Topics
سوال: روحانی علوم کے ضمن میں آپ اگر Time and Spaceکی نفی ہونے کا تذکرہ فرماتے ہیں۔ اگر زمان و مکاں ہی نہ رہے تو کسی چیز کا وجود بھی زیر بحث نہیں آ سکتا۔ اس کی وضاحت فرما دیں کہ زمان و مکاں کی نفی ہونے سے کیا مراد لی جاتی ہے؟
جواب: زندگی عالم ناسوت کی ہو، عالم اعراف کی ہو، عالم حشر و نشر کی ہو یا جنت اور دوزخ کی ہو۔ اس زندگی کا دارومدار تقاضوں کے اوپر ہے۔ یہ بات قانون ہے کہ تقاضوں کا مسالا یعنی تقاضوں کے اجزائے ترکیبی یا عناصر علم ہیں۔ جب تک کسی تقاضا کی تکمیل کے لئے علم موجود نہیں ہو گا۔ تقاضہ زیر بحث نہیں آئے گا۔ زندگی کا ایک بنیادی تقاضا بھوک اور پیاس ہے اگر بھوک کے بارے میں ہمیں یہ علم حاصل نہ ہو کہ بھوک زندگی گزارنے اور زندگی کو قائم رکھنے اور زندگی متحرک رکھنے کے لئے ایک عمل ہے تو ہم بھوک سے نا آشنا ہوں گے۔ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ زندگی کو آگے بڑھانے کے لئے اور جسمانی نشوونما کے لئے کچھ کھانا ضروری ہے۔ کچھ کھانا دراصل ایک علم ہے اور اس علم کے اندر یہ بات موجود ہے کہ کن چیزوں کے کھانے سے جسمانی صحت بحال رہتی ہے اور کن چیزوں کے استعمال سے صحت کو نقصان پہنچتا ہے اس علم کا مجموعی نام تقاضا ہے۔ یہی صورت حال پیاس کی ہے، غیض و غضب کی ہے، رحمت و محبت کی ہے، نیند اور خواب کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ کہنا یہ ہے کہ جب تک کسی چیز کا علم ہمیں حاصل نہیں ہوتا ہم اس چیز سے واقف نہیں ہوتے۔ علم کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی سورس ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس سورس سے حاصل شدہ علوم کے لئے کوئی ایسی ایجنسی موجود ہو جہاں علم آ کر ذخیرہ ہو۔ اس کے بعد یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسی ایجنسی موجود ہو جو اس علم کے اندر معانی پہنا سکے اور آخری حد میں ایسی ایجنسی کا موجود ہونا لازم ہے جس پر علم کا مظاہرہ ہو سکے۔ آدمی کو بھوک لگی یعنی اس کو یہ اطلاع ملی ہے کہ اب جسم کو کچھ کھانے کی ضرورت ہے۔ جس ایجنسی نے یہ اطلاع قبول کی اس نے اس علم کے اندر معانی پہنائے۔ وہ یہ ہے کہ روٹی کھانی چاہئے، پھل کھانے چاہئیں اور اس اطلاع کو جسم مثالی نے قبول کر کے مظاہرہ کیا اور آدمی نے یہ محسوس کیا کہ اس نے روٹی کھا لی ہے جہاں تک جسمانی تقاضے پورا کرنے کا تعلق ہے وہ عالم ناسوت ہو یا عالم اعراف ہو یا عالم دوزخ یا عالم جنت ہو ایک ہی صورت واقع ہو رہی ہے۔ جنت اس لئے جنت ہے کہ وہاں دودھ اور شہد کی نہریں ہیں۔ جنت میں پھل ہیں اور آدمی کی آسائش اور آرام کے لئے بے شمار وسائل ہیں۔ دوزخ اس لئے دوزخ ہے کہ وہاں ایسے وسائل میں آدمی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بات وہی علم کی ہے کہ علم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو وہ اتنا پابند اور مجبور ہے کہ وہ ایک گھنٹہ میں تین میل کا سفر طے کرتا ہے اور اگر کوئی آدمی چاہے تو وہ اتنا آزاد اور خود مختار ہے کہ وہ ایک قدم اٹھا کر جب دوسرا قدم رکھتا ہے تو یہ سفر ساتویں آسمانوں پر محیط ہوتا ہے یعنی آدمی نے بیٹھے ہوئے یہ ارادہ کیا کہ عرش معلیٰ پر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوں اور ارادہ ساتھ ہی اس کے سامنے یہ بات مشاہدہ بن جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات حمیدہ کے ساتھ عرش پر موجود ہیں اور بندہ ان کے سامنے سر بسجود ہے یہ کہنا کہ انسان روحانی طور پر آسمانوں کی سیر نہیں کر سکتا یا اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز نہیں ہو سکتا یا یہ کہنا کہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا اتنی بڑی جہالت اور اتنا بڑا ظلم ہے کہ جس کے سامنے کوئی بڑی جہالت اور کوئی بڑا ظلم نہیں آ سکتا۔ کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ ایک انسان روشنیوں کے دوش پر امریکہ سے کراچی منتقل ہو جاتا ہے۔ بلا کسی فاصلہ کے بلا کسی وقفہ کے وہ بات امریکہ میں کرتا ہے ہم ٹی وی پر اسے دیکھتے ہیں، سنتے ہیں۔ یہ تذکرہ ہے وسائل محدود رہتے ہوئے ترقی کا۔ کوئی بندہ اگر اپنے اندر اس صلاحیت سے واقف ہو جائے جس صلاحیت نے ٹی وی ایجاد کر دیا تو اس کے لئے یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ وہ دنیا کے اس کونے سے اس کونے میں یا اس عالم سے اس عالم میں اپنے ارادہ اور اختیار سے منتقل ہو جائے پہلے جو باتیں جادو اور طلسمات کے نام سے مشہور تھیں اور جن کو ہم مضحکہ خیز کہانی قرار دیتے تھے آج وہی سب چیزیں ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں آدمی کس قدر عجیب ہے۔ ایک طرف اتنا بے بس اور مجبور ہے کہ سو قدم کی آواز نہیں سن سکتا اور دوسری طرف اتنا آزاد ہے کہ اپنی ہی ایجادات کے ذریعے ہزاروں میل کی آواز سن لیتا ہے۔
