Topics
سوال: انسانی زندگی کا دارومدار اطلاع پر
ہے۔ کیا موت کے بعد بھی اطلاعات کا سلسلہ جاری رہتا ہے؟ تصوف کے حوالے سے تشریح
فرمائیں۔
جواب: یہ بات کئی بار پوری طرح واضح کی
گئی ہے کہ انسانی زندگی کا دارومدار محض اور محض اطلاع یا خبر کے اوپر ہے۔ ہم جب
زندگی میں کام کرنے والے تقاضوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے اوپر اس بات کا انکشاف
ہوتا ہے کہ دراصل زندگی میں کام آنے والا ہر جذبہ ایک خبر یا اطلاع ہے۔ یہ بات بھی
بتائی جا چکی ہے کہ کھانا آدمی اس وقت کھاتا ہے جب اسے بھوک لگتی ہے۔ پانی آدمی اس
وقت پیتا ہے جب اسے پیاس لگتی ہے۔ سونے کے لئے بستر پر اس وقت لیٹتا ہے جب اسے
سونا ہوتا ہے۔ نیند سے اس وقت بیدار ہوتا ہے جب اسے دماغ اس بات پر آمادہ کرتا ہے
کہ مزید سونا جسمانی اور دماغی صحت کے لئے مضر ہے۔ اپنے بچوں سے آدمی پیار اس
بنیاد پر کرتا ہے کہ شعوری اور لاشعوری اعتبار سے یہ بات اس کے علم میں ہے کہ یہ
اس کے بچے ہیں۔ اگرچہ وہ دوسرے بچوں سے بھی محبت کرتا ہے اور ان کے ساتھ شفقت سے
پیش آتا ہے لیکن اپنی اولاد اور دوسرے کی اولاد میں بہرحال امتیاز برقرار رہتا ہے۔
بچے بحیثیت بچوں کے سب برابر ہیں۔ بھولے
بھالے معصوم چہرے سب بچوں کے ہوتے ہیں۔ ان کی پیاری اور خوش کرنے والی باتیں بھی
ایک سی ہوتی ہیں۔ بچوں کا مزاج بھی تقریباً یکساں ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ اطلاع ہے
کہ یہ بچے ہمارے ہیں اور وہ بچے فلاں کے ہیں۔ یہ اطلاع یا خبر محبت اور شفقت میں
ایک حد فاصل پیدا کر دیتی ہے۔ عورت بحیثیت عورت کے عورت ہے۔ دنیا کی تمام عورتیں
ایک سے خدوخال پر مشتمل ہیں لیکن جب رشتہ زیر بحث آتا ہے تو ہمیں اطلاع ملتی ہے کہ
یہ عورت ہماری بہن ہے، یہ عورت ہماری ماں ہے، یہ عورت ہماری بیوی ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اطلاع نے ایک ہی ہستی کے رشتے الگ الگ متعین کر دیئے۔ ایک
آدمی رات دن محنت کر کے پسینہ بہا کر روزی حاصل کرتا ہے۔ اس روزی کے حصول کے دوران
اس کے دماغ میں یہ بات موجود ہے کہ یہ روزی حلال ہے۔ دوسرا آدمی پہلے آدمی سے بہت
زیادہ محنت کرتا ہے لیکن اس کے دماغ میں یہ اطلاع یا خبر یا یہ مفہوم موجود ہے کہ
یہ روزی حلال نہیں ہے۔ دونوں آدمی آٹا خریدتے ہیں۔ آٹے سے روٹی پکتی ہے اور دونوں
آدمی روٹی کھاتے ہیں۔ مگر اطلاع کی بنیاد پر ایک کھانا حلال قرار پاتا ہے اور
دوسرا کھانا حرام قرار پاتا ہے۔ یہی حال ہماری جسمانی صحت اور بیماری کا بھی ہے۔
بیمار ہونے سے پہلے ہر آدمی کے اوپر کم و بیش یہ کیفیت ضرور طاری ہوتی ہے کہ وہ
بیمار ہے۔ نتیجہ میں وہ بیمار ہو جاتا ہے۔ ایک آدمی اچھا خاصا بیٹھا ہوا ہے۔ طبیعت
میں اگر کسلمندی ہے، اعصاب میں ذرا سا کھچاوٹ ہے۔ وہ اس بات کا اظہار اس طرح کرتا
ہے کہ میری طبیعت خراب ہے اور مجھے بخار ہونے والا ہے۔ نتیجہ میں اسے بخار ہو جاتا
ہے۔ جب تک کوئی آدی بیماری کی اطلاع قبول نہیں کر لیتا، وہ ہرگز بیمار نہیں ہوتا۔
یہ قانون ہے اور بیماری چھوٹی ہو یا بڑی ا س کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ یہ بات بڑی
عجیب ہے کہ کوئی آدمی اپنی مرضی سے بیمار ہوتا ہے لیکن قانون یہ ہے یا لوح محفوظ
پر یہ لکھا ہوا ہے کہ جب تک کوئی آدمی بیماری کی اطلاع کو قبول نہیں کر لیتا،
بیمار نہیں ہو سکتا۔ یہی حال موت کا بھی ہے۔ جب تک کوئی آدمی ذہنی یا شعوری طور پر
لاشعور میں ذخیرہ موت کی اطلاع قبول نہیں کرتا، وہ ہرگز نہیں مرتا۔ یہ بھی بہت
عجیب بات ہے کیونکہ آدمی اس دنیا میں ایسا پیدا نہیں ہوا جو خود اپنی مرضی سے مرنا
چاہتا ہو۔ لیکن قانون اپنی جگہ اٹل ہے ۔ اس لئے کہ نہ صرف زندگی بلکہ موت بھی ایک
اطلاع ہے۔
یہاں ایک اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ صاحب!
