Topics
سوال: آپ فرماتے ہیں کہ یہ کائنات اللہ کے
علم کا مظاہرہ ہے اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب: اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد
فرمایا ہے ۔ ’’اللہ وہ ہے جو ہر چیز پر محیط ہے۔‘‘ یہ بھی ارشاد ہے کہ ’’جو کچھ تم
کرتے
و، اللہ اسے دیکھتا ہے اور جو کچھ تم
چھپاتے ہو، اللہ اسے جانتا ہے۔ اگر تم ایک ہو تو دوسرا اللہ ہے اور اگر تم دو ہو
تو تیسرا اللہ ہے۔ اللہ ہی ابتدا ہے، اللہ ہی انتہا ہے۔‘‘
ان سارے ارشادات میں یہ بات پوری طرح واضح
کر دی گئی ہے کہ اللہ کا علم لامحدود، غیر متغیر اور لامتناہی اس لئے ہے کہ یہ علم
Time and Spaceکی حد بندیوں سے ماوراء ہے۔ ان ارشادات سے یہ بات بھی منکشف ہوتی ہے کہ
اللہ تعالیٰ جب اپنے علم کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس سے منشاء خالصتاً آزادی ہے۔ اللہ
تعالیٰ نے جب کائنات بنانے کا ارادہ کیا تو فرمایا کن اور کائنات وجود میں آ گئی۔
اس بات کو آسان الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ کائنات دراصل اللہ تعالیٰ
کا علم ہے۔ چونکہ علم کا مظاہرہ ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم نے کائنات کے
خدوخال کا روپ اختیار کیا ہے، اس لئے پوری کائنات بھی بجز علم کے کوئی اور حیثیت
نہیں رکھتی۔ علم کی حیثیت زیادہ ہو یا قلیل، بہرحال وہ علم ہے۔ اس کو ہم اس طرح
کہہ سکتے ہیں کہ سمندر کے پانی کا ایک قطرہ بہرحال سمندر ہے۔ سمندر سے لئے ہوئے
ایک قطرۂ آب کو پانی کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ چونکہ ساری کائنات
اللہ تعالیٰ کے علم کا مظاہرہ ہے، اس لئے کائنات کی حقیقت، کائنات کی بنیاد اور
کائنات کی ہیئت سوائے علم کے کچھ نہیں ہے۔ جب ہم عالم ناسوت میں بند زندگی کا
تجزیہ کرتے ہیں اور زندگی کے اندر غور و فکر کرتے ہیں تو یہ بات پوری طرح واضح ہو
جاتی ہے کہ ساری زندگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور علم اس وقت علم ہے جب اس کے اندر
معانی اور مفہوم موجود ہوں۔ علم کے اندر معانی اور مفہوم کی ایک طرز یہ ہے کہ بندہ
اپنے اختیارات سے علم کے اندر معنی پہناتا ہے اور علم کے اندر اصل مفہوم وہ ہے جو
اللہ تعالیٰ کے ذہن میں ہے۔ بظاہر کائنات میں غور کرنے سے عجیب قسم کی پریشانی
ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا نظام قائم کیا ہے کہ جس نظام میں زیادہ تر تکلیف و
قباحت ہے مثلاً یہ کہ کوئی آدمی کھائے بغیر نہیں رہ سکتا، ہر آدمی سونے پر مجبور
ہے۔ اتنی بندشیں ہیں کہ جن کا کوئی شمار نہیں۔ علم کا یہ مفہوم اللہ تعالیٰ کے ذہن
میں موجود علم سے الگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم سے فرمایا کہ اے آدم! تو اور تیری
بیوی جنت میں رہو اور خوش ہو کر کھاؤ جہاں سے دل چاہے۔ جنت ایک ایسی بستی ہے کہ جس
کے رقبے کی حدود کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی اس کی حدود لامتناہی ہیں۔ اللہ
تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ خوش ہو کر کھاؤ جہاں سے دل چاہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ آدم کو
اللہ نے لامحدود جنت کے رقبے پر تصرف عطا کر دیا تھا۔ باالفاظ دیگر آدم جنت کے
لامحدود رقبے پر بلا شرکت غیرے مالک تھے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ یہ
درخت ہے اس کے قریب مت جانا۔ اور اگر تم نے ہمارے اس حکم یا ہدایت پر عمل نہیں کیا
تو تم اپنے اوپر ظلم کرو گے۔
جنت لامحدود رقبہ ہے۔ اس میں لاتعداد اور لا شمار درخت ہیں۔ ایک مخصوص درخت کی طرف
اللہ تعالیٰ اشارہ کر کے آدم کو ہدایت کرتے ہیں کہ اس درخت کے قریب مت جانا۔ آدم
سے نافرمانی واقع ہوئی اور اس نافرمانی کے جرم میں جنت کی فضاؤں نے آدم کو رد کر
دیا۔ اور آدم جس سرزمین کے بلا شرکت غیرے مالک تھے وہ زمین ان سے چھین لی گئی ۔ اس
واقعہ کا نقشہ کچھ اس طرح بنتا ہے۔ ایک بہت وسیع و عریض باغ ہے۔ باغ کے پھل، پھول،
پودوں، نہروں، آبشاروں وغیرہ پر آدم کو پورا پورا تصرف حاصل ہے۔ باغ کے اندر صرف
ایک درخت ایسا ہے جس پر اسے تصرف تو حاصل ہے لیکن تصرف کو اختیار کرنے سے منع کیا
گیا ہے۔ جب تک آدم سے نافرمانی کا ارتکاب نہیں ہوا، آدم کے لئے جنت کا وسیع رقبہ Time and Spaceسے آزاد رہا اور جب
آدم سے نافرمانی سرزد ہو گئی تو آدم کے اندر زمان و مکاں کی حد بندیاں ظاہر ہو
گئیں۔ اس درخت کے بارے میں بہت سی باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ گیہوں
کا درخت تھا۔ کوئی کہتا ہے سیب تھا۔ کسی مذہب و مسلک کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ درخت
انگور کا تھا۔ علیٰ ہذالقیاس، مختلف لوگ مختلف باتیں کہتے ہیں۔ لیکن قرآن نے اس کا
کوئی نام نہیں رکھا۔ صرف درخت کے نام سے یاد کیا ہے۔ روحانی نقطۂ نظر سے جب
لاشعوری واردات و کیفیات میں اس درخت کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو دراصل یہ ایک طرز
فکر کا سمبل ہے۔
جنت میں ہو یہ رہا ہے کہ جو کچھ جنت میں
موجود ہے وہ دروبست آدمی کے ارادے کے تابع ہے۔ آدمی کا دل چاہا کہ وہ سیب کھائے۔
جنت میں سیب کا درخت بھی ہے،اس پر سیب لگے
ہوئے بھی ہیں۔ لیکن سیب کا توڑنا وہاں زیر بحث نہیں آتا۔ سیب کھانے کو دل چاہا اور
سیب موجود ہو گیا۔ پانی پینے کو دل چاہا اور پانی موجود ہو گیا۔ اس طرز فکر سے
تصرف کی دو طرزیں سامنے آتی ہیں۔ تصرف کی ایک طرز فکر یہ ہے کہ ایک بندہ سیب کا
درخت لگاتا ہے۔ اس کی نشوونما کا انتظار کرتا ہے۔ طویل عرصے کے بعد سیب کا درخت اس
قابل ہوتا ہے کہ اس کے اوپر پھل لگے۔ اس کے اندر سیب کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے
اور وہ درخت کی طرف چلتا ہے اور درخت پر سے سیب توڑ کر کھا لیتا ہے۔ تصرف کا دوسرا
طریقہ یہ ہے کہ سیب کے درخت پر سیب لگے ہوئے ہیں۔ اس درخت کو نہ کسی بندے نے زمین
پر بویا ہے، نہ اس کی نگہداشت کی ہے، نہ اس درخت کو پروان چڑھانے میں کوئی خدمت
انجام دی ہے اور نہ اسے درخت پر سے سیب توڑنے کی زحمت کرنا پڑتی ہے۔ دل چاہا کہ
