Topics
سوال: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے
دن کام کرنے کیلئے اور رات آرام کیلئے بنائی ہے۔ آپ اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ
لاشعور کو بیدار کرنے کیلئے نیند کم کرنی چاہئے۔ بابا تاج الدینؒ رات کو مراقبہ
کرتے تھے، رات میں جاگنے سے لا شعور بیدار ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص اس طرح کرے تو
بیمار تو نہیں ہو گا کہتے ہیں کہ لوگ رات میں عبادت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے قریب
ہوتے ہیں۔ کتنی نیند کرنی چاہئے، کس وقت سوئیں، کس وقت اٹھیں، لاشعور بیدار کرنے
کیلئے نیند کم کرنے سے بیمار تو نہیں ہونگے؟
جواب: نیند اور کھانے پینے کا تعلق عادت
سے ہے مثلاً ایک آدمی اپنی خوراک 16روٹیاں کر لے تو وہ 16روٹیاں کھاتا رہے گا جسم
اس کا پھیلتا رہے گا۔ ایسے بھی لوگ آپ نے دیکھے ہونگے، میں نے تو اپنے پیر و مرشد
کو دیکھا وہ چھوٹی چھوٹی دو ٹکیاں ایک ٹکیہ صبح اور ایک ٹکیہ شام کو کھاتے تھے۔
چلتے پھرتے بھی تھے، کام کاج بھی کرتے تھے۔ نماز، روزہ، غسل خانہ جانا، اپنا چھوٹا
موٹا کام کرنا، وہ سب کرتے تھے۔ تو غذا کا جو مسئلہ ہے وہ ایسا ہے کہ اس کو جتنا
چاہے بڑھا لو اور جتنا چاہے گھٹا لو۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ مجھے حیرت ہے کہ لوگ
کھاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ اتنے لوگ تلوار سے ہلاک نہیں ہوئے جتنے کھانے سے ہلاک
ہوئے ہیں یعنی وہ اتنا کھاتے ہیں کہ بیمار ہو جاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ اب یہی
صورت حال نیند کی ہے جو غذا کی ہے کم کریں یا زیادہ کریں۔
16روٹیاں کھائیں4روٹیاں بھی کھا سکتے ہیں۔
دو صبح کھائیں دو شام کھائیں۔ آپ کی صحت اچھی رہے گی۔ آپ اپنی غذا کو کم بھی کر
سکتے ہیں اور اعتدال سے ہٹ کر زیادہ سے زیادہ بھی کر سکتے ہیں یہی حال نیند کا بھی
ہے۔ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو 16,16گھنٹے سوتے ہیں ان کی کمر ہی نہیں
دکھتی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے اپنی نیند بڑھا لی اور ایسے بھی لوگ ہیں جو
تین گھنٹہ سوتے ہیں اور تین گھنٹہ سونے کے بعد بڑے چاق و چوبند ہوتے ہیں اور حاضر
دماغ بھی رہتے ہیں۔ بہت کام کرتے ہیں خود میں جب شروع شروع میں کالم لکھتا تھا تو عموماً
19گھنٹہ روز کام کرتا تھا۔ یہ آپ کے جو خطوط آتے ہیں وہ میں سارے خود ہی لکھا کرتا
تھا۔ اب تو ماشاء اللہ مجھے بہت سارے لوگ مل گئے ہیں ان سے بھی پورا نہیں ہوتا
جبکہ میں اکیلا کر لیا کرتا تھا۔ 19گھنٹہ میں، میں کبھی نہیں تھکا اس میں ذوق و
شوق کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ میرے پیر و مرشد قلندر بابا اولیاءؒ نے مجھ سے یہ
فرمایا کہ اللہ سے دوستی کرنی ہے تو مخلوق سے محبت کرو، خدمت کرو۔ تو ذوق و شوق
