Topics
یہ بات اظہر من الشمس ہے
کہ ہر زمانے میں اولیاء اللہ میں سے کوئی نہ کوئی بزرگ ایسا ضرور پیدا ہوتا رہا ہے
جس کو عنایت الٰہی اور فیضان قدس سے اس امر کی استعداد ملتی ہے کہ وہ روحانیت کے
قیام اور اس کی اشاعت کی کوشش کرے اور لوگوں کو صفت احسان کا مظہر بننے کی دعوت
دے۔ ایسے بزرگوں کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ لوگوں میں ان کی رفعت شان کا عام چرچا ہوتا
ہے اور خلقت ان کی طرف کھنچتی چلی آتی ہے۔ عام طور پر لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں
اور منکر و مخالف لوگ بھی ان کی عظمت و سچائی کے کسی نہ کسی طور قائل ہو جاتے ہیں۔
ان بزرگوں کی صحبت اور باتوں میں جذب و تاثیر کی غیر معمولی قوت پیدا ہو جاتی ہے
اور اس سے ہر طرح کی کرامت کا ظہور ہونے لگتا ہے۔ میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس
الدین عظیمی فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے ساتھ محبت کرتا ہے تو لوگوں
کے دلوں میں اس شخص کے لئے محبت ڈال دیتا ہے اور لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔
خود اللہ تعالیٰ کے ارشاد
کے مطابق اللہ کے دوستوں کو خوف ہوتا ہے اور نہ غم، وہ اطمینان اور سکون کی زندگی
گزارتے ہیں۔ پیر و مرشد یا مراد وہ شخصیت ہے جس کا کردار عوام الناس سے اور ان
لوگوں سے جو روحانی حقیقتوں سے بے خبر ہیں ممتاز ہوتا ہے۔
ابدال حق حضور قلندر بابا
اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ پیر اور فقیر میں فرق ہے۔ فقیر کی تعریف یہ ہے کہ اس کے
اندر استغناء ملے گا اس کے اندر دنیاوی لالچ نہیں ہو گا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا
ہے کہ اس کا کفیل صرف اور صرف اللہ ہے۔ اللہ اس کو اطلس و کمخواب پہنا دیتا ہے وہ
خوش ہو کر پہن لیتا ہے۔ اللہ اس کو کھدر پہنا دیتا ہے اس میں بھی وہ خوش رہتا ہے۔
اللہ اس کو لنگوٹی پہنا دیتا ہے وہ اس میں بھی خوش رہتا ہے۔ اللہ اس سے لنگوٹی
چھین لیتا ہے وہ اس میں بھی خوش رہتا ہے اور دوسری پہچان یہ ہے کہ جب کوئی بندہ فی
الواقع کسی فقیر کی صحبت میں رہتا ہے تو اس کا ذہن صرف اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔
شاذ و نادر ہی اسے دنیا کے کام کا خیال آتا ہے۔
فقیر کے متعلق حضرت امام
بریؒ فرماتے ہیں:
‘‘فقیر کا سرمایہ اللہ
تعالیٰ اور اس کے حبیبﷺ سے بے پناہ محبت اور والہانہ عشق ہے۔ عرفان کے سمندر پی
جانا فقیر کی شان ہے۔ فقیر کا در ہر ایک کے لئے کھلا رہتا ہے خواہ وہ مسلم ہو یا
غیر مسلم۔ امیر غریب کے فرق مراتب سے بھی فقیر بے نیاز ہوتا ہے۔ فقیری بڑا کٹھن
اور نازک راستہ ہے۔ فقیر کی نظر صرف تین چیزوں پر ہوتی ہے۔ علم، فقر اور شمشیر
یعنی علم برائے تبلیغ اسلام، فقر برائے خدمت خلق اور شمشیر برائے جہاد اسلام۔ فقیر
کے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہی دل میں بھی ہوتی ہے کیونکہ اگر انسان کا دل نیک ہے
تو جسم بھی پاک ورنہ اس کے تمام اعمال بیکار ہو جاتے ہیں۔’’
امام ابوالقاسم
عبدالکریمؒ فرماتے ہیں کہ جو چیز اوروں کے لئے غیب ہے وہ کامل مرشد کے لئے ظاہر ہے
اور جو معرفت کے علوم لوگ حاصل کرنا چاہتے ہوں وہ ان کے لئے حق تعالیٰ کی طرف سے
موجود ہیں۔
حضرت غوث علی شاہؒ صاحب
فرماتے ہیں کہ ہم بابری سے ہردوار جاتے ہوئے جب کنکھل کے مقام پر پہنچے تو وہاں پر