سیب کھاؤں اور سیب موجود ہو گیا۔ اس میں ایک بہت باریک نکتہ بیان ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ارادے میں یہ بات موجود
تھی کہ کائنات وجود میں آئے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ’’کن‘‘ کائنات وجود میں آ جا۔
کائنات بن گئی۔ جنت کی زندگی میں آدم کے دماغ میں یہ بات موجود تھی کہ وہ سیب
کھائے۔ آدم نے کہا سیب ، اور سیب موجود ہو گیا۔ کن کہنے سے کائنات بن گئی، سیب
کہنے سے سیب مل گیا۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنی ذات کے لئے احسن
الخالقین کہہ کر بیان کیا ہے کہ میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں،یعنی
اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ بھی مخلوق کو تخلیق کرنے کی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔
انسانی تخلیق اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں حد فاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وسائل کے
بغیر محض علمی بنیاد پر تخلیق فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو کچھ تھا،
اس کے بارے میں ’’کن‘‘ کہہ کر ان تمام چیزوں کو جو اللہ تعالیٰ ظاہر فرمانا چاہتے
تھے، تخلیق کر دیا۔ آدم کے اندر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی جو تخلیقی صلاحیتیں کام کر
رہی ہیں وہ وسائل کی محتاج ہیں۔ جب تک کوئی بندہ ان تخلیقی صلاحیتوں کو زمان و
مکاں کی حد بندیوں سے آزاد رہ کر استعمال کرتا ہے وہ سب جنت کی زندگی ہے اور جب
کوئی بندہ ان تخلیقی صلاحیتوں کو زمان و مکاں کی حد بندیوں کے اندر اور وسائل کے
اندر بند کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق یہ جہالت اور ظلم ہے۔ جس طرح
عقل و شعور اور دانائی ایک درخت کی طرح پھلتی پھولتی ہے یعنی علم کے اندر طرح طرح
کی شاخیں پھولتی ہیں، نئے نئے فلسفے کی داغ بیل پڑتی ہے، طرح طرح کی ایجادات ہوتی
ہیں، اسی طرح ظلم و جہالت کے درخت پر بھی پھول، پتے اور شاخیں اگتی ہیں۔ لیکن
چونکہ بنیاد ظلم اور جہالت پر ہوتی ہے اس لئے آدمی ان ساری ایجادات اور ترقیوں سے
خوش ہونے کی بجائے ناخوش ہوتا ہے۔ پرسکون ہونے کی بجائے بے سکون ہو جاتا ہے۔ مطمئن
ہونے کی بجائے غیر مطمئن زندگی گزارتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میں
جب ہم موجودہ سائنسی ترقیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس ترقی میں وہ تمام چیزیں
ملتی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ظلم اور جہالت کے نام سے بیان فرمایا ہے۔ آج کی
ترقی پوری نوع انسانی کے لئے ایک عذاب بن گئی ہے۔ ہر شخص غیر مطمئن اور بے سکون
ہے۔ دنیا کے اس کونے سے اس کونے تک عدم
تحفظ کا اژدھا منہ کھولے ہوئے پوری نوع انسانی کو نگلنے کے لئے بے قرار ہے۔
حالانکہ جہاں تک ترقی کا معاملہ ہے یہ ساری ترقیاں، یہ ساری ایجادات، یہ ساری
تخلیقات اس خیال کے تحت وجود میں آئی ہیں کہ نوع انسانی کو سکون ملے گا۔ لیکن
چونکہ یہ تمام چیزیں Time and Spaceمیں بند ہو کر معرض وجود میں آئی ہیں اس لئے آدمی بدحال اور پریشان ہے۔