میں نیند کا کوئی غلبہ نہیں ہوتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے حضورؐ سے فرمایا:
یا
ایھا المزمل قرآن کریم کی آیت۔
ترجمہ: اے پیغمبر کمبل اوڑھنے والے! اللہ
تعالیٰ اپنے حبیب کو نت نئے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ اپنے محبوب کو بڑے بڑے خطاب
دیئے کبھی حٰم کہہ دیا کبھی یٰسین کہہ دیا تو کبھی یا
ایھا المزمل کہہ دیا کبھی یا ایھا المدثر کہہ دیا۔
اپنے حبیب، اپنے محبوب کو جس طرح بھی یاد کریں۔
اے پیغمبر رات کو آدھی رات گزر جائے یا
آدھی رات سے کم گزر جائے یا تھوڑی زیادہ گزر جائے اٹھو اور اٹھ کر قرآن پڑھو۔
اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ نیند پر کنٹرول حاصل کریں تو زیادہ سونا جو ہے جس طرح
آدمی سونے سے بیمار ہوتا ہے یعنی اتنا کم سوئیں ایک گھنٹہ ہی سوئیں تو لازمی بیمار
ہو جائیں گے لیکن فرض کریں ایک آدمی کی نیند کا وقفہ 5گھنٹہ ہے اور وہ 4گھنٹہ سوئے
تو بیمار نہیں ہو گا عادت پڑ جائے گی اور ایک آدمی باکل سوتا رہے تو وہ بیمار پڑ
جائے گا۔ روحانی لوگ یہ کہتے ہیں کہ 5گھنٹہ سے زیادہ نہیں سونا چاہئے۔
آدمی اگر ایک دم جاگنے کی پریکٹس شروع کر
دے تو بیمار ہو سکتا ہے آہستہ آہستہ اگر پریکٹس کی جائے تو 5گھنٹے کی نیند انسان
کیلئے کافی ہے۔ آدمی چست بھی رہتا ہے، خوش بھی رہتا ہے، صحت بھی اچھی رہتی ہے،
بھوک بھی زیادہ لگتی ہے۔ آپ کبھی تجربہ کر لیں کہ کم سونے والے بندوں کو بھوک زیادہ
لگتی ہے کس لئے اس لئے کہ جتنا کام کریں گے حرکت ہو گی، کھانا زیادہ ہضم ہو گا۔
اگر کسی چیز کو اعتدال سے ہٹ کر کیا جائے تو آدمی بیمار ہو جائے گا اور اگر کسی
چیز کو اعتدال میں رہ کر کیا جائے آہستہ آہستہ کیا جائے اور ساتھ ساتھ یہ کہ اس کے
پیچھے کوئی رہنما بھی ہو، استاد بھی ہو تو اس میں کوئی نقصان نہیں ہو گا اور نہ ہی
کوئی تکلیف ہو گی۔
جس طرح زندگی کے دوسرے تقاضے پورے کرنے
کیلئے ہم اعتدال کرتے ہیں اگر اسی صورت سے نیند کی کمی کر دیں۔ نیند کی کمی سے بلا
شبہ لاشعور بیدار ہوتا ہے۔ نیند کی کمی اس حد تک کر لیں کہ جتنی ہمیں نیند کی
ضرورت ہے اگر ہمیں 5گھنٹہ نیند کی ضرورت ہے تو 6گھنٹہ کیوں سوئیں اگر ہمیں 6گھنٹہ
نیند کی ضرورت ہے تو ہمیں چاہئے کہ 6گھنٹہ سوئیں 7گھنٹہ کیوں سوئیں۔ ان 7گھنٹوں
میں دنیا کا کام کریں، مطالعہ کریں اللہ کے نام کو پھیلانے کے لئے تبلیغ کا کام
کریں، بیسیوں کام کر سکتے ہیں۔ آدمی اعتدال سے ہٹ کر کوئی بھی کام کرے گا بیمار ہو
جائے گا وہ نیند ہو چاہے وہ کھانا ہو۔ کھانا آپ اعتدال سے ہٹ کر کھائیں گے بیمار
ہو جائیں گے اور اگر اعتدال میں رہ کر کام کیا جائے تو وہ کام خوشی کا باعث بن
جاتا ہے اور اس سے صحت مندی حاصل ہوتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