Topics
سوال: استغنا کیا ہے؟ عام طور پر خواہشات
سے دست کشی کو استغناء کہا جاتا ہے۔ روحانیت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: سائنس کی موجودہ جتنی بھی ترقی اب
تک سامنے آ چکی ہے جب ہم اس کے افادی پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ
بات آتی ہے کہ نوع انسانی کی فلاح و بہبود کے پردے میں اس ترقی کا ماحصل دنیاوی
لالچ ہے۔ جتنی بھی سائنس نے ترقی کی۔ اس ترقی سے نوع انسان مستفیض ہوئی لیکن جن
لوگوں نے یہ ایجادات کیں ان کے پیش نظر مالی اور دنیاوی منفعت رہی۔ ہم طرز فکر کے
بارے میں بہت واضح طور پر یہ بیان کر چکے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ موجود ہے اس کا
تعلق براہ راست طرز فکر سے ہے۔ ایک طرز فکر وہ ہے جس کا تعلق براہ راست اللہ
تعالیٰ کی ذات سے ہے اور ایک طرز فکر وہ ہے جس طرز فکر کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے
قائم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرز فکر کا مشاہدہ ہر آن اور ہر گھڑی ہوتا ہے۔ اللہ
تعالیٰ نے خود بھی قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے۔
’’ہماری نشانیوں پر غور کرو، تفکر کرو اور
عاقل، بالغ، باشعور، سمجھ دار اور فہیم لوگ وہ ہیں جو ہماری نشانیوں پر غور کرتے
ہیں۔‘‘اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں ظاہرہ حواس سے دیکھی جانے والی نشانیاں جن سے ہم
ہر وقت مستفیض ہوتے رہتے ہیں وہ ہوا، پانی، دھوپ اور رنگ ہیں۔ زمین کے نشوونما اور
نئی نئی چیزیں تخلیق کرنے کی صلاحیت ہے،اللہ تعالیٰ نے اس کی کوکھ سے ایسی ایسی
چیزیں پیدا کیں جن چیزوں پر نہ صرف یہ کہ نوع انسانی بلکہ زمین کے اوپر جتنی بھی
مخلوق موجود ہے اس کی زندگی کا دارومدار ہے۔ ہوا ایک ایسی نشانی ہے کہ جس سے زمین
پر رہنے والا ایک متنفس بھی محروم نہیں ہے۔ پانی ایک ایسی نشانی ہے جو انسان کی
زندگی کو فیڈ Feedنہ کرے تو زندگی ختم ہو جائے گی۔ نہ صرف یہ کہ انسانی زندگی ختم ہو جائے
گی۔ پورا سیارہ زندگی سے محروم ہو جائے گا۔ یہی حال دھوپ کا ہے۔ یہی حال چاندنی کا
ہے۔ یہی حال درختوں کے سرسبز و شاداب ہونے کا ہے اور یہی حال رنگ برنگے پھولوں کا
ہے۔ یہ ساری چیزیں براہ راست اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہیں۔ ان تخلیقات پر جب
تفکر کیا جاتا ہے تو بجز اس کے کوئی بات سامنے نہیں آتی کہ ان تمام تخلیقات سے
اللہ تعالیٰ کا منشاء اور مقصد یہ ہے کہ نوع انسانی کو فائدہ پہنچے ایسا فائدہ کہ
جس فائدہ کے پیچھے کوئی غرض، کوئی صلہ، کوئی مقصد، کوئی لین دین اور کوئی کاروبار
نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام چیزیں اس لئے پیدا کی ہیں کہ
بندے اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں تو پھر ہم یہ کیسے تسلیم
کریں گے کہ جو لوگ اللہ کی ذات و صفات کا انکار کرتے ہیں اور برملا کفر کی زندگی
بسر کر رہے ہیں، ہوان کو بھی زندگی دے رہی ہے، پانی سے وہ بھی سیراب ہو رہے ہیں۔
