Topics

ترتیب و پیشکش۔توجیہات

حضرت سلطان باہوؒ اپنے مرشد کریم کے بارے میں فرماتے ہیں۔

 

الف اللہ چنبے دی بوٹی میرے من وچ مرشد لائی ہو

نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہر جائی ہو

ہر جا بوٹی مشک مچایا جاں پُھلّن تے آئی ہو

مرشد کامل ہر دم جیوے جیں اے بوٹی لائی ہو

ان اشعار میں حضرت سلطان العارفین نے طالب کے دل کو زمین اور اسم ذات اللہ کو تخم اور ذکر نفی اثبات کو پانی اور مرشد کامل کو بمثل باغبان اور مالی فرمایا ہے اور جب اسم ذات اللہ کا پودا مرشد کامل کی پرورش اور تربیت سے نشوونما پا کر کامل ہو جاتا ہے تو اس کے نقوش چنبیلی کے پھولوں کی طرح طالب کے تمام اعضاء پر بجلی کے قمقموں کی طرح جگمگ جگمگ کرنے لگ جاتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ میرے مرشد کو سلامت رکھے یہ سب فیض میرے مرشد کامل کا ہی بخشا ہوا ہے۔

قدرت جب کسی سے کام لینا چاہتی ہے تو اس کے لئے وسائل فراہم کر دیتی ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ انسان کی حیثیت ایک کھلونے سے زیادہ نہیں ہے۔ کھلونے میں چابی بھر دی جاتی ہے یا بیٹری سے اس کو چارج کیا جاتا ہے۔ چابی ختم ہو جائے یا بیٹری کے اندر توانائی ختم ہو جائے تو کھلونا حرکت نہیں کرتا۔ اس کے اندر سے آواز بھی نہیں نکلتی۔ بالکل یہی صورت انسان کی بھی ہے۔

جب تک اس کے اندر توانائی (روح) رہتی ہے۔ انسان کھلونے کی طرح ناچتا، کودتا،بولتا، سنتا، سوتا، جاگتا، سوچتا اور سمجھتا ہے لیکن جیسے ہی انسانی کھلونے کے اندر توانائی (چابی) ختم ہوجاتی ہے ، اس کی اپنی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ توانائی ہو یا اس کا نام کھلونے میں چابی بھرنا ہو، یہ سب دراصل وسائل سے متعلق باتیں ہیں۔ ہر انسان کے پیدا ہونے سے پہلے قدرت اس کے لئے وسائل فراہم کر دیتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ انسان پہلے پیدا ہو اور وسائل بعد میں تخلیق ہوں۔ یہ ایک قانون ہے جو لوح محفوظ پرتخلیقی باب میں لکھا ہوا ہے۔

کائناتی نظام ہر فرد پر نافذ ہے۔ اس قانون کے تحت میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب (حضور ابا جی) کے لئے قدرت نے وسائل فراہم کئے۔ یہ ایک عجیب کہانی ہے جس کے پیچھے غور و فکر کی بے شمار مشعلیں روشن ہیں۔ حضرت عظیمی صاحب ہجرت کر کے 1947ء میں لاہور تشریف لائے۔ پہلی مرتبہ حضرت داتا علی ہجویری گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حاضری دی تو روح کا روح سے ملاپ ہوا اور کھلونے میں تفکر کی چابی بھر گئی۔

زمانے کے نشیب و فراز سے گز ر کر تجارت میں اللہ نے ایک مقام عطا کیا۔ کاروباری کامیابی اور دولت کی چکا چوند نے تفکر کے ڈانڈے مادیت کے ساتھ جوڑ دیئے۔حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کا روحانی ملاپ پردے میں چلا گیا۔

 

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا

ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما

لیکن قدرت کا یہ چلن عام ہے کہ قدرت دیئے سے دیا جلاتی ہے اور دیئے سے دیا جلانے کے لئے پہلے سے وسائل فراہم کر دیئے جاتے ہیں۔

کاروباری ترقی نے مادی طور پر روحانی تفکر پر قبضہ کر لیا تو کھلونے میں چابی بھرنے کا عمل تبدیل کر دیا گیا۔ اب دائیں بائیں اور آگےدوڑنے والے کھلونے کی چابی (Reverse) ہو گئی جو تھا سب بھک سے اڑ گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب سب تدبیریں ناکام ہو جاتی ہیں تو بندے ہماری طرف رجوع کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات خودفرمائی ہے اس لئے یہ قانون بن گیا ہے۔کاروباری معاملات میں دوبارہ برکت حاصل کرنے کے لئے اللہ کے ولیوں کا سہارا تلاش کیا گیا۔ قدرت جب فیاض ہوتی ہے۔ وہ سب ہو جاتا ہے جس کا کبھی گمان بھی نہیں ہوتا۔

