا جاتا ہے پھر اس بیج کو پروان چڑھانے کے لئے پیر و مرشد مزید جدوجہد اور کوشش کرتا ہے اور وہ ایسے برگزیدہ حضرات کو سامنے لاتا ہے جن کی طرز فکر میں حقیقت پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔
مثلاً یہ کہ وہ اپنے روحانی تصرف سے مرید کو خواب کی ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جس دنیا سے اولیاء اللہ اور پیغمبروں کی زیارت اسے نصیب ہوتی ہے۔ مسلسل اور متواتر خواب کا مشاہدہ کے بعد اولیاء اللہ اور پیغمبروں کی طرز فکر پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی طرز فکر پر ایک ایسا رنگ چڑھ جاتا ہے جو رنگ اولیاء اور پیغمبروں کے لئے مخصوص ہے اس کی باطنی آنکھ پر پیر و مرشد ایسی عینک لگا دیتا ہے کہ عینک کے اندر لگے ہوئے شیشے اسے وہی کچھ دکھاتے ہیں جو پیر و مرشد کی طرز فکر ہے۔ عام مثال سے اسے بہت آسانی کے ساتھ اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ عینک کے اندر جس قسم کے شیشے لگے ہوئے ہیں آدمی کو چیزیں اسی رنگ کی نظر آتی ہیں۔ عینک کے شیشے اگر سرخ ہیں تو اسے ہر چیز سرخ نظر آتی ہے۔ عینک کے شیشے اگر پیلے ہیں تو اسے ہر چیز پیلی نظر آتی ہے۔ عینک کے شیشے اگر صاف و شفاف ہو اور مجلے ہیں تو اسے ہر چیز صاف و شفاف اور مجلے نظر آتی ہے۔ عینک کے شیشے اگر دھندلے ہیں تو ہر چیز دھندلی نظر آتی ہے اور اگر عینک کے شیشے اندھے ہیں تو عینک آنکھ پر لگانے کے باوجود آنکھ اندھی رہتی ہے حالانکہ عینک لگانے کے بعد آنکھ کھلی ہوئی ہے۔ عینک کا شیشہ دراصل طرز فکر ہے۔ عینک کے اندر جس قسم کی طرز فکر کا شیشہ فٹ کر دیا جاتا ہے۔ دنیا اسے اسی طرح نظر آتی ہے عینک کے اندر فٹ ہوا لینز اتنا صاف اور مجلے بھی ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے کہ آدمی میلوں پرے کی چیز دیکھ لیتا ہے اور عینک کے اندر لگا ہوا شیشہ اتنا اندھا بھی ہوتا ہے کہ عینک لگانے کے بعد آدمی کو اتنا بھی نظر نہیں آتا جتناوہ عینک لگائے بغیر دیکھ لیتا ہے۔ یہ دیکھنا، سمجھنا، چیزوں کی ماہیت کو معلوم کرنا، تفکر کرناہر آدمی کے اندر موجود ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ان صلاحیتوں کا اسے استعمال نہیں آتا۔ پیر ومرشد چونکہ تفکر کی صلاحیتوں کے استعمال کو جانتا ہے اور اس کی تمام زندگی تفکر سے تعبیر ہے اس لئے جب مرید کے اندر پیر و مرشد کی صلاحیت منتقل ہوتی ہے تو تفکر کا بویا ہوا بیج آہستہ آہستہ تناور درخت بن جاتا ہے۔ اس بیج کو تناور درخت بننے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ آدمی کا اپنا ذاتی ارادہ اور عقل و شعور ہے۔ روحانیت میں کوئی بندہ جب اپنی ذات کو سامنے لے آتا ہے اور عقل و شعور کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے تو اسے کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ اس کے اندر جو عقل و شعور کام کر رہا ہے اس کا تعلق اس طرز فکر سے ہے جس طرز فکر میں گہرائی نہیں ہوتی۔ حقیقت پسندی نہیں ہے۔ جس طرز فکر کو ثبات نہیں ہے۔ اب ہم اس بات کو اس طرح کہیں گے کہ ایک پیر و مرشد ہے، روحانی استاد ہے اور ایک شاگرد ہے، پیرو مرشد کو ہم مراد اور روحانی شاگرد کو ہم مرید کا نام دیتے ہیں۔
ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ بچہ وہی زبان بولتا ہے جو ماں باپ کی زبان ہے اور اس زبان کو سیکھنے کے لئے بچہ کے لئے کوئی درس و تدریس کا سلسلہ قائم کرنا نہیں پڑتا۔ بچہ جس طرح ماں باپ کو بولتے دیکھتا ہے وہی الفاظ اپنی زبان میں بولنا شروع کر دیتا ہے۔ عمر کی مناسبت سے الفاظ ٹوٹے پھوٹے ہوتے ہیں بالآخر وہ اپنی مادری زبان اس طرح بولتا ہے جیسے یہ ہمیشہ سے سیکھا سکھایا پیدا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین جس طرح خورد و نوش کا انتظام کرتے ہیں بچہ بھی اسی طرح کھانا کھاتا ہے۔ جس طرح ماں باپ کھاتے ہیں اس کو یہ بتانا نہیں پڑتا کہ کھانا اس طرح کھایا جاتا ہے۔ والدین جس قسم کا لباس پہنتے ہیں بچہ بھی اسی قسم کا لباس زیب تن کرتا ہے۔ ماحول اگر پاکیزہ اور صاف ستھرا ہے تو بچے کا ذہن بھی پاکیزہ اور صاف ستھرا رہتا ہے۔ والدین اگر گالیاں بکتے ہیں تو گھر میں بچے کے لئے گالی دینا کوئی خلاف معمول یا بری بات نہیں ہوتی۔ مختصر یہ کہ بچے کے اوپر وہ تمام اثرات مرتب ہوتے ہیں جو اس کے ماحول میں موجود ہیں۔ گھر کی چاردیواری اور والدین کی آغوش سے نکل کر جب بچہ گھر سے باہر کے ماحول میں۔۔۔۔۔۔قدم رکھتا ہے تو اس کے اوپر تقریباً وہ تمام اثرات مرتب ہوتے ہیں جو ماحول میں موجود ہیں۔ روحانی نقطہ نظر سے دنیا میں نیا آنے والا کوئی فرد ذہنی طور پر آدھا ماحول کے زیر اثر ہوتا ہے اور آدھا والدین کی ذہنی افتاد سے مطابق ہوتا ہے۔ اس غیر اختیاری تربیت کے بعد ایک دوسرا دور شروع ہوتا ہے وہ یہ کہ والدین اپنے لخت جگر کو کیا بنانا چاہتے ہیں؟ والدین اگر بچہ کے اندر خاندانی روایات اور خود نمائی کی عادات منتقل کر دیتے ہیں تو بچہ کے اندر خود نمائی کے اثرات غالب آ جاتے ہیں۔ والدین اگر بچہ کو صحیح تربیت کے ساتھ ایسے علوم سکھاتے ہیں جن علوم میں اخلاقیات کا زیادہ دخل ہوتا ہے تو بچہ بااخلاق ہوتا ہے اور شعور کی منزل میں داخل ہو کر ایک ایسا پیکر بن جاتا ہے جو معاشرے کے لئے عزت و توقیر کا باعث ہوتا ہے۔ والدین کی طرز فکر اگر دولت پرستی ہے تو اولاد کے اندر بھی دولت پرستی کے رجحانات زیادہ مستحکم ہو جاتے ہیں اس کا مفہوم یہ نکلا کہ تربیت کے دو طریقہ کار ہیں:
ایک غیر اختیاری اور ایک اختیاری۔ غیر اختیاری یہ کہ بچہ جو کچھ گھر کی چار دیواری اور اپنے ماحول میں دیکھتا ہے اسے قبول کر لیتا ہے۔ اختیاری صورت یہ ہے کہ والدین اسے ایک مخصوص تربیت کے ساتھ معاشرہ میں روشناس کراتے ہیں اور جب یہ نابالغ فرد بالغ ہو جاتا ہے اس کی ایک شخصیت بن جاتی ہے اور وہ اپنی شخصیت کو سامنے رکھ کر والدین اور ماحول سے ملے ہوئے اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک کردار متعین کرتا ہے اور یہ کردار اس کا اپنا تشخص بن جاتا ہے۔ ان الفاظ کو مختصر الفاظ میں یوں کہا جاتا ہے کہ کسی بندے کے کردار کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ اسے مخصوص طرز فکر حاصل کرنے کے لئے قربت حاصل ہو۔ جس طرح ایک عام فرد کے لئے ماحول والدین رشتہ دار اور تعلیمی درسگاہیں قربت کا ذریعہ بن کر اس کے کردار کی تشکیل کرتی ہیں اسی طرح روحانی آدمی کے کردار کی بھی تشکیل ہوتی ہے اور وہ اس طرح ہوتی ہے کہ اسے ایسے کسی بندے کی قربت حاصل ہو جائے جس کا کردار روحانی قدروں پر محیط ہے۔ پیر و مرشد یا مراد وہ شخصیت ہے جس کا کردار عوام الناس سے اور ان لوگوں سے جو روحانی حقیقتوں سے بے خبر ہیں ممتاز ہوتا ہے اس ممتاز شخصیت سے جس حد تک قربت ہوتی جاتی ہے اسی مناسبت سے مرید کے اندر وحانی اوصاف منتقل ہوتے رہتے ہیں اور مراد کی طرز فکر کا ایک ایک جزو مرید کے دماغ کی سکرین پر نقش ہو جاتا ہے یہی وہ طرز فکر ہے جس کا نام سلوک ہے یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر کوئی سالک اپنے اندر موجود روحانی قوتوں سے متعارف ہوتا ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس کے اوپر اس بات کا دارومدار ہے کہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات سے کتنا متعارف ہے اور اسے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت کس حد تک حاصل ہے۔ قرآن پاک میں بیان کردہ پیغمبروں کے واقعات، پیغمبروں کی زندگی، پیغمبروں کے مشن اور اوصاف پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ پیغمبروں نے ایک مخصوص طرز فکر کا پرچار کیا ہے اس مخصوص طرز فکر میں بہت گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ پیغمبرانہ وصف میں یہ بات شامل ہے کہ ہر بندہ برائی اور اچھائی میں تمیز کر سکے، یعنی پیغمبروں نے نوع انسانی کو اچھائی اور برائی کے تصور سے آشنا کیا ہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ جہاں تک زندگی کے تقاضوں کا تعلق ہے تقاضوں کے اعتبار سے اللہ کی سب مخلوق یکساں حیثیت رکھتی ہے۔ دوسری مخلوق کے سامنے اگر انسان کی ممتاز حیثیت ہے تو وہ یہ ہے کہ انسان اچھائی اور برائی کے تصور سے واقف ہے اسے اس بات کا علم دیا گیا ہے کہ زندہ رہنے کے لئے مخصوص طرزیں انسان کو اچھا بناتی ہیں اور زندہ رہنے کے لئے مخصوص طرزیں۔۔۔۔۔۔اچھائی سے دور کر دیتی ہیں۔ اچھائی کے تصور کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی انسان کا علم بن جاتی ہے کہ اچھا فرد وہ ہے جو اپنی اصل سے واقف ہو اور باخبر ہو۔ اصل باخبری اسے ایک ایسے علم سے روشناس کراتی ہے کہ جو علم اسے اپنے اندر کام کرنے والی مخفی صلاحیتوں سے واقف کراتا ہے اور یہ مخفی صلاحیتیں دراصل روحانی قدریں ہیں جو بندہ جس مناسبت سے روحانی قدروں سے واقف ہے اتنا ہی وہ کردار کے اعتبار سے مصفا اور پاکیزہ ہے اور جو آدمی روحانی قدروں سے جس حد تک ناواقف ہے اسی مناسبت سے اس کا کردار غیر مصفا اور دھندلا ہے۔ ایک بکری اور انسان کی زندگی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ایک ہی بات کہنے پر آدمی مجبور ہے کہ بکری اور انسان میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے۔ انسان کو بکری سے ممتاز کرنے والی صلاحیت یہ ہے کہ انسان اپنے اندر روحانی قدروں سے واقف ہو جاتا ہے اور اگر کوئی انسان اپنے اندر روحانی قدروں سے ناواقف ہے یا اسے اپنی ذات کا عرفان حاصل نہیں ہے تو وہ ہرگز بکری یا کسی دوسرے جانور سے ممتاز نہیں ہے۔ روحانی اقدار حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے اپنے ایسے باپ کی آغوش میسر ہو جس کے اندر روحانی قدروں کا دریا موجزن ہو اور اسے ایسا ماحول میسر ہو جس ماحول میں پاکیزگی موجود ہو۔ باپ سے مراد پیر و مرشد ہے اور ماحول سے مراد یہ ہے کہ اس پیر و مرشد کی ایسی اولاد جو اس سے روحانی رشتہ میں وابستہ ہے زمین پر پیدا ہونے والے بچے کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ بچے کا شعور والدین کی گود، گھر کی چار دیواری اور ماحول سے بنتا ہے ماحول میں اگر کثافت ہے تعفن ہے، گھٹن ہے، گندگی ہے، بے سکونی ہے، اضطراب ہے تو بچہ بھی ذہنی طور پر ذہنی سکون سے نا آشنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر گھر میں سکون ہے، آرام ہے، والدین کی آواز میں شیرینی اور مٹھاس ہے، لہجے میں پیار ہے اور دماغی اعتبار سے وہ پرسکون ہیں اس کا ماحول بھی پر سکون ہے بچہ بالکل غیر اختیاری طور پر سکون کردار کا حامل ہوتا ہے۔
یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ چیخ کربولنے والے ماں باپ کے بچے بھی چیخ کر بولتے ہیں۔ غصے اور نفرت سے بولنے والے والدین کے بچوں کے اندر بھی غصہ اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ ندیدے اور لالچی والدین کے بچے بھی ندیدے اور لالچی ہوتے ہیں۔ کبر و نخوت کے دلدادہ والدین کے بچوں کے اندر بھی کبر و نخوت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ ضدی اور سرکش والدین کے بچے بھی ضدی اور سرکش ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس حلیم الطبع والدین کی اولاد بھی حلیم الطبع ہوتی ہے۔ پیغمبروں کی زندگی کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخصوص کردار کے لوگوں کا ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور جو لوگ اس سلسلے سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور ان کی وابستگی قربت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے تو ان کے اندر وہی قدریں منتقل ہو جاتی ہیں جو اس مخصوص کردار کے بامقصد لوگوں کا حصہ ہیں۔ راہ سلوک میں چلنے والے سالک کو کسی شخص کا ہاتھ پکڑنا اس لئے ضروری ہے کہ اسے ایک روحانی باپ کی۔۔۔۔۔۔شفقت میسر آئے اور اس روحانی باپ کی اولاد کا ایک ماحول میسر آ جائے تا کہ اس ماحول میں رہ کر اس کی ذہنی تربیت ہو سکے۔
ذہنی تربیت کا تجزیہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ تربیت کے مختلف پہلوؤں میں، تربیت کا ہر مختلف پہلو انسانی زندگی میں ایک مستقل کردار ادا کرتا ہے جس ماحول میں ہم لوگ رہتے ہیں اس ماحول کے مطابق کم یا زیادہ ذہن کا متاثر ہونا ضروری ہے مثلاً ایک آدمی ایسے ماحول میں رہتا ہے جس ماحول کے رہنے والے لوگ سب کے سب نمازی ہیں اور ان کی زندگی میں دین کا عمل دخل پوری طرح موجود ہے اس ماحول سے متاثر ہو کر ہم بھی انہی قدروں کو اپنا لیتے ہیں جو قدریں ماحول میں رائج ہیں۔ ایک آدمی طبعی طور پر کتنا ہی خشک کیوں نہ ہو جب وہ ایسے ماحول میں چلا جاتا ہے جہاں رنگ و روشنی کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں اور گانوں کے اونچے نیچے سروں سے فضا معمور ہوتی ہے تو بالآخر وہ بندہ گانے بجانے میں دلچسپی لینے لگتا ہے اور گانے بجانے کے قوائد و ضوابط سے بھی آگاہی ہو جاتی ہے۔ ایک آدمی ایسے ماحول میں رہتا ہے جس ماحول میں جوا یا اس قسم کے لہو و لعب کی دنیا آباد ہے وہ بندہ کتنا ہی صاف ستھرا ہو بالآخر اس ماحول کا رنگ آ جاتا ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ اگر ایک بچے کی ایسے ماحول میں پرورش کی جائے جس ماحول میں گالی دینا معیوب بات نہ ہو تو بچہ اختیاری اور غیر اختیاری طور پر گالیاں بکتا رہتا ہے۔ اگر پرورش ایسے ماحول میں کی جائے جس ماحول میں ظلم سختی اور درندگی ہو تو بچے کا ذہن بھی سختی اور درندگی کی طرف ہو جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں پرورش کی جائے جس ماحول میں خود غرضی کے علاوہ اور کوئی بات موجود نہ ہو ہر کام اس لئے کیا جاتا ہو کہ اس کے ساتھ کوئی غرض وابستہ ہو۔ ذہنی طور پر ماحول میں سارے بندے کاروباری ذہن رکھتے ہوں تو بچہ بھی کاروباری ذہن پر اٹھتا ہے۔ ماحول میں سخاوت کی بجائے بخیلی اور کنجوسی ہو تو بچوں کا دل بھی کھلا ہوا نہیں ہوتا۔ ان روزمرہ مشاہدات کے پیش نظر یہ بات مسلمہ امر بن گئی کہ دنیا میں جتنے گروہ آباد ہیں ان کا تعلق اپنی اپنی طرز فکر سے ہے اور اس طرز فکر کی بنیاد پر ہی کسی گروہ کا کسی ذات کا کسی برادری کا کسی کردار کا کسی تشخص کا تعین کیا جاتا ہے۔ ہمارے سامنے پیغمبروں کا بھی کردار ہے۔
دنیا کی تاریخ میں ان لوگوں کا کردار بھی ثابت ہے جن لوگوں نے پیغمبروں کی مخالفت کی اور پیغمبروں کو قتل کیا۔ تاریخ کے صفحات میں ایسے لوگوں کا کردار بھی موجود ہے جس کردار میں سخاوت عام ہے اور ایسے کردار بھی موجود ہیں جن میں کنجوسی اور بخیلی اپنی معراج کو پہنچی ہوئی ہے اس بات کو مزید تشریح کے ساتھ اس طرح کہا جائے گا کہ کنجوسی اور بخیلی کے کردار کا باوا آدم قارون ہے۔ جب تک دنیا قائم رہے گی قارون کی ذریت، قارون کی اولاد اور قارون کے کردار سے متاثر لوگ موجود رہیں گے۔
سخاوت کے بیان میں حاتم طائی کا نام لیا جاتا ہے۔ جب تک دنیا موجود ہے حاتم طائی کے کردار کے لوگ یا حاتم طائی کے گروہ کے لوگ بھی موجود رہیں گے۔۔۔۔۔۔دنیا میں پیغمبروں کا کردار بھی موجود ہے۔ پیغمبروں کے کردار کو جب ہم خوردبینی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں وہاں اچھائی کے علاوہ کوئی دوسری چیز نظر نہیں آتی۔ یعنی وہ ایسے کردار سے متصف ہیں کہ جس کردار میں لطافت حلاوت کے علاوہ کوئی دوسری چیز شامل نہیں ہو سکتی۔ کردار کے تعین کو اگر مختصر کر کے بیان کیا جائے تو زندگی کی دو قدریں قائم ہوتی ہیں ایک قدر وہ ہے جس میں آدمی شیطانیت سے قریب ہو کر شیطان بن جاتا ہے اور دوسری انبیاء کی طرز ہے جس کے اندر داخل ہو کر آدمی سراپا رحمت بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں شریک ہو جاتا ہے۔ وہ تمام طرزیں جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہیں شیطانی طرزیں ہیں اور وہ تمام طرزیں جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے قریب کرتی ہیں پیغمبرانہ طرزیں ہیں۔ پیغمبرانہ طرزوں اور شیطانی طرزوں کا تجزیہ کرنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جو بندہ رحمانی طرزوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر پیغمبروں کے اوصاف منتقل ہو جاتے ہیں یہ بات کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پیغمبروں کے اوصاف اللہ تعالیٰ کے اوصاف ہیں یعنی جب کوئی بندہ پیغمبرانہ زندگی میں سفر کرتا ہے تو دراصل وہ ان صفات میں سفر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اپنی ذاتی صفات ہیں اور جب کوئی بندہ ان پیغمبرانہ صفات سے منہ موڑ لیتا ہے تو وہ ان طرزوں میں اور شہوت میں زندگی گزارتا ہے جو دراصل تاریک کثیف جہالت سے معمور شیطانی طرزیں ہیں شیطانی طرز یہ ہے کہ آدمی کے اوپر خوف و ہراس مسلط رہتا ہے۔ ایسا خوف و ہراس جو زندگی کے ہر مقام کو ناقابل شکست و ریخت زنجیروں سے جکڑے ہوئے ہے اس کا دن ہو یا رات وہ ایک خوف میں بسر ہوتا ہے کبھی اسے زندگی ضائع ہونے کا خوف ہوتا ہے کبھی وہ معاشی ضروریات کے پورا نہ ہونے کے خوف میں مبتلا ہے کبھی اس پر بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں اور کبھی وہ مسائل کے انبار میں اس طرح دب جاتا ہے کہ اسے اس انبار سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ موت جس کو بہرحال آنا ہے اس کے اوپر خوفناک شئے بن کر مسلط ہو جاتی ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ موت سے کسی بھی طرح دستگاری حاصل نہیں ہو سکتی اس کے باوجود اس اٹل حقیقت سے گھبراتا رہتا ہے، بھاگتا رہتا ہے۔ شیطانی طرزوں میں ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ آدمی ذہنی اور نظری طور پر اندھا ہوتا ہے وہ چند سو گز سے زیادہ کی چیز نہیں دیکھ سکتا اور یہی چیزیں اس کو درد ناک عذاب میں مبتلا رکھتی ہیں اس کے برعکس پیغمبرانہ طرزوں میں آدمی کے اوپر خوف اور غم مسلط نہیں ہوتا وہ عدم تحفظ کے احساس سے دور رہتا ہے۔ موت چونکہ ایک اٹل حقیقت ہے اس لئے وہ مرنے کے لئے تیار رہتا ہے اور جب وہ مرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو موت اس کے لئے دنیا کی سب سے زیادہ خوشنما چیز بن جاتی ہے ۔ اسے اس بات کا سراغ مل جاتا ہے کہ موت کوئی بھیانک شئے نہیں ہے بلکہ موت ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہونے کا نام ہے جس طرح اس رنگ و بو کی دنیا میں وہ زندگی کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے اسی طرح مرنے کے بعد دوسرے عالم میں وہ کھاتا پیتا ہے، جاگتا ہے، سوتا ہے، روحانی اور جسمانی تمام ضروریات پوری کرتا ہے اور یہ بات محض اس کے قیاس میں داخل نہیں ہوتی بلکہ وہ اس شگفتہ زندگی کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ بات وہی ہے کہ ایک طرز فکر کے آدمی دوسری طرز فکر کے آدمیوں سے ممتاز رہتے ہیں۔ شیطانی طرز فکر میں زندگی گزارنے والا بندہ انبیاء کے گروہ میں داخل نہیں ہو سکتا اور انبیاء کی طرز فکر سے آشنا بندہ شیطانی گروہ میں کبھی داخل نہیں ہوتا۔ شیطانی طرز فکر میں ایک بڑی خراب اور لا یعنی بات یہ ہے کہ بندہ ہر عمل اس لئے کرتا کہ اس عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے یعنی وہ عمل کرنے کا صلہ چاہتا ہے اور اس صلے کا نام اس نے ثواب رکھا ہے۔ تصوف ایسے عمل کو جس عمل کے پیچھے کاروبار ہو جس عمل کے پیچھے کوئی ذاتی غرض وابستہ ہو نا قص قرار دیتا ہے اور یہی انبیاء کی بھی طرز فکر ہے۔۔۔۔۔۔جہاں تک قرآن پاک میں اس بات کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے لیکن اس بات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ نیک عمل اس لئے کرے کہ اسے اس کا اجر ملے گا اور اسے اس اجر میں زر و جواہرات کے محلات ملیں گے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