دھوپ میں جو حیاتین اور توانائی موجود ہے ان سے بھی انہیں فائدہ پہنچ رہا ہے۔ نوع
انسانی سے ہٹ کر سانپ، بچھو، کنکھجورے اور بے شمار حشرات الارض بھی اللہ تعالیٰ کے
اس مفت انعام سے مالا مال ہیں۔ اس مختصر سی تمہید سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی
ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرز فکر یہ ہے کہ وہ جب انعام فرماتے ہیں تو مخلوق کو بلا
تخصیص اس سے فائدہ پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی طرف سے کسی صلہ یا ستائش
کی غرض نہیں ہوتی۔ بس یہ ان کی شان کریمی ہے کہ انہوں نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس
مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے اتنے وسائل فراہم کر دیئے کہ فی الواقع مخلوق اس کا
شمار بھی نہیں کر سکتی۔
اللہ تعالیٰ وسائل بے حد و حساب عطا
فرماتے ہیں۔ اس کے برعکس جب ہم سائنسی ترقیات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں سائنس کی
ہر ترقی میں ذاتی منفعت اور دنیاوی لالچ ملتا ہے۔ یہ وہ طرز فکر ہے جو اللہ تعالیٰ
کی طرز فکر کے متضاد ہے۔ ظاہر ہے جو چیز اللہ تعالیٰ کی طرز فکر کے مطابق نہیں ہے
وہ اللہ تعالیٰ کے لئے پسندیدہ نہیں ہے۔ جتنا قرب اللہ تعالیٰ سے بندے کو ہوتا ہے
اسی مناسبت سے بندے میں اللہ تعالیٰ کی طرز فکر منتقل ہوتی رہتی ہے اور اس سے ایسے
اعمال سرزد ہوتے رہتے ہیں جن سے مخلوق کو فائدہ پہنچتا ہے لیکن اس بندے کا اپنا
ذاتی فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔ تمام اولیاء کرام کی زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ انہوں
نے نوع انسانی کی جو بھی خدمت کی اس خدمت کے پیچھے ان کا اپنا کوئی ذاتی فائدہ
نہیں تھا اور اگر کسی بندے کا ذاتی فائدہ ہے تو وہ ہرگز اولیاء اللہ کی صف کا بندہ
نہیں ہے۔ کوئی آدمی اپنی کوشش اپنی ریاضت سے اپنے اندر روحانی صلاحیتوں کو بیدار
کر کے یقیناًخرق عادات کا اظہار کر سکتا ہے لیکن اگر اس کی طرز فکر اللہ تعالیٰ کی
طرز فکر سے ہم آہنگ نہیں ہے تو یہ تصوف نہیں ہے۔ ایک سائنس ہے ایسی سائنس جو
لامذہب لوگ بھی اختیار کر سکتے ہیں اور جیسا کہ اس زمانے میں ہو رہا ہے۔ یورپ میں
جو روحانیت کے اوپر ریسرچ ہو رہی ہے یا روحانی نقطہ نظر سے بقول ان کے جو ترقیاں
ہمارے سامنے آ رہی ہیں ان ترقیوں میں ایک ہی بات لگتی ہے۔ وہ یہ کہ اس ترقی سے ہم
نوع انسانی کو کس طرح تباہ کر سکتے ہیں۔ اس ترقی سے ہم اپنا اقتدار کس طرح مضبوط
کر سکتے ہیں۔ اس ترقی سے ہم دوسرے لوگوں کو شکست خوردہ قوم کس طرح بنا سکتے ہیں
یعنی آدمی اپنے خول کے اندر بند ایسی ایجادات کو جن ایجادات کا فائدہ براہ راست
اللہ کی مخلوق کو نہیں پہنچتا اور اگر کسی تخلیق یا ایجاد کا فائدہ پہنچتا بھی ہے
تو وہ بھی بہ امر مجبوری پہنچتا ہے۔ اب تک کے حالات شاہد ہیں کہ جن لوگوں نے
سائنسی ترقی حاصل کی ہے اور جو قومیں دنیا میں سب سے آگے ہیں وہاں ایک ہی کشمکش
