Topics

دعا کے آداب


سوال: جنت کی سیر میں سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی نے ایک جگہ خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ فرشتے جن دعاؤں کو مقبولیت کے قابل نہیں سمجھتے انہیں آسمان سے پھینک دیتے ہیں جبکہ ارشاد خداوندی ہے کہ لوگو مجھے پکارو، میں سنوں گا، مجھ سے دعا مانگو میں دوں گا۔ انسان خدا سے دعا کے ذریعہ مانگتا ہے۔ دعا کے ذریعہ خدا کو پکارتا ہے تو فرشتے دعا کو قابل قبول کیوں نہیں سمجھتے، آسمان سے کیوں پھینک دیتے ہیں؟ وضاحت فرمائیں۔

جواب: بات سیدھی ہے کہ ہر چیز کے آداب اور اصول ہیں۔ دعا مانگنے کے بھی آداب ہیں کچھ بھی مانگنے کے اصول ہیں مثلاً بیٹا باپ سے کہے کہ ابے ابا پیسے نکال۔ ابا اسے پیسے نہیں دینگے بلکہ تھپڑ مار دیں گے اور کہیں گے کہ دور ہو جاؤ، دفع ہو جاؤ اور اگر وہی بیٹا یہ کہے کہ ابا جی مجھے پیسے چاہئیں، مجھے پیسوں کی ضرورت ہے تو ابا دو روپے کی بجائے اسے 5روپے دے دیں گے۔ موجودہ دور میں جو دعائیں مانگی جاتی ہیں آپ اس پرذرا غور کریں کہ اس کے اندر نہ گداز ہوتا ہے نہ عاجزی ہے نہ انکساری ہوتی ہے بلکہ ایک آرڈر ہوتا ہے کہ اللہ میاں یہ کر دے، اللہ میاں یہ کر دے، اس میں نہ ادب ہے، نہ احترام ہے، نہ گداز ہے، نہ یقین ہے تو وہ دعائیں فرشتے آسمان سے نیچے نہیں پھینکیں گے تو کیا کریں گے؟ میں 60سال سے ایک بات سنتا ہوا آ رہا ہوں کہ یا اللہ بنی اسرائیل کا بیڑہ غرق کر دے، حج میں بھی یہ دعا ہوتی ہے، ہر مسجد میں یہ دعا ہوتی ہے، ہر مدرسہ میں یہ دعا ہوتی ہے اور لاکھوں، کروڑوں آدمی آمین کہتے ہیں لیکن یہ دعا قبول نہیں ہوئی۔ 60سال تو ہو گئے ہم کو سنتے ہوئے جتنا دعا مانگتے ہیں کہ بنی اسرائیل کا بیڑہ غرق ہو جائے اتنا ہی بنی اسرائیل کا عروج ہو رہا ہے۔ آخر کیا مطلب ہے؟ 60سال کا عرصہ کسی دعا کے قبول ہونے کے لئے کم وقت ہے۔ کروڑوں مسلمان یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ بنی اسرائیل کا بیڑہ غرق ہو جائے مگر بنی اسرائیل کا بیڑہ غرق نہیں ہوتا جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے مانگو میں دوں گا، میں قبول کروں گا، تم دعا مجھ سے مانگو تو سہی۔ جب آپ دعا کے آداب ہی پورے نہیں کرتے، اللہ کے اوپر یقین ہی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ زبانی جمع خرچ کو نہیں مانتا۔ قرآن کریم میں ہے کہ اعمال سے قوموں کی تقدیروں میں رد و بدل ہوتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے اعمال ہی قرآن کے مطابق نہیں ہیں ہر آدمی جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے مگر وہ جھوٹ بولتا ہے۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ کسی کی دل آزاری کرنا بہت بڑا پاپ ہے لیکن ہر شوہر بیوی کی دل آزاری کر رہا ہے، ہر بیوی شوہر کی دل آزاری کر رہی ہے۔ ماں باپ بچوں کی دل آزاری کر رہے ہیں۔ آپ غور تو کریں کہ معاشرہ میں کس قدر برائیاں داخل ہو گئی ہیں۔ اس معاشرہ میں کیسے آپ کی دعا قبول ہو گی کس بات پر آپ اللہ تعالیٰ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آپ کی دعا قبول کرینگے۔ مسلمان ہر وہ کام کر رہا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ناپسند ہے۔ جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے بلا شبہ اللہ ان کی دعا قبول کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سب کی دعائیں رد ہو جاتی ہیں، جن لوگوں کا  اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرتا ہے۔ میرا بیٹا سلام عارف عظیمی بتا رہا تھا کہ جامع مسجد راولپنڈی میں ایک مولوی صاحب تقریر کر رہے تھے۔ انہوں نے دعا کرائی یا اللہ ایسا کر کہ بنی اسرائیل کا بیڑہ غرق کر دے ایسا کر کہ کفار اس دنیا سے نیست و نابود ہوجائیں۔ جوش خطابت میں کہنے لگے یا اللہ بنی اسرائیل کی توپوں میں کیڑے ڈال دے یعنی توپ کو اللہ انسان بنا دے، آٹا بنا دے اور اس میں کیڑے ڈال دے۔ یہ کتنی بڑی بے ادبی اور گستاخی ہے کہ آدمی کو یہ بھی پتہ نہیں کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہوں اور کیا مانگ رہا ہوں تو دعا کیسے قبول ہو گی؟ 

دعا وہی رد ہوتی ہے جس کے ساتھ گداز نہ ہو، جس کے ساتھ دلی تعلق نہ ہو اور جس کے ساتھ یقین نہ ہو اگر دعا میں گداز ہے ، اگر دعا میں آپ کا دل شامل ہے، اگر دعا کے ساتھ ساتھ یقین ہے تو وہ دعا ضرور قبول ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خالی دعا کو نہیں مانتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پہلے عمل کرو پھر دعا کرو پھر میں قبول کروں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ حضورﷺ نے پہلے عمل کیا پھر دعا فرمائی۔ آپ کو جتنے مجاہد میسر آئے انہیں لے کر میدان میں جہاد کے لئے تشریف لے گئے۔ پھر عرض کیا اے میرے اللہ میں اتنے بندے ہی لا سکتا تھا۔ اب آپ ہماری مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کر کے فرشتے نازل کر دیئے تو بغیر عمل کے دعا قبول نہیں ہوتی۔ عمل کے ساتھ گداز ہونا چاہئے۔ یقین ہونا چاہئے تو ایسی دعائیں قبولیت کے درجہ پر فائز ہوتی ہیں۔



Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