دو مجذوب دیکھے۔ کسی بے رحم ظالم نے ان کی رانوں پر دہکتے ہوئے انگارے رکھ دیئے
تھے۔ ایک کی ران تو جل گئی تھی اور دوسری پر کچھ اثر نہ تھا۔ ہم نے جھٹ پٹ انگارے
الگ کئے اور ان کو ڈولی میں سوار کر کے جوالاپور کے تھانہ میں لائے۔ تھانہ دار سے
ہماری ملاقات تھی اس نے جلے ہوئے کی مرہم پٹی کرائی۔ یہاں حضرت نے فرمایا کہ ان
دونوں میں اعلیٰ درجہ میں کون تھا۔ حاضرین میں سے ایک نے جواب دیا کہ جس کی ران
نہیں جلی تھی۔ آپ نے جواب دیا کہ نہیں جس کی ران نہیں جلی تھی وہ ابھی جسم کی
حفاظت پر قادر تھا۔ لیکن دوسرے کا استغراق اعلیٰ درجے کا تھا کہ تن بدن کا بھی ہوش
باقی نہ رہا تھا۔ اگر اس کے استغراق کامل کو بزرگان اسلام سے نسبت دیں تو لوگ برا
مانیں مگر انصاف تو یہ ہے کہ ایسا استغراق کروڑوں میں سے کسی ایک کو ہوتا ہے ورنہ
ہر ایک سزا وار اس مقام کا نہیں۔ محبت کے رازوں کے قابل ہر ایک دل نہیں ہوتا یعنی
ہر دل میں محبت کے راز نہیں سما سکتے۔ کیونکہ ہر دریا میں موتی نہیں ہوتے اور ہر کان
میں سونا نہیں ہوتا۔ گویا مرد کامل اللہ کی محبت میں اس طرح گم ہوتا ہے کہ اسے
اپنے جسم کی بھی خبر نہی رہتی۔
حضرت غوث علی شاہ صاحبؒ
فرماتے ہیں کہ گروہ کاملین تین قسموں پر منقسم ہے کامل، اکمل، مکمل۔ کامل اس کو
کہتے ہیں جو خود تو صاحب کمال ہو مگر کسی کو فیض و فائدہ نہ پہنچا سکے۔ اکمل وہ ہے
کہ خود بھی صاحب کمال ہو اور فیضان باطنی و ہدایت ظاہری سے اوروں کو فائدہ
پہنچائے۔ یہ شخص اول سے بدرجہا بزرگ ہوتا ہے۔ مکمل اس کو کہتے ہیں کہ اوروں کو
مشیت ایزدی اور تقدیر الٰہی کے موافق خواہ گھنٹہ میں خواہ مہینہ میں خواہ سال میں
کامل و مکمل بنا دے اور جو کرامات اور مکاشفات اپنی ذات میں رکھتا ہے مرید کو عطا
فرما دے ایسا شخص مذکورہ بالا سے بھی نہایت معظم و مکرم ہوتا ہے۔ گر وہ مکمل کی
تعلیم و تلقین کا طریقہ یہ ہے کہ اول طالب کو خاندان کے موافق بیعت کر کے ذکر
ارشاد فرماتے ہیں۔ خواہ اسم ذات خواہ نفی و اثبات مگر اس زمانہ کے مشائخین کی طرح
سامنے بٹھا کر توجہ نہیں دیتے البتہ قلبی توجہ دیتے ہیں جہاں کہیں مرید ہو چاہے
ہزار فرسنگ چاہے میل، اپنا برزخ اس کے دل میں حلول کر دیتے ہیں اس توجہ کا اثر
طالب کے دل سے زائل نہیں ہوتا۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس
الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ کے دل ہدایت، خلوص، ایثار، محبت اور
عشق کے چراغ ہیں۔ یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ایسے دوست ہیں جن کو اللہ اور اس کے
رسولﷺ عزیز رکھتے ہیں۔ ان سے محبت کرتے ہیں۔ رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ کے دوستوں
کا دشمن خدا اور رسول کا دشمن ہے۔
فرمایا رسولﷺ نے جو شخص
کہ دشمنی رکھے خدا کے کسی دوست کے ساتھ بے شک اس نے اللہ کے ساتھ لڑائی کا ارادہ
کیا۔ تحقیق اللہ دوست رکھتا ہے ایسے برگزیدہ پوشیدہ حال بندوں کو جن کے دل ہدایت
کے چراغ ہیں۔
ایک روز امرائے عرب میں
سے کچھ لوگ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ ‘‘ہمارا دل چاہتا ہے کہ
آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں لیکن یہ شکستہ حال اصحاب آپ کے ہم نشین ہیں اگر ہمیں
تنہائی فراہم کر دی جائے تو ہم آپﷺ سے دینی مسائل حاصل کر لیا کریں گے۔’’
اللہ تعالیٰ دانا اور