ملتی ہے کہ ہم کس طرح دوسروں کو نیست و نابود کر کے غالب آ جائیں۔ یہ اس وقت ہے جب
کوئی ترقی براہ راست ترقی نہیں ہے۔ جو بھی ترقی اب تک ہوئی ہے یا آئندہ ہو گی یا
ہو چکی ہے اس کے مصالحہ پر غور کیا جائے تو اس مصالحہ کی تخلیق کوئی نہیں۔ بجلی
اللہ تعالیٰ کی ایک تخلیق ہے بجلی کو دریافت کرنے کا سہرا بے شک آدمی کے سر پر
بندھا ہوا ہے لیکن یہ کہ بجلی اس نے پیدا کر دی ہے، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ بجلی
اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ زمین کے سوتے خشک کر
دیں یا پہاڑوں سے آبشاریں گرنا بند ہو جائیں، بادل برسنا چھوڑ دیں، سارے سمندر خشکی
بن جائیں اس وقت بجلی کہاں سے پیدا ہو گی۔ بجلی پیدا ہونا تو ایک جملہ مفروضہ ہے،
زندگی ہی ختم ہو جائے گی۔ انبیاء کرام کی تعلیمات پر روحانی نقطہ نظر سے اور قلبی
مشاہدے کے ساتھ غور کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کی ساری تعلیمات کا نچوڑ
یہ ہے کہ بندے کی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی طرف موڑ دیا جائے یعنی اگر بندہ انفرادی
طور پر زندہ رہتا ہے تو اس لئے زندہ نہ رہے کہ اس کو اس کی مرضی کے بغیر اللہ
تعالیٰ نے پیدا کیا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ وہ زندہ رہے اگر اللہ
تعالیٰ نے اس کے اندر صلاحیتوں کا ذخیرہ جمع کر دیا ہے تو جب اللہ تعالیٰ اسے
توفیق دیں اور وہ ان صلاحیتوں کا استعمال کرے تو اس کے ذہن میں یہ بات رہے کہ میری
صلاحیتوں کا اظہار اس لئے ہو رہا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ
پہنچے۔ یہ کہنا کہ استغناء کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہشات کو ختم کر دے، ہرگز
صحیح نہیں ہے۔ یہ سراسر کوتاہ عقلی کی دلیل ہے اس لئے کہ زندگی بجائے خود خواہشات
کا نام ہے۔ زندگی سے خواہشات کو نکال دیا جائے تو زندگی روشنیوں میں تحلیل ہو جائے
گی کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ کیا پانی پینا، بھوک لگنا، سونے اور جاگنے کا تقاضہ،
بچوں کی خواہش پیدا ہونا، بچوں کی تربیت کرنا، اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کا
تقاضا پیدا ہونا خواہشات نہیں ہیں۔ یہ سب خواہشات ہیں؟ مراد یہ ہے کہ تمام خواہشات
پوری کی جائیں لیکن خواہشات کو پورا کرنے میں انسان کا ذہن یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ
چونکہ یہ چاہتے ہیں لہٰذا ہم یہ کر رہے ہیں۔ استغناء سے مراد یہ بھی نہیں ہے کہ
آدمی ساری زندگی روزے رکھتا رہے۔ استغناء سے مراد یہ بھی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ
وسائل عطا فرمائیں اور آدمی سوکھی روٹی کھاتا رہے۔ استغناء سے مراد یہ ہے کہ جو
کچھ کرے اللہ کے لئے کرے۔ اللہ تعالیٰ اگراطلس و کمخواب کے کپڑے پہناتا ہے تو وہ
کپڑے اس لئے پہنے کہ اللہ تعالیٰ نے پہنائے ہیں، اللہ تعالیٰ اگر ٹاٹ کے کپڑے
پہنائے تو آدمی اس سے بھی اتنا ہی خوش رہے جتنا وہ اطلس و کمخواب کے کپڑے پہن کر