انفرادی طور پر بہ امر مجبوری اس قانون کو مان لیتے ہیں۔ لیکن یہ جو حادثاتی موتیں
ہوتی ہیں یا جنگوں میں ہزاروں لاکھوں آدمی مر جاتے ہیں، یہ تو نہیں چاہتے کہ ہم مر
جائیں۔ ایک دشمن نے حملہ کر کے ان کے اوپر موت مسلط کر دی حالانکہ وہ مرنا نہیں
چاہتے تھے ایسا نہیں ہے، فی الواقع وہ سب مرنا چاہتے تھے ا س لئے مر جاتے ہیں۔
زندگی کے طرز عمل کو اگر بہت غور سے دیکھا جائے، زندگی میں کام کرنے والی طرزوں کی
چھان پھٹک کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ آسمانی صحائف کے بیان کردہ قوانین کا
مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بہت آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔وہ یہ ہے کہ آدمی کی زندگی ہمہ وقت ، ہر آن اور ہر لمحہ
دو دائروں میں سفر کر رہی ہے۔ ایک دائرہ شعوری ہے اور دوسرا دائرہ لاشعوری۔ قدرت
نے یہ بات متعین کر دی ہے کہ اس قسم کے اعمال و حرکات اور اس قسم کا طرز عمل قوموں
کو تباہ کر دیتا ہے اور اس قسم کا طرز عمل قوم کی رگوں میں زندگی بن جاتا ہے۔ جو
قومیں اپنی زندگی یعنی روح سے دور ہو جاتی ہیں وہ قومیں مر جاتی ہیں۔ اس لئے کہ
مرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آدمی کا وجود تحلیل ہو گیا۔ یا آدمی بنیادی طور
پر ختم ہو گیا۔ موت کا مطلب یہ ہے کہ انسانی جسم یعنی گوشت پوست کے جسم کا رشتہ
روح سے منقطع ہو گیا۔ انفرادی طور پر کوئی فرد واحد روح سے رشتہ منقطع کرلے وہ بھی
مرنا ہے اور اجتماعی طور پر پوری قوم اپنی روح سے رشتہ منقطع کر لے وہ بھی مرنا ہے
یعنی کسی فرد یا قوم نے اس اطلاع کو قبول کر لیا ہے جس اطلاع کا نام عرف عام میں
موت رکھا جاتا ہے۔ مسلمان من حیث القوم جب تک اپنی روح کے ساتھ وابستہ رہے، دنیا
میں عروج پاتے رہے۔ اور مسلمان من حیث القوم جب اپنی روح سے دور ہوئے، مر گئے۔
مرنے کی بہت ساری شکلیں ہیں۔ کوئی وبا آ کر کھا جائے۔ کوئی دشمن شب خون مار کر
ہلاک کر دے، کوئی بڑی طاقت لقمہ تر سمجھ کر نگل لے۔ قانون اپنی جگہ قانون ہے کہ
قوم نے اس لئے وہ اطلاع جو موت کا روپ دھارتی ہے انتخاب کر لیا۔ تمام انبیاء کا
مشن، ان کی تعلیم اور تبلیغ یہ ہے کہ انسان کو یہ بتا دیا جائے کہ اس کا وجودصرف
اور صرف اطلاع پر قائم ہے۔ روح اگر کہتی ہے کہ تو زندہ ہے تو وہ زندہ ہے۔ روح اگر
کہتی ہے کہ تو مردہ ہے تو وہ مردہ۔ موت کی قسمیں ہیں، ایک موت طبعی موت کہلاتی ہے،
ایک موت حادثاتی موت کہلاتی ہے۔
ایک موت اجتماعی موت کہلاتی ہے۔ کسی موت
کا نام موت رکھا جاتا ہے اور کسی موت کا نام ہلاکت رکھا جاتا ہے اور کسی موت کا
نام شہادت رکھا جاتا ہے۔ یہاں بھی قانون کی وہی دفعہ کام کر رہی ہے کہ موت کی
اطلاع ہمیں کن معنوں میں موصول ہوئی۔ آیا ہم طبعی موت مر رہے ہیں یا ہم کتے بلی کی
موت مر رہے ہیں۔ یا ہم شہادت حاصل کر رہے ہیں۔ ہم جب اس دنیا سے منتقل ہو رہے ہیں
تو ہمارا ٹھکانہ جہنم ہے یا ہمارا ٹھکانہ جنت میں ہو گا۔ جس اطلاع میں آدمی مر
جاتا ہے، مرنے کے بعد وہی اطلاع زندگی بن جاتی ہے۔
کوئی آدمی اس دنیا میں پریشان حال ہے۔ وہ
پریشان خیالی اور خلفشار کے عذاب میں مر گیا تو وہ سیدھا دوزخ میں گیا۔ اس لئے
دوزخ کی اطلاع انبیاء سے جو کچھ ہمیں ملی وہ پریشان حالی ہے، درماندگی ہے، منتشر
