Topics

ماوراء ذات

سوال: اللہ تعالیٰ کو دیکھنے، اللہ کی بات سننے، اللہ کو چھو لینے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ یہ سب کیا ہیں؟ اس پر روشنی ڈال دیں۔

جواب: اللہ تعالیٰ سے قربت کا احساس ہوتا ہے مگر درمیان میں حجاب حائل ہوتا ہے۔ بعض اوقات ادراک میں یہ بات سما جاتی ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو چھو لیا ہے یا اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر اپنا ہاتھ رکھ دیا ہے یا اللہ تعالیٰ نے سجدہ کی حالت میں اپنا پائے مبارک ہمارے سر پر رکھ دیا ہے۔ فکر کے بعد نتیجہ ہمیشہ یہی نکلتا ہے کہ ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حجاب قائم ہے۔

پائے مبارک کے بارے میں صرف ادراک کام کرتا ہے لیکن ہم اس کو بیان نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالیٰ کے پیر مبارک اس طرح کے ہیں۔

ہوتا یہ ہے کہ ادراک میں یہ بات آ جاتی ہے کہ حجاب کے پیچھے اللہ تعالیٰ تشریف فرما ہیں۔ ذوق عبدیت بندہ کو سجدہ کی حالت میں لے آتا ہے۔

اب ادراک میں یہ بات آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عبدیت کو قبول فرما لیا ہے۔ بندہ کے سر پر پائے مبارک رکھ کر قبولیت کا اظہار کر رہے ہیں۔

عرش و کرسی پر اللہ تعالیٰ کا دیدار کسی نہ کسی طرح خدوخال میں بیان کیا جا سکتا ہے لیکن حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایسی شکل و صورت ہے۔ صرف اشارہ کنایہ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عرش پر اللہ تعالیٰ تشریف فرما ہیں۔ بصارت کا ادراک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک نور ہیں۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ دیکھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہنا پڑے گا۔ صرف ہاتھ دیکھا، پورا جسم نہیں دیکھا۔

عرش پر ایک ہستی تشریف فرما ہے۔ اس ہستی کے خدوخال کیا ہیں۔ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک ہستی تشریف فرما ہے جو اللہ ہے مگر اس مقدس ہستی نے ایک برقعہ سے اپنا سراپا چھپایا ہوا ہے۔

ہم نے اللہ تعالیٰ کی آنکھ کا مشاہدہ کیا۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح کی آنکھیں ہوتی ہیں جس طرح انسان کی ہوتی ہیں۔ تو جواب یہ ہو گا کہ صرف آنکھ دیکھی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ کا چہرہ پر دو آنکھیں ہیں اور اس طرح کی ہیں۔

ہمارے اندر کائنات کی Baseتسلسل کے ساتھ آ رہی ہے اور ہمارے اندر کائنات تخلیق ہو رہی ہے۔

زوجین اثنین (مثلث) کے دونوں رخ ہمارے اندر ہیں اور اس مثلث کو ایک دائرے نے محیط کر رکھا ہے۔

مثلث کے اندر رو کی صورت میں نور کی لہر بغیر کسی انقطاع کے گر رہی ہے۔ جیسے ہی وہ مثلث سے آ کر ٹکراتی ہے۔ مثلث کے اندر بکھر جاتی ہے اور اس کا بکھرنا ہی کائنات ہے۔

اس کی مثال سینما سے دی جا سکتی ہے۔ مشین سے ایک رو لہروں کی صورت میں نزول کرتی ہے اور وہ لہریں سکرین سے ٹکراتی ہیں۔ جیسے ہی ٹکرانا وقوع پذیر ہوتا ہے، پردہ پر مختلف شکلیں نمودار ہو جاتی ہیں۔

یہی صورت انسان کے اندر جاری و ساری ہے۔ مصدر اطلاعات یا عالم امر سے ایک رو چلتی ہے اور انسان کے اندر (مثلث) سکرین پر آ کر ٹوٹتی اور بکھر جاتی ہے۔ بکھرنے کے ساتھ ہی وہ سب لہریں مختلف شکلوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اس رو کے اندر پوری کائنات پوشیدہ ہے۔

اس رو میں انسان، جنات، فرشتے تمام اجرام سماوی، عرش و کرسی اور حجابات سب کچھ ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اس رو سے ماوراء ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وجود بالکل ایک الگ ہستی ہے۔

حجابات تک اس رو اور مثلث میں مشاہدات ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات بھی اس رو اور مثلث میں مشاہدہ ہوتی ہیں۔ لیکن ذات باری تعالیٰ اس رو اور مثلث سے ماوراء ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس Dimensionاور خدوخال سے ماوراء ہے۔

ہم اللہ تعالیٰ کی ہستی کو شکل و صورت اور خدوخال میں محدود نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ادراک ضرور کر سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ جب شرف ہم کلامی عطا فرماتے ہیں تو پردہ کے پیچھے سے آواز سنائی دیتی ہے اور ادراک میں اللہ تعالیٰ کی ہستی بھی ہوتی ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ جس وقت تکلم فرما رہے تھے تو ان کے ہونٹ ہل رہے تھے۔



Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