علیم و خبیر ہے۔ جیسے ہی یہ بات ان کے منہ سے نکلی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ‘‘اے
محمدﷺ! ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ کریں جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں اور
اس کی دید کے متمنی رہتے ہیں۔ آپ پر نہیں ہے ان کے حساب سے کچھ اور نہ آپ کے حساب
میں سے ان پر ہے کچھ کہ آپ ان کو دور کرنے لگیں۔’’
غور طلب بات یہ ہے کہ اگر
ان فقراء کو تھوڑی دیر کے لئے ہٹا دیا جاتا تو عرب کے بڑے بڑے امراء مسلمان ہو
جاتے لیکن اللہ کی غیرت نے اس کو پسند نہیں کیا کہ اس کے دوستوں کو کوئی حقارت سے
دیکھے۔
مردان
خدا خدا نباشد
لیکن
زخدا جدا نباشد
خدا کے بندے خدا نہیں
ہوتے، لیکن خدا سے جدا بھی نہیں ہوتے۔
تذکرہ اولیائے نقشبندیہ
میں علامہ نور بخش توکلیؒ لکھتے ہیں:
‘‘حضرت بہا ؤالدین نقشبندؒ
پہلے پہل جلاد تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص کو قتل کرنے پر تین مرتبہ ناکام ہوئے تو آپؒ
نے اس شخص سے پوچھا کہ تم کیا کلمہ پڑھ رہے تھے کہ تلوار تم پر اثر نہیں کر رہی
تھی۔ اس نے جواب دیا کہ میں اپنے پیر کا نام لے رہا تھا۔ پوچھا کون ہے تیرا پیر۔
اس نے کہا سید امیر کلالؒ۔ آپؒ نے تلوار کو وہیں پھینکا اور یہ کہہ کر ان سے بیعت
کے لئے چلے گئے کہ جو تلوار کی زد سے بچا سکتا ہے وہ یقیناً جہنم کی آگ سے بھی بچا
سکتا ہے۔
علامہ اقبالؒ بندہ مومن
کے متعلق فرماتے ہیں:
اس
کا مقام بلند اس کا خیال عظیم
اس
کا سرور اس کا شوق اس کا نیاز اس کا ناز
ہاتھ
ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب
و کار آفریں’ کارکشا’ کارساز
خاکی
و نوری نہاد بندہ مولا صفات
ہر
دو جہاں سے غنی’ اس کا دل بے نیاز
کامل مرشد، سالک کو اس
نہج پر تربیت دیتے ہیں کہ وہ صبر و تحمل، بردباری، عجز و انکساری اور تواضع کو دل
میں جگہ دے۔ بقول علامہ اقبالؒ
دین
ہو فلسفہ ہو فقر ہو سلطانی ہو
ہوتے
ہیں پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر
حرف
اس قوم کا بے سوز’ عمل زار و زبوں
ہو
گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر
فقیر کے لئے ضروری نہیں
کہ وہ خرقہ پوشی اختیار کرے یا سر تراشیدہ ہونے کی وجہ سے فقیر کہلائے۔ فقیر کے
لئے ضروری نہیں کہ وہ تسبیح بدست ہو، اس کے ارد گرد ارادتمندوں کا حلقہ ہو، اس کے
انداز اور احوال میں وجد ہو۔ فقیر نہ ہی خلوت پسند، نامردم بیزار اور نہ ہی حق ھو
میں سست رہتا ہے۔ فقیر اپنے اوصاف، صفات، احوال اور قلندرانہ ادا ؤں سے پہچانا
جاتا ہے۔ اس کا مطلوب فقط قرب الٰہی اور اللہ کی رضا میں زندگی گزارنا ہے۔ اس کا
وجود پورے جہان کے لئے باعث رحمت اور انسانیت کے پیامبر کی حیثیت رکھتا ہے۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
"ذہن کو آزاد کر کے کسی
بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور
طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس
کا فیض ہو گا۔"
اس کتاب کی تیاری میں
مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء
اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں
گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے
کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر
محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)
میاں مشتاق احمد عظیمی