خوش ہوتا۔ آدمی کو اللہ تعالیٰ مرغی کھلائے تو وہ مرغی کھائے۔ لیکن اگر حالات کے
تقاضے کے تحت آدمی کو چٹنی سے روٹی ملے یا ایک وقت روٹی ملے تو اس میں بھی اتنا ہی
خوش رہے جتنا وہ مرغی کھاکر خوش ہوا تھا اور یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب
آدمی کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ ہماری زندگی کی ہر حرکت پر عمل ہماری
گفتار کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بولنے کی صلاحیت
دی ہم بولتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں سننے کی صلاحیت عطا کی ہم سنتے ہیں، اللہ
تعالیٰ نے ہمیں سوچنے سمجھنے اور تفکر کرنے کی صلاحیت دی ہے ہم سوچتے ہیں، تفکر
کرتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ایسا
کیا جائے۔
اسی قسم اور اسی قبیل کے لوگوں کے لئے
ارشاد خداوندی ہے ’’والراسخون فی العلم‘‘ اور وہ لوگ جو راسخ فی العلم ہیں کہتے ہیں کہ یہ بات یقین اور مشاہدے میں
ہے کہ ہر بات ہر چیز من جانب اللہ ہے۔ اس آیت کے مفہوم پر غور کیا جائے تو سوچنے
اور سمجھنے کے کئی رخ متعین ہوتے ہیں۔ تفصیل میں جانے کی بجائے ہم دو رخوں کا
تذکرہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’وہ لوگ علمی اعتبار سے مستحکم ذہن
رکھتے ہیں یعنی ایسا ذہن جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ایسا ذہن جو شیطانی
وسوسوں سے پاک ہے،
یسا ذہن جس کے اندر کثافت اور علمی
آلودگیاں نہیں ہیں۔ علمی کثافت اور علمی آلودگی سے مراد یہ ہے کہ اس علم سے بندوں
کو تکلیف پہنچے۔ جس کو عرف عام میں تخریب کا علم کہا جاتا ہے اور وہ لوگ جو علمی
اعتبار سے ایسی مسند پر قیام فرما ہیں جس پر شکوک و شبہات کی چھاپ نہیں ہے۔ وہ
کہتے ہیں کہ ہمارا یقین اور ایمان ہے کہ ہر چیز اس کی دنیا میں کوئی بھی حیثیت
رکھتی ہو، چھوٹی ہو، بڑی ہو، راحت ہو، تکلیف ہو، ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے۔ اس آیت
مبارکہ میں مختصر دو رخوں کا ذکر اس طرح ہے کہ کچھ لوگ ہیں جو راسخ العلم ہیں اور
ان لوگوں کا کہنا یہ ہے یا ان لوگوں کی پہچان یہ ہے یا ان لوگوں کی طرز فکر یہ ہے
کہ یہ بات ان کے مشاہدے میں ہوتی ہے کہ کائنات میں جو کچھ موجود ہے، جو کچھ ہو چکا
ہے، ہو رہا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے، اس کا براہ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے
ہے یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کے ذہن میں ہے اسی طرح اس چیز کا یا اس عمل کا مظاہرہ
ہو رہا ہے یا فلسفیانہ طرز فکر کو نظر انداز کرتے ہوئے عام سطح پر ہم اس بات کو
چند مثالوں میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔
طرز فکر کے بارے میں یہ بات واضح طور پر
سامنے آ چکی ہے کہ زندگی کا ہر عمل اپنی ایک حیثیت رکھتا ہے، اس حیثیت میں معانی
پہنانا دراصل طرز فکر میں تبدیلی ہے۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ ہر چیز جس کا وجود اس