جنت کی زندگی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب آدم نے اللہ تعالیٰ کی واضح ہدایت کو پس پشت
ڈال دیا تو وہ مصائب اور آلام میں گرفتار ہو گیا۔ قرآن پاک میں ہے۔
’’اتر جاؤ! اب تمہارے اوپر ذلت اور مسکنت کی مار ہے۔‘‘
یہ بات بالوضاحت بیان کی جا چکی ہے کہ
کائنات اور کائنات میں موجود تمام تخلیقات، تخلیقات میں تمام نوعیں اور ہر نوع کے
الگ الگ افراد، افراد کا پھیلنا اور سمٹنا، پیدائش کا تسلسل اور موت کا وارد ہونا،
ارض و سماوات، سورج، چاند، ستارے، بے شمار کہکشانی نظام، جنت، دوزخ اور جنت دوزخ
کے اندر زندگی گزارنے کے تمام حواس اور تقاضے، حواس میں رد و بدل اور رد و بدل کے
ساتھ حواس میں کمی بیشی، ذہنی رفتار کا گھٹنا یا بڑھنا، حواس کا الگ الگ تعین۔
سننا، دیکھنا، چھونا، چکھنا، محسوس کرنا، جسمانی خدوخال کا الٹ پلٹ ہونا، جذبات
میں اشتعال پیدا ہونا یا کسی بندے، کسی ذی روح کا نرم خو ہونا۔ یہ سب چیزیں اللہ
تعالیٰ کے ذہن میں موجود علم کا عکس ہیں۔
کائنات میں موجود کوئی ایک شئے۔۔۔۔۔۔اس کی
حیثیت کسی بڑے سے بڑے ستارے (Star) کی ہو یا زمین کے چھوٹے سے چھوٹے ذرے (Atom) کی ہو، اللہ تعالیٰ کے ذہن
میں موجود تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذہن کے اندر اس خوبصورت دنیا کو مظہر بنانا چاہا
تو فرمایا ’’کن‘‘ اور کائنات میں موجود تمام چیزیں من و عن اسی طرح جس طرح اللہ
تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھیں یا ہیں ایک تخلیقی وجود میں ظاہر ہو گئیں۔ تخلیقات
کا یہ سلسلہ یا کنبہ اتنا وسیع ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد
فرمایا ہے۔ ’’سارے سمندر روشنائی بن جائیں اور سارے درخت قلم بن جائیں پھر بھی
اللہ تعالیٰ کی باتیں پوری نہیں ہونگی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو کیوں بنایا؟ اور
یہ ساری خوبصورت تخلیقات کیوں عمل میں آئیں؟ جنت دوزخ کے دو الگ الگ گروہ کیوں
وجود میں آئے؟ ظاہری دنیا کے عجائبات اور غیب کی دنیا کے لامحدود عجائبات کو کیوں
بنایا گیا؟ اس کی وجہ خود اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’میں چھپا ہوا
خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ ایک ایسی کائنات تخلیق کروں جو مجھ سے متعارف ہو کر
مجھے پہچان لے۔‘‘ اس حدیث قدسی میں تفکر کرنے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آ جاتی
ہے کہ کائنات کی تخلیق کا منشا بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے
ہیں کہ مجھے پہچانا جائے۔ پہچاننے کے لئے ضروری ہے کہ تمام مخلوقات میں سے کسی ایک
مخلوق کا انتخاب کیا جائے اور اس منتخب مخلوق کو دوسری مخلوقات کے مقابلے میں
زیادہ علم دیا جائے۔ نہ صرف یہ کہ علم دیا جائے علم کے اندر مفہوم اور معنویت تلاش
کرنے کی صلاحیت عطا کی جائے۔ جہاں تک علم کی تقسیم کا تعلق ہے ، ہر ذی روح کے اندر
علم موجود ہے۔ ایک بکری یہ جانتی ہے کہ درخت کے پتے میری غذا ہیں۔ لیکن بکری یہ
نہیں جانتی کہ بیری کا درخت کس طرح اگتا ہے اور درخت سے درخت اور دوسرے درخت سے
