Topics

پہلا باب ۔ ماخذِ حیات


                زندگی روشنی سے آغاز پاتی ہے، روشنی پر ہی زندگی کے قیام کا دارومدار ہے اور روشنی پر ہی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

                آسمانی کتابوں میں اس حقیقت کو واشگاف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے تورات، زبور اور بائبل کے مطابق خدا نے کہا:

                ‘‘روشنی!’’

                اور روشنی ہو گئی

                God said, Light!. And there it was

                یعنی تخلیق کی ابتداء روشنی سے ہوتی اور یہ روشنی ہی ہے جو تخلیق کو سنبھالے رہتی ہے۔ وہ بساط جس پر کائنات اور افراد کائنات کا وجود قیام پذیر ہے روشنی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس حقیقت کو ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دی جانے والی الہامی کتاب قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

                اللہ نور السموات والارض

                اللہ ہی تو ہے جو زمین اور آسمانوں کا نور ہے۔

                یعنی اللہ کا نور ہی تو ہے جو زمینوں اور آسمانوں اور ان میں بسنے والی مخلوقات کی اصل ہے۔ اللہ کو نور السموات اور نورالارض کہا جانا اسی حقیقت کو واشگاف کرتا ہے کہ عرش تا فرش ہر شئے اپنے قیام کیلئے الوہی نور کی محتاج ہے۔ اس نور کی مختلف حالتیں، مختلف سطحوں پر مختلف اثرات پیدا کرتی ہیں۔ ساتویں آسمان سے اوپر عرش، جنت، دوزخ، سدرۃ المنتہیٰ اور اس سے اوپر کے مقامات سبھی اس نور سے ہی فیڈ ہو رہے ہیں۔ ہر آسمان پر اسی نور کی مختلف کیفیات برسر عمل ہیں اور یہی نور ارض یعنی زمین اور اس کے باسیوں کو بھی سنبھالے ہوئے ہے۔

                کہکشانی نظام میں روشنی کا ماخذ سورج کو قرار دیا جاتا ہے اور سورج کائنات قوت کا ایسا خزانہ ہے جو زمین پر بسنے والی مخلوقات کو قوت اور توانائی فراہم کر کے ان کی زندگی کو برقرار رکھتا ہے۔ جمادات، نباتات اور حیوانات سبھی اس روشنی سے براہ راست اور بالواسطہ طور پر مستفیض ہوتے ہیں۔

                سمندر کے اندر نیچے اتر کر دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ سمندر کے اندر انہیں رنگوں سے مزین اتنے خوبصورت مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ دنیا میں خشکی پر ان کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ ان کا کہنا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ انتہائی شوخ رنگوں سے سجے کسی ایسے باغ میں آ نکلے ہیں جہاں رنگ برنگ تتلیوں کے غول کے غول محو رقص ہیں۔ آبی حیات میں رنگوں کا یہ تنوع سورج کی روشنی کا ہی مرہون منت ہے۔

                یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ جب کسی دھات کو سورج کی روشنی میں رکھا جاتا ہے تو اس کا رنگ تبدیل ہو جاتا ہے۔ کچھ دھاتیں ایسی ہیں جن پر دھوپ اپنا اثر جلد مرتب کرتی ہے اور کچھ دھاتیں اس اثر کو دیر میں قبول کرتی ہیں جلد یا بدیر یہ اثر بہر حال مرتب ہونا ضرور ہے۔ حتیٰ کہ کچھ عرصے بعد سونے جیسی دھات کا رنگ بھی بدل جاتا ہے۔

                دھوپ کے اثرات یہیں تک محدود نہیں ہیں۔ اسی دھوپ کے زیر اثر ہوائیں گرم ہو کر اوپر اٹھتی اور فضا کے دبائو میں تغیر و تبدل سے موسموں میں تبدیلیاں لاتی ہیں۔ برفیں پگھلتی ہیں تو ندی، نالوں، دریائوں اور چشموں میں پانی کی فراہمی ممکن ہوتی ہے۔

                اسی دھوپ کی بدولت نباتات میں ضیائی تالیف Photo Synthesisکے عمل کے تحت پودے نہ صرف اپنے لئے خوراک تیار کرتے ہیں بلکہ حیوانات کو بھی خوراک کی فراہمی یقینی بناتے ہیں۔ اگر سورج کی روشنی دستیاب نہ رہے تو نباتات اور حیوانات کا وجود خطرے میں پڑ جائے۔

                سورج کی روشنی سے حیوانات براہ راست اور بلاواسطہ بھی مستفید ہوتے ہیں۔ یہ اس سورج کی روشنی ہی کے باعث ممکن ہوتا ہے کہ حیوانات اپنی آنکھوں کو استعمال کرتے ہیں۔ جانوروں میں یہ روشنی آنکھوں کے ذریعے ان کے بلغمی غدود(Pituitary Glands) کو تحریک دیتی ہے۔ یہ غدود حیوانات میں ایسا مرکزی کردار ادا کرتے ہیں جس کے تحت جسم کے غدودی نظام میں توازن برقرار رہتا ہے۔