جن وسائل کی علمی حیثیت تکلیف ہے۔ قرآن پاک میں تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کھانا جنت میں بھی میسر ہے اور کھانا دوزخ میں بھی میسر ہے۔ جنت کا کھانا دودھ، شہد، پھل فروٹ ہے اور دوزخ کا کھانا زقوم، تھور اور ایسی غذائیں ہیں جن سے آدمی کے اندر کراہت پیدا ہوتی ہے۔ بتانا یہ ہے کہ کھانے کا علم دونوں جگہ موجود ہے کھانے کے اسباب اور سامان بھی دونوں جگہ موجود ہیں۔ لیکن دونوں کی معنویت الگ الگ ہے۔ جنت کا کھانا اس لئے اچھا ہے کہ اس میں معنویت اچھی ہے بھوک کا جو علم ہے اس علم کے اندر جو مفہوم ہے وہ آرام و آسائش کا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس دوزخ کے اندر بھوک کا جو علم ہے اس کے اندر کراہت پشیمانی، تکلیف اور آہ بکا ہے۔ مختصر طور پر اس بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ یہ ساری کائنات دراصل ایک علم ہے۔ علم کی طرزیں یہ ہیں کہ اس میں معانی پہنائے جاتے ہیں۔ جسم مثالی ایک ایسی ایجنسی ہے جو علم میں معانی پہناتی ہے۔ جب آدمی عالم ارواح سے نزول کر کے اس دنیا میں وارد ہوتا ہے تو جسم مثالی اس عالم کے اندر ایسے معانی اور مفہوم اخذ کرتا ہے جس میں آدمی قید ہے بند ہے گرفتار ہے ہر ہر قدم قید و بند میں بندھا ہوا ہے جسم مثالی جب عالم ناسوت سے باالفاظ دیگر اس گوشت پوست کے جسم سے اپنا رشتہ منقطع کر کے دوسرے عالم میں جاتا ہے اور وہاں کی فضا اور ماحول سے اپنے لئے ایک نیا لباس بناتا ہے تو اس کے معانی اور مفہوم بدل جاتے ہیں۔ اس علم کے معانی اور مفہوم Time and Spaceاتنا مختصر ہو جاتا ہے کہ تقریباً اس کی نفی ہو جاتی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے Time and Spaceکلیتاً ختم ہو جاتا ہے، ایسا نہیں ہے۔ ایسا اس لئے نہیں ہے کہ عالم ناسوت کی طرح عالم اعراف میں بھی زمین ہے اور عالم ناسوت کی طرح عالم اعراف میں بھی گھر ہیں وہاں آدمی کھاتا بھی ہے پیتا بھی ہے چلتا پھرتا بھی ہے اپنے عزیز اور اقربا سے ملاقات بھی کرتا ہے خوش بھی ہوتا ہے اور روتا بھی ہے یہ خوش ہونا یا غمگین ہونا یا گھروں میں رہنا زمین کے اوپر چلنا پھرنا دھوپ کی تپش محسوس کرنا اور موسم کے رد و بدل میں زندگی گزارنا Time and Spaceکی حدود کی نفی نہیں کرتے البتہ انسانی زندگی کے اختیار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ آدمی جب پیدل چلتا ہے تو اس کے اوپر گرم و سرد کا اثر ہوتا ہے۔ بھوک پیاس کا تقاضا اس کے اندر موجود رہتا ہے تکلیف اور راحت کے احساسات بھی اس کے اندر موجود رہتے ہیں اب یہی آدمی جو زمین پر تین میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے جب ہوائی جہاز میں بیٹھ جاتا ہے تو ایک گھنٹہ میں ہزاروں میل کی مسافت طے کر لیتا ہے۔ ان ہزاروں میل کی مسافت طے کرنے میں بھی اسے سرد و گرم کا احساس رہتا ہے اسے بھوک بھی لگتی ہے اور دوسری ضروریات بھی اس کے ساتھ وابستہ رہتی ہیں حالانکہ Time and Spaceکا یہ قانون جو آدمی کو ایک گھنٹہ میں تین میل چلاتا ہے، ٹوٹ گیا ہے۔ اب ایک ایسا ذریعہ اختیار کر لیا گیا ہے جس سے کہ ہزاروں میل کا سفر ایک گھنٹہ میں طے کر لیتا ہے مثال ناقص ہے لیکن تقریباً یہی صورت حال عالم اعراف میں ہے ایک آدمی کراچی میں مر گیا۔ اس کے عزیز و اقرباء دہلی میں ہیں عالم اعراف میں رہنے والا کوئی بندہ اپنے عزیز سے ملنے کے لئے دہلی جائے گا تو Time and Spaceمختصر ہو کر دو قدم کا راستہ بن جائے گا مگر قدم موجود ہے، زمین موجود ہے، لہٰذا زمان و مکاں Time and Spaceبھی موجود ہے۔ جیسے جیسے آدمی اس عالم میں اور اس عالم سے اس عالم میں منتقل ہوتا رہتا ہے اس کی رفتار بڑھتی رہتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کا ایک قدم عالم ناسوت میں ہوتا ہے اور دوسرا قدم عرش پر۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