تیسرا درخت کیسے اگایا جاتا ہے۔ بھوک پیاس کا علم تمام مخلوقات میں قدر مشترک ہے
خواہ وہ ذی روح ہوں یا انہیں ذی روح نہ سمجھا جاتا ہو۔
مخلوق کی دو نوعیں ایسی ہیں جن کو اللہ
تعالیٰ نے علم کے اندر معانی تلاش کرنے اور مفہوم پہنانے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ ایک
انسان اور دوسرے جنات۔ جنات کی تخلیق کے فارمولے بیان کرنا اس وقت ہمارے پیش نظر
نہیں ہے۔ چونکہ اب تک ان اسباق کو انسان تک محدود رکھا گیا ہے اس لئے انسانی علم
ہی ہمارے پیش نظر ہے۔
ذرا تفصیل سے اس بات کو دوسرے پیرائے میں
بیان کیا جاتا ہے تا کہ ذہن کے اوپر الگ سے جو بار پڑ سکتا ہے اس کی شدت کم سے کم
ہو جائے۔ ابھی یہ بات عرض کی گئی ہے کہ کائنات دراصل اللہ تعالیٰ کا وہ علم ہے جو
اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس بات سے واقف تھے کہ کائنات
کے تخلیقی خدوخال کیا ہیں۔ اپنے علم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تخلیقی خدوخال کو
اپنے حکم اور ارادے سے شکل و صورت بخش دی۔ اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ
تعالیٰ کا اپنا مخصوص اور ذاتی علم شکل و صورت بن کر وجود میں آ گیا۔ اب ہم یوں
کہیں گے کہ کائنات کی بنیاد، کائنات کی حقیقت علم اور صرف علم ہے۔ یعنی کائنات نام
ہے صرف اللہ تعالیٰ کے علم کا۔ جب تک یہ علم، علم تھا اللہ تعالیٰ کے ذہن میں
موجود تھا اور جب اللہ تعالیٰ کے ذہن میں یہ علم اپنے معنی، مفہوم اور نقش و نگار
کے ساتھ ظاہر ہوا تو اس کا نام کائنات بن گیا۔ اب اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ بندے
مجھے پہچانیں، میرا تعارف حاصل کریں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ خود ایک علم میں ایسا علم
جو ماوراء اور تمام علوم پر محیط ہے، اس لئے ضروری ہوا کہ مخلوقات میں سے کسی ایک
مخلوق کا انتخاب کر کے اسے علم کی دولت سے نوازا جائے۔ قرعہ فال آدم کے حق میں
نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو علم سکھایا۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا اپنی صفات اور اسماء کا علم عطا کیا۔ اسماء سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ
صفات ہیں جو صفات کائنات کے خدوخال میں موجود ہیں۔ یہ وہ علم ہے جو آدم کے لئے
مخصوص ہے۔ یہ ایسا علم ہے کہ جس سے فرشتے بھی ناواقف ہیں۔ اس علم کی حیثیت اتنی
عظمت والی ہے کہ جب یہ علم آدم نے سیکھ لیا تو فرشتوں کو آدم کے سامنے جھکنا پڑا۔ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ سے مراد یہ ہے کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا کہ کائنات میرے ذاتی
علم کا ایک حصہ ہے اور اس علم میں معانی اور مفہوم کے ساتھ بے شمار فارمولے ہیں،
جن فارمولوں پر کائنات کی تخلیق کی گئی ہے اور جن فارمولوں پر یہ کائنات قائم ہے۔یہ
جوکہا جاتا ہے کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ناموں کا سکھا دیا ، ایسی طرز ہے جو