خیالی ہے، تکلیف و اذیت ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے برعکس اگر کوئی بندہ سکون آشنا
زندگی میں داخل ہو کر، راحت و سکون کے جذبات سے متاثر ہو کر اور عدم تحفظ اور ڈر
اور خوف کے جذبات سے آزاد ہو کر مرتا ہے تو وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے۔ اس لئے کہ
انبیاء سے جنت کے بارے میں جو اطلاع ہمیں ملی وہ یہ ہے کہ راحت ہو گی، رات و سکون
ہو گا، آرام ملے گا، طرح طرح کی نعمتیں دسترخوان پر ہمیں میسر ہوں گی، وغیرہ
وغیرہ۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ دوزخ جس طبقے یا جس علاقے یا جس آبادی یا جس
کانٹوں بھرے میدان کا نام ہے وہاں وہ لوگ قیام کریں گے جو اللہ کے ناپسندیدہ ہیں،
جنہوں نے کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ ہم اللہ کو پہچانیں، اللہ سے ہمارا تعلق اور
رابطہ قائم ہو، ہمیں اللہ کا قرب نصیب ہو اور ہم اللہ کے دوست بن جائیں۔ دوسرا
طبقہ جنت کا طبقہ ہے۔ اس طبقہ میں وہ لوگ رہیں گے جن لوگوں نے اللہ سے قربت حاصل
کرنے کے لئے جدوجہد کی، وہ لوگ رہیں گے جنہوں نے ان باتوں سے احتراز کیا جو اللہ
اور اس کے رسول کو ناپسندیدہ ہیں۔ جنت میں وہ لوگ رہیں گے جنہوں نے قرآن کی
تعلیمات کو اس طرح سمجھا جس طرح پیغمبروں نے سمجھا، اپنی عارضی زندگی میں اللہ کے
دیئے ہوئے اختیار کو اس طرح استعمال کیا جس طرح پیغمبروں نے اپنے اختیارات استعمال
کئے۔ جنت کے باسی وہ لوگ ہوں گے۔ جن کے سروں پر اللہ تعالیٰ نے دست شفقت رکھ دیا
ہے۔ وہ اللہ کے دوست ہیں۔ ألا إن
أولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون ۔ اللہ کے دوستوں کی تعریف یہ ہے کہ ان کی زندگی میں نہ خوف ہوتا ہے اور
نہ حزن و ملال ہوتا ہے اور نہ غم ہوتا ہے۔اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں اگر تفکر کیا
جائے تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے اور یہ بات ایسی ہے جس کو کوئی بڑے سے بڑا عالم
دین، بڑے سے بڑا مسند نشین، گدی نشین، بڑے سے بڑا پیر رد نہیں کر سکتا، یہ کہ اللہ
کے دوستوں کو نہ خوف ہوتا ہے اور نہ غم اور جن لوگوں کے اندر غم ہوتا ہے اور خوف
ہوتا ہے وہ اللہ کے دوست نہیں ہو سکتے اور جو اللہ کے دوست نہیں ہوتے، جنت کی فضا
انہیں قبول نہیں کرتی۔ وہ دوزخ کا ایندھن ہوتے ہیں۔ اگر کسی کے اندر غم اور خوف ہے
تو اللہ کے بیان کردہ قانون کے مطابق وہ جنتی نہیں ہے۔ روحانی قدروں میں کسی شاگرد
یا راہ سلوک پر چلنے والے مسافر کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ اس کے دل سے خوف
اور غم نکل جائے۔ خوف اور غم اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑتے جب تک آدمی کے اندر
قناعت اور استغناء موجود نہ ہو۔
قناعت اور استغناء کوئی لفظی معمہ نہیں ہے
یا کوئی حساب کا ہیر پھیر نہیں ہے۔ استغناء فی العمل ایک کیفیت ہے، ایک حقیقت ہے۔
ایسی حقیقت جو حقیقت مطلق کے متصل ہے جب
تک کوئی بندہ حقیقت سے متعارف نہیں ہوتا، مشاہدہ نہیں کر لیتا اس وقت تک اس کے
اندر استغناء پیدا نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو وہ اتنا ہوتا ہے کہ محض اس کا
تذکرہ کیا جا سکتا ہے۔ جس آدمی کے اندر جس مناسبت سے قناعت اور استغناء موجود ہے
اس آدمی کے اندر اسی مناسبت سے ڈر، خوف اور غم بھی کم ہوتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