دنیا میں ہے یا آئندہ ہو گا۔وہ لوح محفوظ پر لکھی ہوئی ہے۔ یعنی دنیا میں کوئی چیز
اس وقت تک موجود نہیں ہو سکتی جب تک کہ پہلے سے لوح محفوظ پر موجود نہ ہو۔ کوئی
آدمی اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ وہ پیدا ہونے سے پہلے لوح محفوظ پر موجود ہے۔ زندگی
کے نشیب و فراز سے اس لئے گزرتا ہے کہ زندگی کے نشیب و فراز دن اور ماہ و سال کے
وقفے لوح محفوظ پر موجود ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان وقفوں میں ٹائم کی حیثیت کیا
ہے؟ ایک آدمی جب عاقل بالغ اور باشعور ہوتا ہے تو اس کو زندگی گزارنے کے لئے وسائل
کی ضرورت پیش آتی ہے اور وسائل کو حاصل کرنے کیلئے روپیہ پیسہ بنیادی حیثیت رکھتا
ہے۔ بات کچھ اس طرح ہے کہ ایک آدمی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ روپے متعین کئے
اور وہ ایک لاکھ روپے لوح محفوظ پر لکھے گئے۔ جس طرح ایک لاکھ روپیہ کسی بینک میں
جمع کر دیا جاتا ہے اسی طرح ایک لاکھ روپیہ پہلے سے لوح محفوظ پر جمع ہے۔ وسائل کو
استعمال کرنے کے لئے آدمی کوشش اور جدوجہد کرتا ہے۔ جیسے جیسے کوشش اور جدوجہد کے
مراحل طے کرتا ہے اس کو روپیہ ملتا رہتا ہے اور ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں لیکن
یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ اگر لوح محفوظ پر اس کے حصہ کا زر مبادلہ متعین نہ ہو
تو اسے اس دنیا میں کچھ نہیں مل سکتا۔ ایک طرز فکر یہ ہے کہ آدمی باوجود اس کے کہ
ضمیر ملامت کرتا ہے اپنی روزی کو حرام طریقے سے حاصل کرتا ہے۔ دوسرا آدمی اس بات
کی کوشش کرتا ہے کہ روزی حلال ہو۔ رزق حلال سے
بھی وہ دو روٹی کھاتا ہے اور رزق حرام سے بھی وہ شکم سیری کرتا ہے لیکن یہ
بات اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ اس دنیا میں اسے جو کچھ مل رہا ہے وہ لوح محفوظ سے مل
رہا ہے اور لوح محفوظ میں وسائل اس کے لئے پہلے سے متعین ہیں۔ ایک آدمی محنت
مزدوری کر کے ضمیر کی روشنی میں روپیہ حاصل کرتا ہے۔ دوسرا آدمی ضمیر کی پرواہ نہ
کرتے ہوئے روپیہ حاصل کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اسے اتنا ہی روپیہ مل رہا ہے جو
اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے اس کے لئے جمع کر دیا ہے اس لئے کہ جب تک لوح محفوظ پر
کوئی چیز نقش نہیں ہوتی دنیا میں اس کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے اور
انتہائی درجہ نادانی اور بے وقوفی ہے کہ آدمی اپنی ہی چیز کو حرام کر دیتا ہے اور
اپنی ہی چیز کو حلال کر دیتا ہے۔ قانون یہ ہے کہ جو چیز لوح محفوظ پر نقش ہو گئی
اس کا مظاہرہ لازم بن جاتا ہے۔ راسخ فی العلم لوگ اس بات کا مشاہدہ کر لیتے ہیں کہ
ہر مظہر کا تعلق، ہر عمل کا تعلق، ہر حرکت کا تعلق لوح محفوظ سے ہے۔
اس لئے وہ برملا اس کا اعلان کرتے ہیں کہ
ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اس اعلان کے ساتھ ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ
اللہ نے ہمارے لئے جو کچھ متعین کر لیا وہ ضرور ملے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی
نظروں کے سامنے یہ بات بھی آ جاتی ہے کہ ہمارے لئے لوح محفوظ پر اتنا سرمایہ یا
اتنے وسائل مخصوص کر دیئے گئے ہیں بالکل اس طرح جیسے کسی آدمی کو یہ معلوم ہو کہ
بینک میں میرے نام سے ایک کروڑ روپیہ جمع ہے۔ چونکہ مظاہراتی طور پر یہ بات اس کے
یقین میں ہے کہ میرے نام سے ایک کروڑ روپیہ جمع ہے وہ اس بات سے مطمئن رہتا ہے
راسخ فی العلم لوگ چونکہ لوح محفوظ کے نقوش کا مشاہدہ کر لیتے ہیں۔ اس لئے وہ کسی
تکلیف کو یا کسی آرام کو عارضی تکلیف یا عارضی کمی سمجھتے ہیں اور اس مشاہدے کے
بعد ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں
مخصوص کر دی ہیں وہ ہمیں ہر حال میں میسر آئیں گی اور یہ یقین ان میں استغناء کی
طاقت پیدا کر دیتا ہے۔ مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاء نے مجھ سے فرمایا کہ
استغناء بغیر یقین کے پیدا نہیں ہوتا اور یقین بغیر مشاہدے کے تکمیل نہیں پاتا اور
جس آدمی میں استغناء نہیں ہے اس آدمی کا تعلق اللہ تعالیٰ سے کم اور مادیت سے
زیادہ رہتا ہے۔ تصوف اور روحانیت دراصل ایسے اسباق کی دستاویز ہے جن اسباق میں یہ
بات وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ سکون کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر
استغناء ہو۔ استغناء کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل ہو۔ توکل کو مستحکم
کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر ایمان ہو اور ایمان کے لئے ضروری ہے کہ آدمی
کے اندر وہ نظر کام کرتی ہو جو نظر غیب میں دیکھتی ہے۔ بصورت دیگر کسی بندے کو
کبھی سکون میسر نہیں آ سکتا۔ آج کی دنیا میں عجیب صورت حال ہے کہ ہر آدمی دنیا کے
پیچھے بھاگ رہا ہے، ہر آدمی دولت کے ا نبار اپنے گرد جمع کرنا چاہتا ہے اور یہ
شکایت کرتا ہے کہ سکون نہیں ہے، سکون نہیں ہے۔ سکون ہرگز کوئی عارضی چیز نہیں ہے۔
سکون ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو یقینی ہے اور جس کے اوپر کبھی موت واقع نہیں
ہوتی۔ ایسی چیزوں سے جو چیزیں عارضی ہیں، فانی ہیں اور جن پر ہماری ظاہرہ آنکھوں
کے سامنے بھی موت وارد ہوتی رہتی ہے ان سے ہرگز سکون حاصل نہیں ہو سکتا۔
مراقبہ اس سلسلے میں ایک ایسی کوشش ہے جس
کوشش پر یہ طرزیں متعین ہیں کہ آدمی فانی اور مادی چیزوں سے اپنے ذہن کو ہٹا کر
حقیقی اور لافانی چیزوں میں تفکر کرے۔ یہ تفکر جب قدم قدم چلا کر غیب کی دنیا میں
کسی بندے کو پہنچاتا ہے تو سب سے پہلے اس کے اندر یقین پیدا ہوتا ہے۔ جیسے ہی یقین
کی کرن دماغ میں پھوٹی ہے وہ نظر کام کرنے لگتی ہے جو نظر غیب کا مشاہدہ کرتی ہے۔
غیب میں مشاہدے کے بعد کسی بندے پر جب یہ راز منکشف ہو جاتا ہے کہ ساری کائنات کی
باگ دوڑ ایک واحد ہستی کے ہاتھ میں ہے تو اس کا تمام تر ذہنی رجحان اس ذات پر
مرکوز ہو جاتا ہے۔ اور اس مرکزیت کے بعد استغناء کا درخت آدمی کے اندر شاخ در شاخ
پھیلتا رہتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