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب گئے تو تھے دنیا لینے اور ایک مستغنیٰ مزاج ہستی کی زلفوں کے اسیر ہو گئے۔ اب سب کچھ مرشد کی ذات تھی۔ حضرت عظیمی صاحب کے مرشد گرامی حضور قلندر بابا اولیاء14سال شب و روز کی دھڑکن اور آنکھوں کا نور بنتے ہیں۔

خدا کے دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال

آگ لینے کو جائیں تو پیغمبری مل جائے

پیغمبری تو ختم ہو چکی ہے۔ لیکن قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی نسبت سے پیغمبرانہ طرز فکر روح میں منتقل ہو گئی۔ اس پیغمبرانہ طرز فکر کو عام کرنے کے لئے دسمبر 1969ء سے اخبارات و جرائد میں کالم اور مضامین کا سلسلہ شروع ہوا۔ قدرت چونکہ خود اپنے کاموں کے لئے بندوں کا انتخاب کرتی ہے۔ اس لئے قدرت کو یہ سلسلہ پسند آیا اور اس سلسلہ کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کے لئے وسائل فراہم کر دیے گئے۔ ان وسائل کے زیر اثر 1978ء میں روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور مضامین کی اشاعت میں اخبارات کی تنگ دامنی کا مسئلہ حل ہوا۔

میں مولف کتاب ’’توجیہات‘‘ میاں مشتاق احمد عظیمی نہایت حقیر زرہ ہوں لیکن قرآن یہ بتاتا ہے کہ کائنات کا چھوٹا سے چھوٹا ناقابل بیان زرہ بھی اللہ کے نور کے خلاف بند ہے۔ مجھ جیسے ناچیز زرہ بے مقدار جز اور مسکین بندے کے اوپر جو نور کا غلاف ہے اس پر ایک روز خزانے لوٹانے والے داتا کی نظر پڑ گئی اور میری روح کا ملاپ حضرت خواجہ عظیمی صاحب کی روح سے کرا دیا گیا۔ اس وقت میں سلوک کی کس منزل پر ہوں۔ (سلوک میں تو منزل ہوتی ہی نہیں ہے۔) منزل رسیدہ نہیں بلکہ سلوک کے راستے کا ایک مسافر ہوں۔ میں خود کو حاضر بھی نہیں دیکھتا۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا ہوں۔ جب خود سے سوال کرتا ہوں۔ ایک ہی جواب ملتا ہے۔ روح کے الگ الگ نام نہیں ہوتے‘ تو کچھ نہیں ہے۔ تو مرشد کریم کی روح کا عکس ہے۔ مرشد کریم کی روح کا عکس مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے۔

مجھے دوڑاتا پھرتا ہے۔۔۔۔۔۔بات یہ ہے کہ جب میں کچھ نہیں ہوں، مرشد کی ذات ہی سب کچھ ہے تو میرا مشن ہی مرشد کی طرز فکر کو عام کرنا ہے۔ کبھی کبھی میرے اوپر جنون طاری ہو جاتا ہے کہ مرشد کی روشنیاں عالمین میں منعکس کر دوں۔ یہ جنون مجھے ہر وقت بے قرار رکھتا ہے۔

مرشد کی طرز فکر کو توانائی میں تبدیل کر کے دنیا کے کھلونوں (انسان) میں منتقل کرنے کے لئے میں نے 1978ء سے اپریل 1994ء کی تحریروں کو ایک جگہ جمع کرنے کی ٹھان لی۔

مجھے اس سے کوئی غرض نہیں، مجھے اس ضمن میں کچھ نہیں کہنا کہ میں اپنی کوشش میں کامیاب ہوا ہوں یا نہیں۔ اس لئے کہ میں دیکھتا ہوں کہ سورج روز نکلتا ہے‘ سورج کبھی نہیں سوچتا کہ میری روشنی کہاں پڑتی ہے۔ آبشاروں، ندی، نالوں اور پہاڑوں پر بھی پڑتی ہے۔ سورج اس سے بے نیاز ہے کہ دھوپ کیچڑ کو بھی روشن کرتی ہے۔

منہ چھوٹا اور بات بڑی ہے۔ میں اپنے مرشد کی روح کا سورج ہوں۔ میرا کام روشنی پھیلانا ہے اور یہ کام میں کرتا رہوں گا۔ تاوقتیکہ میں خود روشنیوں میں تحلیل نہ ہو جاؤں۔

آخر میں میاں محمد بخش صاحب کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں:

ہکو سخن نہ ہور تمامی جو نعمت میں پائی

اوسے مرد سچے دا صدقہ اپنی نہیں کمائی

خشخش جتنا قدر نہ میرا اس نوں سبھے وڈیایاں

میں گلیاں دا روڑا کوڑا محل چڑھایا سایاں


میاں مشتاق احمد عظیمی

روحانی فرزند

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

مراقبہ ہال 158مین بازار مزنگ،لاہور

تاریخ 7جولائی 1994ء


Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