                سورج کی روشنی جسم میں سرایت کر کے جراثیم کو مارتی ہے۔ درودوں کو آرام پہنچاتی ہے۔ وٹامن ڈی بنانے میں مدد دیتی ہے جو خون میں کیلشیم کی مقدار کو متوازن رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ اس طرح بچوں اور بڑوں میں ہڈیوں کی بیماریوں کی روک تھام ہوتی ہے۔

                سورج کی روشنی زخموں سے مواد کو خارج کرنے میں بھی معاون ہوتی ہے۔ جسم میں جذب ہو کر اس کو قدرتی ذرائع سے خارج کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جوڑوں، پھیپھڑوں اور پیٹ کے جوف میں پانی جمع ہونے کی صورت میں اس کو خشک کرنے میں معاونت کرتی ہے۔

                سورج کی روشنی قلب اور اعضائے رئیسہ کو تقویت پہنچاتی ہے۔ جسم کی حرارت غریزی میں اضافہ کرتی ہے۔ پسینہ زیادہ آتا ہے اور جسم کی کثافت خارج ہو جاتی ہے۔ سورج کی روشنی اعصابی نظام کو بھی توانائی بخشتی ہے۔ ذہنی صلاحیتوں کو بہتر کرتی ہے۔ نظام انہضام کو درست کرتی ہے، بھوک بڑھاتی اور اچھی نیند کی ضامن ہے۔

                اندھیرے میں رہنے اور دھوپ سے محروم ماحول میں کام کرنے والوں میں خون کے سرخ ذرات کی کمی واقع ہو جاتی ہے جبکہ سورج کی روشنی میں رہنے سے یہ ذرات بڑھ جاتے ہیں یعنی سورج کی روشنی خون کی کمی پورا کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔

                تب دق کا علاج بھی سورج کی شعاعوں سے کیا جا سکتا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے روز مریض کے صرف دونوں پیر پانچ منٹ تک دھوپ میں کھلے رکھے جاتے ہیں۔ یہ عمل دن میں دو تین بار دہرایا جاتا ہے۔ دوسرے روز یہ عمل دس دس منٹ تک کیا جاتا ہے۔ تیسرے روز مریض کی پوری ٹانگیں دھوپ میں رکھی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ پورا جسم دن بھر میں، وقفوں سے تین سے چھ گھنٹے تک دھوپ میں کھلا رکھا جاتا ہے۔

                سورج سے مہیا ہونے والی توانائی کا اندازہ ہمیں اس ایک بات سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ ایک مربع میٹر جگہ میں دن بھر میں سورج سے ۶۱ سے ۶۲ میگا جولز توانائی فراہم کرتی ہے۔ دنیا میں فراہم ہونے والی اس توانائی کا تخمینہ اوسطاً ۳۱ میگا جولز فی مربع میٹر فی دن ہے جبکہ پاکستان میں یہ اوسطاً ۹ میگا جولز فی مربع میٹر ہے۔

                سورج کی روشنی کو بروئے کار لاتے ہوئے آج سائنسدانوں نے شمسی توانائی سے بجلی تک پیدا کرنا شروع کر دی ہے اور اس ایجاد کا استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ جیبی کیلکولیٹرز تک میں شمسی بیٹریوں Photo-voltic cellsکا استعمال کیا جانے لگا ہے۔

                جاپان کے ایک ڈاکٹر میکی ٹکاٹا نے بیسویں صدی کے اوائل میں رنگوں پر مختلف تجربات کے دوران یہ دریافت کیا کہ سورج پر ابھرنے والے دھبوں کا اثر براہ راست انسانی جسم میں گردش کرنے والے مائعات پر پڑتا ہے اور ان کے نتیجہ میں خون میں چربی(البومین) کی مقداریں کم ہو جاتیں ہیں۔ خون میں سفید ذرات (W.B.C) کی مقدار میں تغیر آ جاتا ہے۔ عورتوں کے ماہواری نظام ان کی بارآوری اور حمل پذیری کی مدت بھی متاثر ہوتی ہے۔ تجربہ گاہوں میں سیرم (Cerum) کے رنگوں کی فریکوئنسی میں تبدیلی کی شرح معلوم کرنے کے مختلف ٹیسٹوں کے ذریعے سترہ سالہ تحقیق سے یہ بات پابۂ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ سورج میں پڑنے والے دھبوں سے وابستہ ہر مقناطیسی ارتعاشات سے انسانی جسم اور خون کے رنگوں میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ کائنات میں پھیلتے بکھرتے رنگ انسانی جسم کے اندر کس قدر گہرائی میں عمل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ٹکاٹا نے یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچانے کے لئے ایک مریض کو دو سو میٹر گہری کان میں لے جا کر اس کے خون کے نمونوں پر تجربات کر کے یہ دیکھا کہ سورج پر پڑنے والے دھبوں کے اثرات سے وہ محفوظ مامون رہا۔

 

 

 

Topics


Chromopathy

ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی


روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔                میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔

                (آمین)

                

                                                                                                                                                خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                                مرکزی مراقبہ ہال

                                                                کراچی