عا م سطح کے ذہن کے لئے بیان کی جا سکتی ہے۔روحانیت میں اسماء سے مراد وہ
فارمولے ہیں ، جن فارمولوں پر کائنات کی
تخلیق کی گئی ہے۔ آدم کو کائناتی تخلیق کے فارمولے سکھانے کے بعد
اللہ تعالیٰ نے جنت میں بھیج دیا۔ یہ بات بہت زیادہ اہم ہے کہ اس وقت جنت میں آدم
کی پوزیشن ایک ایسے سائنس دان کی ہے جو کائنات کے تخلیقی فارمولوں کا عالم ہے۔ ان
فارمولوں میں بنیادی فارمولا یہ ہے کہ ساری کائنات ایک علم ہے۔ اور آدم اس علم میں
معانی اور مفہوم کے ساتھ تصرف کر سکتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ’’کن‘‘ ارشاد
فرما کر ساری کائنات کو وجود عطا کر دیا ہے، اسی طرح کائنات میں موجود تمام
تخلیقات پر فی الارض خلیفۃ کی حیثیت سے آدم کو تصرف کرنے کا اختیار ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں کائنات کی تخلیق کا
تذکرہ کیا ہے وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں۔
اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق کے ایک ایسے خالق ہیں کہ جن کی تخلیق میں وسائل کی پابندی
زیر بحث نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے میں جو چیز جس طرح اور جن خدوخال میں
موجود ہے، جب وہ اس چیز کو وجود بخشنے کا ارادہ کرتے ہیں تو حکم دیتے ہیں اور اس
حکم کی تعمیل میں تخلیق کے اندر جتنے وسائل ضروری ہیں وہ سب وجود میں آ کر تخلیق
کو عمل میں لے آتے ہیں۔
’’خالقین‘‘ کا لفظ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور بھی تخلیق کرنے والے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی
طرح دوسری ہر تخلیق وسائل کی پابند اور محتاج ہے۔ اس کی مثال آج کے دور میں بجلی
سے دی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک تخلیق بجلی (Electric) ہے۔ جب بندوں نے اس تخلیق
سے دوسری ذیلی تخلیقات کو وجود میں لانا چاہا تو اربوں کھربوں چیزیں وجود میں آ
گئیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وصف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لفظ ’’کن‘‘ کہہ کر بجلی کو
تخلیق کر دیا۔ آدم نے اختیاری طور پر یا غیر اختیاری طور پر جب بجلی کے علم کے
اندر تفکر کیا تو اس بجلی (Electricity) سے ہزاروں چیزیں وجود میں آ گئیں۔ بجلی سے جتنی چیزیں وجود میں
آئیں وہ انسان کی تخلیق ہیں۔ مثلاً ریڈیو، ٹی وی، لاسلکی نظام اور دوسری بے شمار
چیزیں۔ روحانی نقطہ نگاہ سے اللہ تعالیٰ کی اس تخلیق میں سے دوسری ذیلی تخلیقات کا
مظہر بننا، آدم زاد کا دراصل بجلی کے اندر تصرف ہے۔ یہ وہی علم ہے جو اللہ تعالیٰ
نے آدم کو سکھا دیا تھا۔ اسماء سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک ایسا
علم سکھا دیا جو براہ راست تخلیقی فارمولوں سے مرکب ہے۔ جب انسان اس علم کو گہرائی
کے اندر جا کر حاصل کرتا ہے اور اس علم کے ذریعے تصرف کرتا ہے تو نئی نئی چیزیں
سامنے آ جاتی ہیں۔ بات یہی ہے کہ کائنات دراصل ایک علم ہے، ایسا علم جس کی بنیاد
حقیقت سے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو وقوف عطا کر دیا ہے۔ لیکن اس وقوف کو حاصل کرنے
کے لئے یہ ضروری قرار دے دیا ہے کہ بندے علم کے اندر تفکر کریں۔ یہ بات ہم پہلے
بھی عرض کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا۔ ’’ہم نے لوہا نازل کیا
اور اس کے اندر لوگوں کے لئے بے شمار فائدے ذخیرہ کر دیئے۔‘‘ جن لوگوں نے لوہے کی
حیثیت اور طاقت کو تسلیم کر کے لوہے کی صفات میں تفکر کیا، ان لوگوں کے سامنے لوہے
کی لامحدود صلاحیتیں آ گئیں اور جب ان صلاحیتوں کو استعمال کر کے لوہے کے اجزائے
ترکیبی کو متحرک کر دیا تو لوہا ایک ایسی عظیم شئے بن کر سامنے آیا کہ جس سے
موجودہ سائنس کی ہر چیز، ہر ترقی کسی نہ کسی طرح وابستہ ہے۔ یہ ایک ایسا تصرف ہے
جو وسائل میں کیا جاتا ہے یعنی ان وسائل میں جن وسائل کا ظاہری وجود ہمارے سامنے
ہے۔ جس طرح لوہا ایک تخلیق ہے اسی طرح روشنی بھی ایک تخلیق ہے۔ وسائل کی حدود سے
گزر کر یا وسائل کے علوم سے آگے بڑھ کر جب کوئی بندہ روشنیوں کا علم حاصل کرتا ہے
تو جس طرح لوہے میں تصرف کے بعد وہ عظیم الجثہ مشینیں، کل پرزے ، جہاز، ریل
گاڑیاں، بڑے بڑے بم اور دوسری ترقیوں میں لوہے کا استعمال کرتا ہے اسی طرح روشنیوں
کے علوم حاصل کر کے وہ روشنیوں کے ذریعے بہت ساری تخلیقات وجود میں لے آتا ہے۔
تصوف میں اسی بات کو ’’ماہیت قلب‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وسائل میں محدود رہ
کر ہم سونے کے ذرات کو اکٹھا کر کے ایک خاص پروسیس سے گزار کر سونا بناتے ہیں۔ اس
کو وسائل میں تصرف کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن وہ بندہ جو روشنیوں میں تصرف کرنے کا
اختیار رکھتا ہے اس کے لئے سونے کے ذرات کو مخصوص پروسیس سے گزارنا ضروری نہیں ہے۔
وہ اپنے ذہن میں روشنیوں کا ذخیرہ کر کے ان مقداروں کو الگ کر لیتا ہے جو مقداریں
سونے کے اندر کام کر رہی ہیں اور ان مقداروں کو ایک نقطہ پر مرکوز کر کے ارادہ
کرتا ہے اور کہتا ہے ’’سونا‘‘ سونا بن جاتا ہے۔
اس بات کو دوبارہ بیان کیا جاتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق میں کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ جب وہ کوئی چیز بنانا چاہتے
ہیں تو ’’کن‘‘ کے ساتھ تخلیق کے لئے جتنے وسائل کا ہونا ضروری ہے وہ خودبخود تخلیق
ہو جاتے ہیں اور بندے کا تصرف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق میں
تصرف کرتا ہے۔ تصرف کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ وسائل میں محدود رہ کر وسائل کو
مجمتع کر کے کوئی نئی چیز بنائی جاتی ہے اور دوسرا طریقہ روشنیوں میں تصرف کرنا ہے
یعنی کوئی چیز جن روشنیوں پر قائم ہے، ان روشنیوں کی مقداروں میں رد و بدل کر کے
تصرف کیا جاتا ہے۔ تصرف کا یہ طریقہ انسان کے اندر ان روشنیوں سے متعلق ہے جن
روشنیوں کو اللہ تعالیٰ نے علم الاسماء کہا ہے۔ روشنیوں کے اس ذخیرے کو حاصل کرنے
کا طریقہ ہی دراصل روحانیت ہے۔ روحانیت میں یہ بات دن کی روشنی کی طرح سامنے آ
جاتی ہے کہ زمین پر موجود اور پوری کائنات میں موجود ہر شئے کی بنیاد اور بساط
روشنی ہے اور یہ روشنی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت معین مقداروں
کے ساتھ قائم ہے اور معین مقداروں کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور معین مقداروں کے
ساتھ گھٹتی بڑھتی ہے۔ پیدائش سے موت تک کا زمانہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کوئی بچہ
اپنی ایک حیثیت پر قائم نہیں رہتا۔ جن معین مقداروں پر بچہ پیدا ہوا ہے ان معین
مقداروں میں ایک ضابطہ، ایک قانون اور ایک ترتیب کے ساتھ ردوبدل ہوا رہتا ہے۔ جس
طرح مقداروں میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے اسی مناسبت سے آدمی بھی بدلتا رہتاہے۔
یہاں دو طرزیں زیر غور آتی ہیں۔ آدم کا
بچہ، بچہ ہو، جوان ہو، بوڑھا ہو بہر صورت وہ آدمی رہتا ہے۔ یعنی اس کی شکل و صورت
اور خدوخال میں تو تبدیلی ہوتی رہتی ہے لیکن نوع انسانی کی شکل و صورت برقرار رہتی
ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے کنبے کو مختلف نوعوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک معین
مقدار یہ ہے کہ انسان ہر حال میں انسان رہتا ہے لیکن اس کے خدوخال تبدیل ہوتے رہتے
ہیں۔ اور زندہ رہنے کے تقاضوں میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے۔ ایک بکری کا بچہ بہر
صورت بکری کا بچہ رہتا ہے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ اس کے اندر زندگی گزارنے کے تقاضے
بدلتے رہتے ہیں۔ اب اس بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ معین مقداریں دو رخ پر قائم
ہیں۔ ایک رخ یہ ہے کہ اس میں رد و بدل یہ ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کے نقوش جوانی
میں سرتا پا بدل جاتے ہیں۔ جوانی کے بعد بڑھاپا آتا ہے تو بڑھاپے میں جوانی کے
نقوش ڈھل جاتے ہیں اور اس طرح ڈھل جاتے ہیں یا مٹ جاتے ہیں کہ جوانی کی تصویر اور
بڑھاپے کی تصویر دو الگ الگ تصویریں نظر آتی ہیں۔ اس کو معین مقداروں میں ردو بدل
کا نام دیا جاتا ہے اور وہ مقداریں جو قائم بالذات ہیں یہ ہیں کہ آدمی ایک دن کا
بچہ ہو یا سو سال کا بوڑھا ہو، بھوک کا تقاضا اس کے اندر موجود ہے، پانی پینے کا
تقاضا اس کے اندر موجود ہے۔ عجیب رمز ہے کہ دو سال کا بچہ بھی پانی پیتا ہے، دو
سال کا بچہ بھی غذا کھاتا ہے۔ سو سال کا بوڑھا آدمی بھی پانی پیتا ہے، سو سال کا
بوڑھا آدمی بھی غذا کھاتا ہے۔ لیکن سو سال کا آدمی دو سال کا بچہ نہیں ہوتا اور دو
سال کا بچہ سو سال کا بوڑھا آدمی نہیں ہوتا۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ روحانی علوم
ہمارے اوپر یہ بات واضح کرتے ہیں کہ بڑھاپے اور بچپن کے تقاضے یکساں ہونے کے
باوجود صورت، شکل اور خدوخال کیوں تبدیل ہو جاتے ہیں اور صورت شکل اور خدوخال کے
رد و بدل میں اللہ تعالیٰ کے کون سے علوم کام کر رہے ہیں۔ ان علوم سے روشناس ہونے
کے لئے پہلی بات یہ ضروری ہے کہ ہم ان روشنیوں کا علم حاصل کریں جن روشنیوں کو
اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کہا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